سال ٹی ٹوئنٹی

نیا سال ٹی ٹوئنٹی شروع ہوچکا ہے۔ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال نیو ائیر کے ایس ایم ایس کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی ، شاید مہنگائی کے اثرات نے موبائل اور انٹرنیٹ صارفین کی صحت پر بھی بُرا اثر چھوڑا ہے۔ میری اُمید اور توقع یہ تھی کہ اس سال برقی پیغامات کی تعداد میں اضافہ دیکھا جائے گا کیوں کہ گزرے سال کے آخری ہفتوں سے حکومتی حلقوں کی جانب سے سال 2020 (ٹی ٹوئنٹی ) کو معیشت کی بحالی اور عوام کی خوش حالی کا سال قرار دیا جارہا ہے۔ ان تمام خوش آئند بیانات کے باوجود موبائل اور انٹرنیٹ صارفین مطمئن نظر نہیں آرہے ہیں ، ممکن ہے کہ وہ اَب سمجھ چکے ہوں کہ معیشت کی بحالی اور عوام کی خوش حالی کے بیانات پر حکومت کی جانب سے یو ٹرن آسکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے موبائل اور انٹرنیٹ پر ایس ایم ایس کو محدود رکھا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جب ہمارے ہاں انٹرنیٹ کی سہولت عام ہوئی اور اس چند سالوں بعد موبائل فون وارد ہوا ، تو پھر ہر موقع یعنی نیو ائیر ، عید ، رمضان المبارک وغیرہ پر لامتناہی ایس ایم ایس ہواؤں میں اُڑتے پھرتے تھے جن کی وجہ سے نیو ائیر اور عید کارڈ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے اور غبارے سے ہَوا کے نکل جانے کی طرح سکڑ کر رہ گئے۔ اُن میں رہی سہی سکت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے برقی پیغامات کی بڑھتی ہوئی تعداد بتا بتا کر نکال دی۔ اور یوں ہر گزرتے سال کے ساتھ ان کی حیثیت ختم ہوگئی اور بالا ٓخر اپنا وجود کھو بیٹھے۔

نیاسال کا پہلا دن ہماری سال گرہ کا دن بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ سرکاری دستاویزات میں نو مارچ درج ہے لیکن گھر والوں کو پتہ ہے کہ یکم جنوری میرا جنم دن ہے۔ ہم نے کبھی اپنی سال گرہ نہیں منائی۔ البتہ جب بھی سال بدلتا ہے ، یعنی زندگی سے تین سو پینسٹھ دن گھٹ جاتے ہیں، تو نیو ائیر کی مناسبت سے میرے گھروالوں کو سال گرہ یاد آجاتی ہے اور غیر رسمی مبارک باد دیتے ہیں۔ اس کے میں اپنے معمول کے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہوں۔ سال ٹی ٹوئنٹی کے آغاز پر یہی کچھ دہرایا گیا۔جب میں عصر کے وقت اپنے کام کاج نمٹا کر گھر آیا تو بچوں نے میرے لئے اپنی جمع پونجی ( پاکٹ منی ) سے برتھ ڈے کیک منگوائے تھے جن پر ہپی برتھ ڈے اور میرا نام لکھا ہوا تھا، ساتھ میں انہوں نے رنگ برنگے کارڈ بنائے ہوئے تھے۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ میں اپنی سال گرہ نہیں مناتا لیکن بچوں کی معصومانہ خواہش اور اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت اُن کے کئے گئے انتظامات پر ہلکی پھلکی سال گرہ منادی ۔ آخر میں ،ہم نے بچوں کو سمجھایا کہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہوتا ہے ، اس کو ضائع نہ کیا جائے اور ہر لمحے کا احتساب کرنا چاہیے کہ ہم نے یہ لمحہ کیسے گزارا۔ سال تو تین سو پینسٹھ ایام کا ہوتا ہے لہٰذا ہمیں ایک ایک دن کا احتساب کرنا چاہیے کہ ہم نے گزرے سال میں کیا کھویا ، کیا پایا۔ بقول میر حسن۔
سدا عیش دوران دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

ہم نے بچوں کومزید سمجھایا کہ نئے سال کا آغاز اس عزم اور دُعا سے کرنا چاہیے ۔ ’’ اے اﷲ ! اس سال کو ہمارے اوپر امن اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور شیطان سے بچاؤ اور رحمان کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما۔ ‘‘

یہاں نیو ائیر اور سال گرہ کی باتیں ہو رہی ہیں تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ گزشتہ سال ہم نے اپنے بچوں کی سال گرہ سکول میں منائی۔ سال گرہ کا پروگرام سکول ہیڈ اور ملنسار دوست لیفٹیننٹ کرنل (ر) عبدالرحمان کے ساتھ بنایا۔ ہمارا اتفاق اس بات پر ہوا کہ سال گرہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے ، یعنی اس کے نقصانات اور فوائد کیا ہوں گے اور اس ایونٹ سے سکول کے بچوں کو اگر ایک ہی فائدہ کیوں نہ ملے تو ہم سال گرہ سکول میں ہی منائیں گے۔ سال گرہ کے اختتام پر سکول ہیڈ سے اُن کے آفس میں گفتگو ہوئی ، وہ اس ایونٹ کے انعقاد پر نہایت خوش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے بچوں کے مابین ایک سوشل رابطہ پیدا ہوا ، بچوں نے اپنے اساتذہ کے زیر نگرانی خود ڈیکوریشن کی ، اُن میں رنگ برنگے کارڈ ڈیزائن کرنے اور سال گرہ کی ٹوپیاں بنانے کی صلاحیتیں پیدا ہوئیں اور اُن کے درمیان کام کرنے کی ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ میرے اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ ہم بچوں کو نصابی کتابوں سے باہر بھی پڑھا اور سیکھا سکتے ہیں اور ہم باہمی محبت و استقامت ، بھائی چارے و اخوت ، حکمت و دانش اور تخلیق و کردار جیسی مثبت سوچ و شعور سے خوش حال معاشرہ تشکیل کر سکتے ہیں۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.