جرگے کا فیصلہ - ایک مرد ایک کہانی

image


میں ہاسٹل میں تھا جب مجھے گاؤں سے فون ملا کہ میرے بڑے بھائی کو زمینوں کے تنازعہ پر دشمنوں نے گولی مار کر قتل کردیا ہے اور مجھے فوری طور پر گاؤں پہنچنے کا حکم ملا ۔ خبر سنتے ہی میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ماں باپ کا کل سرمایہ ہم دونوں بھائی ہی تھے بڑا بھائی مجھ سے دس سال بڑا تھا جو کہ میرا دوست میرا باپ سب ہی کچھ تھا ۔اس کو اللہ نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازہ تھا ۔

بھائی ابو کے ساتھ زمینیں سنبھالتا تھا اور مجھے ان لوگوں نے تعلیم کے حصول میں مصروف کر کے ان تمام معاملات سے ابھی دور ہی رکھا تھا ۔ بیس سال کی عمر ویسے بھی میرے لحاظ سے پڑھنے لکھنے اور مزے کرنے کی ہی تھی جب کہ پیسے کی بھی فراوانی ہو تو انسان کچھ تن آسان بھی ہو جاتا ہے مگر میری بنیادی تربیت اور خاندان کے ساتھ محبت کے سبب میں نے اپنے والدین اور بھائی کے خوابوں کی تکمیل کے لیے تعلیم کے میدان میں ان کو کبھی مایوس نہیں کیا تھا اب جب میں انجئرنگ کے آخری سال میں تھا بھائی کے مرنے کی خبر نے میرے اوسان خطا کر دیے تھے-

ہاسٹل سے گاؤں تک کا راستہ میری نظروں کے سامنے سے وہ تمام مناظر گزرتے رہے جو میں نے اور بھائی نے ساتھ گزارے تھے سرحدی علاقے سے تعلق رکھنے کے سبب میرا خون بھی کھول رہا تھا اور میری خواہش تھی کہ میں بھائی کے قاتلوں کو زندہ نہ چھوڑوں اور خون کے بدلے خون ضرور بہاؤں -
بھائی کو کفن میں دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا میرے والد کے کاندھے جوان بیٹے کے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے جھک گئے تھے- میں جانتا تھا کہ ان جھکے ہوئے کاندھوں کو اب میں نے سہارا دینا تھا ان کو دوبارہ سے میں نے ہی اٹھانا تھا-

بھائی کی قبر پر مٹی کے ڈھیر کو دیکھ کر میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بے ساختہ بیٹھ کر رونے لگا اس پل مجھے اپنے کاندھوں پر ایک ہاتھ محسوس ہوا مڑ کر دیکھا تو وہ میرے ابو تھے- انہوں نے میرے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ رونا نہیں ہے کیوں کہ رونے سے اندر کی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے اور ابھی تو ہم نے اس آگ سے اپنے دشمنوں کو جلانا ہے-

جب ہم جنازہ کے بعد گھر پہنچے تو خاندان کے سب بزرگ موجود تھے بھائی کے قتل کی ایف آئی آر درج ہو چکی تھی مگر بڑے بزرگ فیصلہ جرگے کی صورت میں کرنے کے خواہاں تھے- لہٰذا ہم کو ان کی بات ماننی پڑی اور جرگے کی جگہ اور وقت طے کر لیا گیا-

جب میں زنانے میں گیا تو مجھ سے میری ماں اور بھابھی کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی میرے اندر غم اور غصہ بڑھتا جا رہا تھا میرا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی جا کر پستول کی سات کی سات گولیاں بھائی کے قاتل کے سینے میں اتار دوں- مگر میرے والد نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ میں ایسا کچھ نہیں کروں گا وہ ایک بیٹا تو کھو چکے تھے دوسرا کھونا نہیں چاہتے تھے-

