گزرے سال کی خود احتسابی کی بیلنس شیٹ کی تیاری ضروری کیوں؟

زندگی کا پہیہ اپنے محور کے گرد اُسی طرح گھوم رہا ہے جیسے زندگی کے آغاز میں تھا۔ لیکن ذرائع اطلاعات و مواصلات نے زندگی کی ہیت بدل کر رکھ دی ہے۔ اطلاعات تک رسانی بہت تیز ہوئی ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر لاکھوں میل دور کی خبر آنِ واحد میں پہنچ رہی ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی مصروفیت نے انسان کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے عہدا ء براء ہونے سے قاصر کررکھا ہے۔ لاکھوں میل دور کی خبر تو انسان کے پاس چند لمحات مین پہنچ جاتی ہے لیکن ساتھ والے کمرے میں بستر پر دراز بوڑھی ماں یا بوڑھے باپ کی خیریت اُسے معلوم نہیں ہو پاتی۔اِس المیہ کی وجہ سے انسانوں میں آپس میں محبت کا فقدان جنم لے رہا ہے۔ پاکستانی معاشرئے کی پہچان مشترکہ خاندانی نظام تھا۔ لیکن اِس نظام کو شدید گزند پہنچی ہے وہ یوں کہ نظام کے سربراہ کو اب گھر میں اپنے ساتھ رکھنے کی بجائے گھر کے کیسی کونے کھدرے میں رکھا جاتا ہے۔ گھر کا حاکم باپ، اولاد کے جوان ہوتے ہی خود یتیموں جیسی زندگی بسر کرتا ہے۔ ماضی میں جو اولاد اپنے ماں باپ کا احترام کرتی تھی وہاں اب حالت یوں ہے کہ بوڑھے ماں باپ اولاد کے جوان ہوتے ہی اُن سے ڈرنے لگتے ہیں۔ایک نیا عیسوی سال دستک دئے رہا ہے۔ ذرا گزر جانے والے سال کے حوالے اگر ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیں تو شاید خود احتسابی کی کوئی روشن روایت پنپ سکے۔اگر ہم ملازمت پیشہ ہیں یا اپنا کاروبار کرتے ہیں یا ہم خدمات مہیا کرتے ہیں تو ہمیں اکیلے میں بیٹھ کر خود سے سوال کرنا چاہیے کہ پورئے سال میں ہم نے رزق کمانے کے لیے جو فرائض تھے اُن کی ادائیگی درست طور پر کئی یا نہیں۔ کیا جو لقمے ہماری اولاد نے کھائے وہ لقمے حلال کے زمرئے میں آتے ہیں یا نہیں۔ ذرا ذہن پر زور ڈال کر ہم سو چیں کیا ہم نے اپنے بچوں کے لیے رزق کماتے ہوئے کسی اور کے بچوں کی روزی تو نہیں چھینی۔ کیا ہم نے جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ کا سہارا لے کر مال تو نہیں کمایا۔ یہ جو ہم خود احتسابی کر رہے ہیں اِس میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ہم نے یہ نہیں کہنا کہ سب ہی تو کر رہے ہیں۔ ہم تو اپنا حساب کتاب کر رہے ہیں۔ ہم نے تو اپنے ضمیر سے پو چھنا ہے کہ سال کے365 دنوں میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا خیال رکھا یا نہیں۔آئیے خود کلامی کرتے ہیں اور خود سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اپنے دوست احباب کے ساتھ پورا سال رابطے میں رہے کیا ہم نے اپنے سے مالی طور پر کم دوست رشتے داروں کی دلجوئی کرنے کی کوئی سعی کی۔ایک اور بات کہ کیا ہم نے سچ کو اپنا شعار بنایا۔ کیا ہم خود کو مطمن کرنے کے لیے منافقت کا شکار تو نہیں ہو گئے۔ کیا ہم نے اپنے والدین کا خیال رکھا اُن کے کھانے پینے دوائی وغیرہ اُن کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر تر جیح دی کیا ایسا تو نہیں ہوا کہ والدین کو عام اور خود اور اپنی اولاد کو خاص کھلایا اور خاص پہنایا۔ صاحبو ایک اور بات کا بھی کیا دھیان رکھا کہ جس دین کا نام ہم ہر وقت لیتے ہیں اور خود کو معصوم سمجھتے ہیں اُس دین پر عمل کرنے کی بھی کوشش کی۔ جس نبیﷺ کے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کے حیات طیبہ پر چلنے کی سعی کی۔ ایک نقطہ اور کہ گزرئے ہوئے سال میں کتنے دوست رشتے دار ایسے ہیں جو ہم سے خفا ہوئے اور ہم نے اُن کو منایا۔چلیے ایک نظر اِس طرف بھی کہ کیا ہم نے اپنے بیوی بچوں کی جائز ضروریات کا خیال رکھا۔ ہم نے اپنی آنکھوں کی پاکیزگی اپنی روح کی پاکیزگی کا کتنا خیال رکھا۔ کیا ہم ایک دوسرئے کی چغلی میں تو نہیں لگے رہے اور دوسروں کو خود سے کم تر جانتے رہے۔اِن سوالات کے لیے کوئی زیادہ وقت درکار نہیں ہے۔ بس چند منٹ ہی تو درکار ہیں۔ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم باعمل مسلمان ہیں اور ہم دکھاوئے کے لیے اچھا بنتے ہیں یا ایسا کوئی وصف ہے کہ لوگ ہماری عدم موجودگی میں بھی ہمارئے لیے نیک خواہشات رکھتے ہوں۔ ہماری اخلاقیات کیسی ہے۔ہمیں خود احتسابی کرلینی چاہیے ایسا نہ ہو کہ اِس کام کے لیے مقرر فرشتوں کی جانب سے ہی حساب کتاب کرنے کا وقت آپہنچے۔بس ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے ہیں۔اگر ہمارئے پاس کسی کی امانت ہے تو ہمیں اُس کی حفاظت کی بابت بھی سوچنا ہے کہ ہم نے اُس شے کی حفاظت کیسے کی ہے۔وہ لوگ جو ہم سے کینہ رکھتے ہیں اُن کے دلوں کو نرم کرنے کے لیے کیا کوئی قدم ہمارئے طرف سے اُٹھا ہے یا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی اولاد کو نماز، روزئے اور اخلاقیات کی ترغیب دینے کے لیے وقت نکالا ہے۔ہم نے اﷲ پاک کے فرمان کہ ہر کسی سے اُس کی رعیت کے متعلق سوال پوچھا جائے گا کے حوالے سے اپنے آپ سے پوچھنا ہے۔اپنے محلے میں، اپنے ہمسایوں کے ساتھ برتاؤ کیسا رہا۔آخری بات کہ ہم نے اپنی روحانی بالیدگی کے لیے خود کے لیے کتنا وقت نکالا ہے۔دُنیا جہاں بھر کے ارسطو بننے کی تو بہت کوشش کی کیا ہم نے اپنی تخلیق اور اپنی تخلیق کے مقاصد پر غور کرنا بھی کبھی گوارہ کیا۔کبھی یہ بھی سوچا کہ جنگلی جانوروں اور اِس دور کے انسان کے درمیان کوئی فرق ہے نہیں۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 382902 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More