|
وہ کبھی کاروں کی صنعت کے دیوتا تھے جن کو جاپان میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا
تھا۔ پھر وہ ملک کے ایک ایسے مشہور شخص بنے جن پر ایک بڑے جرم کے ارتقاب کا
شک کیا جانے لگا اور اب وہ ایک بین الاقوامی مفرور بن گئے ہیں۔
نِسان کے سابق ارب پتی سربراہ کارلوس غصن نے مالیاتی بدعنوانی کے مقدمے کا
سامنا کرنے کے لیے کئی مہینے تیاری کی۔ کم از کم جاپانی حکام کو تو یہی
بتایا گیا تھا۔
مسٹر غصن کو اس برس اپریل میں نوے لاکھ ڈالر کی ضمانت پر سخت شرائط کے ساتھ
رہا کیا گیا تھا جن میں سے ایک ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی بھی تھی۔
ان کی ٹوکیو میں رہائش کے ارد گرد ویڈیو کیمرے لگے ہوئے تھے جہاں ان کی 24
گھنٹے نگرانی ہوتی تھی۔ ان پر ٹیلی فون اور کمپیوٹر استعمال کرنے کی بھی
پابندی تھی۔
انھوں نے اپنے پاسپورٹ اپنے وکلا کے حوالے کر رکھے تھے اور دو راتوں سے
زیادہ اپنی رہائش سے باہر جانے کی صورت میں انھیں حکام سے اجازت لینی پڑتی
تھی۔
اور پھر نئے سال کی شام کو وہ لبنان میں نظر آتے ہیں اور ایک بیان میں کہتے
ہیں کہ ’میں ناانصافی اور سیاسی ظلم و ستم سے فرار ہو کر آیا ہوں۔‘
تاہم ان کے وکیل جیونی چیرو ہیروناکا نے ٹوکیو میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ
’ہم خود اس بات پر حیران ہیں۔ میرے پاس کوئی الفاظ نہیں۔‘
’میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘
دوسرا سوال ہے کہ انھوں نے ایسا کیسے کر لیا۔
ایک میوزیکل فرار؟
ایک لبنانی چینل ایم ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ کارلوس غصن ٹوکیو میں اپنی
رہائش گاہ سے نیم فوجی دستوں کے ذریعے موسیقاروں کے ایک بینڈ کے بھیس میں
فرار ہوئے۔‘
کہا جا رہا ہے کہ بینڈ نے ان کے گھر میں پرفارم کیا اور پرفارمنس ختم ہوتے
ہی 65 سالہ غصن ایک بڑے میوزیکل انسٹرومنٹ (آلے) کے ڈبے میں گھس گئے جسے
جلدی جلدی مقامی ایئرپورٹ لے جایا گیا۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ پانچ فٹ چھ انچ
کے غصن کے لیے ایک مشکل سفر ضرور ہو گا۔
ایم ٹی وی کے مطابق وہ وہاں سے ترکی گئے جہاں سے ایک نجی طیارے کے ذریعے وہ
لبنان پہنچے۔ ایم ٹی وی نے اس دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیے ابھی تک کوئی
ثبوت فراہم نہیں کیا ہے اور یہ سوشل میڈیا پر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
|
|
لیکن جاسوسوں کی طرح بھیس بدلنا غصن کے لیے کوئی نیا کام نہیں ہے۔ اس سے
پہلے بھی مارچ میں وہ صحافیوں سے بچنے کے لیے جیل سے ایک کنسٹرکشن ورکر کے
بھیس میں نکلے تھے۔ جلد ہی ان کی شناخت ہو گئی، میڈیا میں ان کا مذاق اڑا
اور ان کے وکیل کو اس پر معذرت کرنا پڑی۔
کیرول غصن کا کردار
اخبار دی وال سٹریٹ جرنل کے مطابق نِسان کے سابق سی ای او کے ٹوکیو سے
لبنان فرار کی تیاری کا منصوبہ کئی ہفتوں میں تیار گیا تھا۔
اخبار نے کئی غیر تصدیق شدہ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اس پلان کو شرمندۂ
تعبیر بنانے کے لیے ٹیم بڑی احتیاط سے بنائی گئی تھی۔ اخبار کے مطابق جاپان
میں ان کے ساتھیوں نے غصن کو گھر سے ایک نجی جیٹ کے ذریعے استنبول روانہ
کیا۔ وہاں سے انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور 30 دسمبر کی صبح بیروت پہنچ
گئے۔
|
|
جہازوں کی آمدورفت کا ٹریک رکھنے والی ویب سائٹ ’فلائٹ ریڈار 24‘ کے مطابق
مقامی وقت صبح چار بجے ایک مومبارڈیئر چیلنجر نجی طیارہ بیروت کے رفیق
حریری بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتا ہے۔ اس کے بعد غصن اپنی بیوی کیرول
سے ملتے ہیں جو بیروت میں ہی پیدا ہوئی تھیں، اخبار کے مطابق اس آپریشن میں
ان کا بہت ہاتھ ہے۔
کئی دیگر خبریں بھی اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کیرول غصن کا اپنے شوہر کے
جاپان سے فرار میں بہت اہم کردار ہے۔ غصن کے وکیل کے مطابق 24 دسمبر کو ان
کی بیوی نے ان سے تقریباً ایک گھنٹہ سے زیادہ ٹیلیفون پر بات کی تھی۔ اس سے
قبل کارلوس غصن کی انتہائی سخت ضمانت کی شرائط کے مطابق دونوں آپس میں نہ
مل سکتے تھے اور نہ بات کر سکتے تھے۔
غصن کے لبنان پہنچنے کے بعد کیرول نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ ان کا
شوہر کے ساتھ ملاپ ’میری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔‘ انھوں نے اس
کارروائی میں اپنے کردار پر کوئی بات نہیں کی۔
اس سے قبل انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: ’مجھے میرا شوہر
واپس چاہیئے۔ میں انھیں اپنے پاس چاہتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ بے گناہ
ہیں۔‘
|
|
غصن برازیل میں لبنانی نژاد والدین کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے
لیے فرانس روانہ ہونے سے پہلے ان کی پرورش بیروت میں ہوئی تھی اور وہ وہاں
بہت مشہور ہیں، یہاں تک کہ لبنان کی ایک ڈاک کی ٹکٹ پر ان کی تصویر بھی ہے۔
وہ متعدد مرتبہ ان پر لگائے گئے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
تین پاسپورٹ
سوال اب بھی یہی ہے کہ کارلوس غصن کن دستاویزات پر لبنان داخل ہوئے۔ ان کے
پاس برازیل، جاپان اور لبنان کے تین پاسپورٹ ہیں، لیکن ان کی قانونی ٹیم کے
مطابق وہ سبھی پاسپورٹ جاپان میں حکام کی تحویل میں ہیں۔
ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کہ غصن کے پاس کسی پاسپورٹ کی کوئی اور کاپی بھی
موجود تھی کہ نہیں، جو کہ عموماً کاروباری حضرات اپنے پاس رکھتے ہیں۔ یہ
بھی رپورٹ ہوا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ لبنان نے ان کو کوئی ڈپلومیٹک پاسپورٹ
جاری کیا ہو لیکن اس کی بھی ابھی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
اگرچہ فرانس کے اخبار ’لے موند‘ نے کہا ہے کہ انھوں نے سفر کے لیے اپنا
شناختی کارڈ استعمال کیا، لیکن دوسرے اخبارات نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے
انھوں نے فرانسیسی پاسپورٹ یا جعلی شناختی دستاویزات استعمال کی ہوں۔ لبنان
کی وزارتِ خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ غصن نے کون سا پاسپورٹ استعمال کیا
تاہم انھوں نے اس بات پر ضرور اصرار کیا کہ نِسان کے سابق سربراہ ملک میں
قانونی طریقے سے داخل ہوئے ہیں۔
جاپان میں ردِ عمل
کارلوس غصن کے فرار پر جاپان میں شدید ردِ عمل پایا جاتا ہے۔ ایک جاپانی
سیاستدان نے سوال کیا کہ ’کیا انھیں کسی ملک کی حمایت حاصل تھی۔‘ ٹوکیو کے
سابق گورنر نے تو سیدھا لبنان پر ہی الزام لگا دیا۔
لبنانی حکومت نے کہا ہے کہ ان کا غصن کے لبنان آنے سے کوئی سروکار نہیں۔
ایک لبنانی وزیر سلیم جسیراتی نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ’ہم ان کی آمد
کے حالات کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔‘
لبنان اور جاپان کے درمیان مفرور افراد کے تبادلے کا کوئی قانونی معاہدہ
موجود نہیں ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ غصن کے مقدمے پر بھی ایک غیر یقینی کی
صورتِ حال چھا گئی ہے۔
جاپان کی جانب سے لبنان کو کروڑوں ڈالر کی امداد دی جاتی ہے اور اب وہ مسٹر
غصن کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ مسٹر غصن جاپان سے تو فرار ہونے میں
کامیاب ہوگئے ہیں لیکن وہ اپنے مسائل سے فرار نہیں ہو پائے ہیں۔
|
|
کارلوس غصن کا مقدمہ
کارلوس غصن جن کی اس وقت مالی ساکھ بارہ کروڑ امریکی ڈالر بتائی جا رہی ہے،
سنہ 2018 میں اپنی گرفتاری تک دنیا میں گاڑیاں بنانے کی صنعت میں ایک بہت
طاقتور شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ وہ مالیاتی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تردید
کرتے ہیں۔
ان پر شروع ہونے والے مقدمے میں دنیا بھر میں دلچسپی لی جارہی ہے اور جاپان
کے عدالتی نظام کے نقائص پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔
مسٹر غصن کو اس برس اپریل میں نوے لاکھ ڈالر کی ضمانت پر سخت شرائط کے ساتھ
رہا کیا گیا تھا جن میں ایک ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی تھی۔
|
|
لبنان کی نامور شخصیت
بی بی سی نیوز کے بیروت میں نامہ نگار کوئنٹن سومروائیل کا تجزیہ
بیروت کے امرا کے رہائشی علاقے میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی مالیت کی گلابی رنگ
کی رہائش گاہ میں ان کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ یہ رہائش بھی اس
مقدمے کی وجہ سے متنازعہ ہے اور اس لیے خالی پڑی ہوئی ہے۔
لیکن نِسان کے سابق سربراہ کو لبنان کے کسی بھی حصے میں آرام دہ اور محفوظ
جگہ ڈھونڈنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ لبنانی نژاد ہونے کی وجہ سے مسٹر
غصن نے اپنا بچپن اسی ملک میں اپنے رشتہ داروں میں بسر کیا ہے۔
وہ لبنان میں انگوروں کے باغات اور اس سے وابستہ صنعت کی مالک کمپنی
’اِکسیر‘ کے بانی ہیں۔ یہ کمپنی اعلیٰ معیار اور بہترین قسم کی شراب کشید
کرتی ہے۔
وہ ایک برس تک جاپان میں قید میں رہے ہیں اور اس دوران لبنان بہت ہی
ڈرامائی طور پر بدل چکا ہے۔ کرپشن کے خلاف مہینوں سے جاری مظاہروں کی وجہ
سے وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑا اور اس وقت پورا ملک ایک سنگین اقتصادی
بحران سے گزر رہا ہے۔ |