آج یکم جنوری ہے۔فیس بک‘ وٹس ایپ‘ٹویٹر پر ایک ہلچل سی
مچی ہوئی ہے:’’نیا سال مبارک ہو‘نیا سال مبارک ہو‘‘۔ دل خوشیوں کی نویدیں
سنا رہا تھا اور دماغ پچھلے سال کی تلخیوں کو یاد کر رہا تھا۔دل اور دماغ
کی اس لڑائی میں‘میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پارہی تھی کہ خوش ہوں یا
روؤں۔کافی دیر سے سوشل میڈیا اور اپنے آپ سے اس بات کو سمجھنے کے لیے لڑ
رہی تھی کہ ’’کیا ہے نیا سال‘‘۔دیوار سے پرانا کیلنڈر اترنے اور نیا کیلنڈر
لگ جانے کا نام ہے یا ’’نیا سال‘‘سن عیسوی کے ہندسے بدل جانے کا نام ہے۔
اسی کشمکش میں مبتلا تھی تو فیض احمد فیض کی خوبصورت نظم ’’نیا سال‘‘یاد آ
گئی۔اس کے چند اشعارپیش خدمت ہیں:
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی‘ شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارک بادیں
غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا استقبال بڑے جوش وخروش سے کیا جاتا
ہے۔نئے سال کی آمد کے لیے نوجوان نسل کچھ زیادہ ہی پُرجوش نظر آتی ہے۔مسلم
اورغیر مسلم اس تہوار کو بڑے جوش سے مناتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی
غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار یاد رکھتے اور اتنے جوشوں خروش سے مناتے
دیکھا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ’’کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول
گیا‘‘ہم اپنی ’’تہذیب‘‘اپنے ’’تہوار‘‘ بھول کر کسی اور قوم کی پیروی پر چل
پڑے ہیں۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ کل
قیامت کے دن انہی میں شمار ہو گا۔‘‘(ابوداؤد)
ہمارا نیا اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔ہمارا کیلنڈر قمری
ہے۔قمری کیلنڈر کا انحصار چاند کے نظر آنے اور چھپ جانے پر ہوتا ہے۔قمری
سال کا کل دورانیہ 354.36 ہے۔شمسی کیلنڈر کا انحصار سورج کی نقل وحرکت پر
ہوتا ہے۔شمسی سال کا کل دورانیہ 365 دن ہوتا ہے۔قمری سال شمسی سال سے
تقریباً 10 دن چھوٹا ہوتا ہے۔
قمری سال کو ہجری سال بھی کہتے ہیں۔ہجری سال کی ابتدا نبی آخرالزماں حضرت
محمد مصطفی ﷺ کی ہجرت سے ہوئی۔جب آپ ؐنے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تب سے سال کی
گنتی شروع ہوئی ۔شمسی سال کوعیسوی سال بھی کہتے ہیں۔عیسوی سال کی ابتدا
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ہوئی۔عیسائی حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش سے
پہلے کی تاریخ کو بھی اپنی کتاب بائبل میں قبل مسیح سے یاد کرتے ہیں۔
موجودہ کیلنڈر کو مسلم سائنسدان عمرخیام نے ترتیب دیا۔اسے یونیورسل کیلنڈر
کا نام دیا جو اب دنیا کے ہر ملک میں کارآمد ہے۔
مسلمانوں کے لیے ہجری سال بہت اہمیت کا حامل ہے‘اس لیے کہ ان کی عبادات اور
ہر تہوار رمضان‘ حج‘ عیدین ہجری تاریخوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ہم مسلمانوں کا
ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری زندگی مقرر کر کے ہمیں دنیا میں بھیجا
ہے۔ایک منٹ‘ ایک گھنٹے‘ ایک دن‘ ایک سال کے گزر جانے سے ہماری زندگی میں
کمی ہو رہی ہے اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے اور قریب ترین ہورہے ہیں۔
’’سوچنے‘‘ کی بات یہ ہے کہ ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے سال کا آغاز اس
بات کا پیغام ہے کہ ہماری زندگی ختم ہو رہی ہے اور ہم نیو ائیر منا کر اپنی
زندگی ختم ہونے کا جشن منا رہے ہوتے ہیں۔نیو ائیر کی رات ہم اپنے خون پیسنے
کی کمائی کو آتش بازی کی نذر کر رہے ہوتے ہیں۔گویا ہم اپنی موت کے قریب تر
ہونے سے اپنی کمائی کو بھی فضول خرچی میں ضائع کر کے اپنے خالق حقیقی کو
ناراض کر رہے ہوتے ہیں۔
قارئین!نئے سال کے آغاز پرہمیں بہت ہی سنجیدگی سے اپنی زندگی اور اپنے وقت
کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے اس سال میں کیا کھویا‘کیا پایا‘اور کیا کیا
اور کیا کرنا چاہئے تھا۔اس گزر جانے والے سال میں‘میں نے کتنے لوگوں کو
فائدہ پہنچایا۔ایسے کون سے کام ہیں جو میں گزر جانے والے سال میں نہیں کر
سکا اور ایسے کون سے کام ہیں جو آنے والے سال میں میں نے کرنے ہیں۔
٭٭٭
|