اللہ اللہ کر کے جرگے کا وقت بھی آن پہنچا ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جرگے میں صرف ایک ہی مطالبہ کرنا ہے کہ بھائی کا قاتل ہمارے حوالے کر دیا جائے تاکہ ہم اس سے بدلہ لے سکیں مگر جرگہ کے فیصلے کا احترام بھی ہماری روایات کا حصہ تھا اس لیے فیصلہ وہی قبول کرنا تھا جو کہ جرگہ میں کیا جانا تھا- جرگہ میں بزرگوں نے سارے معاملے کی سنوائی کے بعد جو فیصلہ کیا وہ مجھ جیسے انسان کو جیتے جی مار گیا ۔ جرگے میں فیصلہ کیا گیا کہ مارنے والا چونکہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے اس لیے اس کو ہمارے حوالے نہیں کیا جاسکتا ورنہ ان کی نسل رک جاںے گی- اس کی جگہ اس کی چھوٹی بہن جو صرف چھ سال کی تھی ہمارے حوالے کر دی جائے گی اب یہ میری یا میرے والد کی مرضی ہے کہ ہم میں سے کون اس لڑکی سے نکاح کرتا ہے- جرگے کے مطابق قاتل کو جان سے مارنے کے بجائے یہ بہترین سزا تھی کہ ان کی عزت یعنی ان کی بیٹی ہم اپنے گھر رکھ لیں-
 

image


جرگے کی روایات کے سبب ہمیں یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا اور ہم کو سوچنے کے لیے وقت دیا گیا کہ ہم فیصلہ کر لیں کہ اس لڑکی کے ساتھ نکاح کون کرے گا میں یا میرے ابو ۔ گھر آکر میں نے سب کے سامنے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا کہ میں کسی صورت بھی ایک چھ سال کی لڑکی کے ساتھ نکاح نہیں کروں گا-

جس پر نکاح کا قرعہ ابو کے نام نکل آیا اور ابو نکاح کر کے اس چھ سالہ بچی کو دلہن بنا کر اپنے گھر لے آئے اور میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے واپس ہاسٹل چلا گیا تین ماہ کے بعد جب میں گھر واپس آيا تو ایک اور خبر نے میری روح کو لرزا دیا- میری بھابھی امید سے تھیں اور میرے والد کے حکم کے مطابق بھائی کی جائداد کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا- اور نہ ہی کسی عورت کے حوالے کیا جا سکتا ہے اس لیے مجھے اب اپنی بھابھی سے نکاح کرنا ہوگا-

میری تمام تر مخالفت کے باوجود اس بار میری ایک نہ چلی اور مجھے ابو کی اس بات کو قبول کرنا پڑا- نکاح کے بعد جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو میرے کمرے کو حجلہ عروسی کے طور پر سجایا جا چکا تھا اور میری بھابھی جس کو میں ماں کہتا تھا میرے کمرے میں دلہن کے روپ میں موجود تھی-

میں رات کا ایک بڑا حصہ گزار کر جب اپنے کمرے میں پہنچا تو بھابھی جو اب میری بیوی تھیں سو چکی تھیں- رونے کے سبب ان کا میک اپ پھیل چکا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے ان کے پھیلے ہاتھوں کو سمیٹنے کی کوشش کی تو مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ کسی اور کی ہونے کے بجائے انہوں نے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی ہے اور وہ زندگی کی اور ہم مردوں کی اس قید سے آزاد ہو چکی ہیں-

اس واقعے نے میرے اعصاب کو اتنا مفلوج کر دیا کہ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا کافی عرصے تک دیوانگی کی سرحدوں کو چھونے کے بعد جب میں نے ہوش کی دنیا میں قدم رکھا تو مجھے پتہ چلا کہ میری ماں بھی اب اس دنیا میں نہیں رہی- وہ چھ سالہ لڑکی چھوٹی امی کے روپ میں میرے گھر کا سارا نظام سنبھال چکی ہے وہی میرے بھائی کے بچوں کو بھی سنبھالتی ہے-

ان تمام واقعات کو بتانے کا مقصد صرف یہ جاننا ہے کہ اس سارے معاملے میں میرا قصور کیا تھا غلطی کس سے اور کہاں ہوئی تھی اگر آپ کے پاس اس کا جواب ہو تو ضرور بتائيے گا -

YOU MAY ALSO LIKE: