جنگ عظیم دوئم: ’منزانر کے بھوت‘ کی لاش دریافت

image


امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا سے گذشتہ برس اکتوبر میں ملنے والے ایک انسانی ڈھانچے کی شناخت ہو گئی ہے۔ یہ باقیات جاپانی نژاد امریکی آرٹسٹ کی ہیں جو جنگ عظیم دوئم کے دوران جنگی قیدیوں کے ایک کیمپ میں قید کیے گئے تھے۔

گیچی مٹسومورا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ منزانر حراستی کیمپ سے اگست 1945 میں پہاڑوں پر ہائیکنگ کے لیے گئے تھے جہاں ان کی کی موت واقع ہو گئی۔

اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہو کر خلوت میں وہ پینٹنگ کرنے گئے اور اسی وقت ایک خوفناک طوفان نے انھیں آن گھیرا۔

مٹسومورا کی پہاڑوں میں ہی ایک ویران مقام پر ان کی تدفین کر دی گئی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہلاکت کی تفصیلات نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ مگر گذشتہ برس وہ پھر سے دریافت ہوئے ہیں۔

’منزانر کا بھوت‘
 

image


ٹیلر ہوفر اور برینڈن فولین ماؤنٹ ویلیمسن کے نزدیک پہاڑوں پر ہائیکنگ کر رہے تھے جب انھیں ایک انسانی ڈھانچہ اپنی مکمل حالت میں نظر آیا۔ ڈھانچے کے کچھ حصہ پہاڑی پتھروں تلے چھپا ہوا تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اُس انسانی ڈھانچے کی کمر کے گرد ایک بیلٹ بندھی ہوئی تھی، پیروں میں جوتے تھے جبکہ اس کے بازو سینے پر بندھے ہوئے تھے۔

ڈھانچے کی موجودگی کی اطلاع موصول ہونے پر مقامی پولیس کے اہلکاروں نے گمشدہ افراد کے ریکارڈ کی چھان بین کی مگر انھیں کوئی بھی گمشدہ شخص اس ڈھانچے کی ظاہری حالت سے مشابہہ نہیں ملا۔

تاہم سنہ 2012 میں گیچی مٹسومورا کی کہانی اس وقت دوبارہ منظر عام پر آ چکی تھی جب منزانر حراستی کیمپ پر ایک دستاویزی فلم بنائی گئی۔ اگرچہ اس دستاویزی فلم میں مٹسومورا کی ہلاکت پر کوئی سین نہیں تھا مگر اس کے ہدایت کار کوری شوزاکی نے اس حوالے سے فلم کی نمائش کے موقع پر بات کی تھی۔

پولیس نے انسانی ڈھانچے سے ڈی این اے نمونہ لیا اور اسے مٹسومورا کی پوتی لوری کے ڈی این اے نمونے سے میچ کیا۔

لوری مٹسومورا نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ انھیں معلوم تھا کہ ان کے دادا کی باقیات پہاڑوں پر ہی کہیں موجود ہیں۔ اور اس کا علم انھیں ایسا ہوا کہ ان کی دادی نے انھیں ایک تصویر دکھائی تھی جس میں ان کے دادا کے جسم پر پہاڑی پتھروں کا ایک ڈھیر بنا ہوا تھا۔

لوری کی خالہ کازو نے بتایا کہ وہ (مٹسومورا) ’منزانر کا بھوت‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔
 

image


خوفناک طوفان
منزانر ان 10 حراستی کیمپس میں ایک تھا جو امریکی حکومت نے جنگ عظیم دوئم کے دوران امریکہ میں موجود جاپانی نژاد شہریوں کو قید رکھنے کے لیے بنائے تھے۔

تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہاں رکھے گئے قیدی اکثر کیمپ سے چوری چھپے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتے اور باہر آ کر وہ مچھلی کا شکار اور اسی نوعیت کے دیگر تفریحی مشاغل سے دل بہلاتے اور پھر چپکے سے کیمپ میں واپس آ جاتے۔

جب مٹسومورا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کیمپ سے پہاڑوں پر ہائیکنگ کے لیے نکلے تھے اس وقت تک امریکی حکومت نے کیمپ کے قیدیوں کے لیے بہت سے نرمیوں کا اعلان کر دیا تھا اور انھیں کیمپ سے واپس جانے کی اجازت دی جا چکی تھی۔

پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ درحقیقت مٹسومورا مچھیروں کے ایک ایسے گروپ میں شامل ہوئے تھے جو قریب واقع سرا نیواڈا میں بلند بالا پہاڑوں کے درمیان موجود جھیلوں سے مچھلیاں پکڑنے جا رہے تھے۔

گروپ میں شامل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد وہ ان سے علیحدہ ہو گئے کیونکہ وہ پینٹنگ بنانا چاہ رہے تھے۔ پینٹنگ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا اور حراستی کیمپ میں بھی فارغ اوقات میں وہ یہ کام کرتے تھے۔

مگر اسی دوران اچانک ایک خوفناک طوفان آ گیا۔ جب طوفان تھما تو گروپ کے دیگر افراد نے ان کی تلاش شروع کی، مگر انھیں ناکامی ہوئی۔

مٹسومورا کی لاش تین ستمبر 1945 کو اچانک اس وقت ملی جب ایک مقامی جوڑا پہاڑوں پر ہائیکنگ کے لیے گیا۔
 

image


لاش کی دریافت کے چند روز بعد منزانر کیمپ کے افسران نے چند اہلکاروں کو پہاڑوں پر بھیجا تاکہ وہ مٹسومورا کی دریافت ہونے والی لاش کی وہیں تدفین کر سکیں۔ لاش کو واپس اس لیے نہیں لایا گیا کیونکہ یہ بلند پہاڑوں پر پڑی تھی اور اسے واپس لانا کافی مشکل کام تھا۔

اب پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ مٹسومورس خاندان ان دیگر بدقسمت خاندانوں جیسا تھا جو جنگ کا شکار بنے۔ ان کے پاس رہنے کے لیے گھر اور روزگار نہیں تھا اور ایسے بہت سے خاندانوں کی طرح یہ خاندان بھی حراستی کیمپ میں اس وقت تک رہا جب تک حکومت نے اسے بند کرنے کا اعلان نہیں کر دیا۔ یہ کیمپ 21 نومبر 1945 کو بند کیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق مٹسومورا خاندان کیمپ کی بندش کے بعد سانتا مونیکا آ گیا۔ یہ خاندان آج سے تین برس قبل تک وہیں آباد رہا مگر پھر امریکی فوج نے انھیں وہاں سے بیدخل کر دیا۔

منزانر کے سپریٹنڈنت برنیڈیٹ جانسن کا کہنا ہے کہ جب گذشتہ برس انھیں معلوم ہوا کہ چند ہائیکرز نے مٹسومورا کی قبر دریافت کی ہے تو انھیں بہت ’صدمہ‘ ہوا۔

حراستی کیمپ کی جگہ اب حراست میں رکھے گئے افراد کی یاد میں ایک میوزیم اور یادگار بنا دی گئی ہے۔


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: