محبت معانی و الفاظ میں لائی نہیں جاتی
یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی
آپ سب نے محبتوں کے لازوال قصے کہانیاں ضرور کہیں نہ کہیں دیکھے، سنے یا
پڑھے ہوں گے جیسے ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال وغیرہ وغیرہ۔ لیکن
کیا کسی نے ان کہانیوں سے اخذ کیے گیے سبق کو سمجھنے کی کوشش کی؟۔ اور ان
کہانیوں کے بارے کبھی تصدیق کرنے کی کوشش کی؟ جو کہ شاید ہمارے بزرگوار نے
مرچ مصالحہ لگا کر ہم تک پہنچائ ہیں ۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر طرف سے
کانوں میں یہی آواز ڈالی گئ ہے " محبت کبھی نہی مرتی" ، "محبت یہ ہے، وہ ہے،
فلاں ہے ". لیکن دل کی ہمیشہ یہی خواہش ذہن میں ہتھوڑے برساتی رہی "ابے !
کہاں ہے محبت، کیا بلا ہے یہ محبت؟"
صحیح معنوں میں بات کی جاۓ تو میں بلا چوں و چراں یہ کہ سکتا ہوں کہ ہم نے
لفظ محبت کے مطلب کو ٹھیک سے سمجھنا گوارا نہی کیا۔۔۔ہاں بھئ کس کے پاس
اتنا ٹائم ہے کے سمجھنے کی کوشش والی غلطی کرے۔۔۔۔کیونکہ ہمیں ہر چیز رٹا
لگانے سے ہی سمجھ آتی ہے تو محبت کا مطلب ہے پیار اور کسی شخص، جگہ یا چیز
سے ہونے والا پیار،الفت اور عقیدت وغیرہ کو پیار کہا جاتا ہے۔حُبّ کے معنی
پیار و محبت ہیں۔ محبت کرنے والے کو مُحِبّ کہا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی
جائے، اسےمحبوب کہتے ہیں۔(نوٹ ۔ یہ آجکل والے تھرڈ کلاس محبوب اور محب کی
تعریف بلکل نہی ہے).
محبتوں میں شمار کیسا سوال کیسا جواب کیسا
محبتیں تو محبتیں ہیں محبتوں میں حساب کیسا
رہی بات آجکل جو معاشرے میں محبت ہے اس کی تو میں اس کی تعریف کر کے اپنے
ناچیز دماغ کا ستیا ناس نہی کر سکتا۔۔ آپ یہ جان کر انگشت بدنداں رہ جائیں
گے کہ بڑھتی ہوئ جانو مانو کی تعداد نے ہمارے اس خوبصورت معاشرے کا ایسا
جوس نکال کے رکھ دیا ہے جیسے مالٹے کا نکلتا ہے(جو کہ پہلے ہی سبحان اللہ
ہے)۔ نوجوانوں کو تو خیر نہ ہی چھیڑا جاۓ تو ہمارے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ
بے چارے کتنی ہی مشکلوں سے فیسبک، واٹس ایپ، انسٹا، ٹویٹر وغیرہ پر آن لائن
رہ کر محبت ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔۔۔کچھ لوگوں کو یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ
ایک وقت میں چار چار محبتیں نہی بلکہ محبات کو نمٹا لیتے ہیں۔۔۔۔اور ان
لوگوں کو تو سلیوٹ مارنے کا بڑا ہی دل کرتا ہے جو محبت میں بہت آگے نکل کر
پھر کہ رہے ہوتے ہیں " ابا نئیں مندا ، تے اماں نے گولی مار دینی آ "
محبت کی بہت سی اقسام ہیں اور جتنی بھی ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ہم تو پھر
گھوم گھام کر جانو والی پے ہی آ رکتے ہیں کہ یہی تو ہے محبت۔۔۔میرا دل یہ
چیز گنگنا کہ پوچھتا ہے " کیا یہی پیار ہے " اور معاشرے کا جواب ترکی بہ
ترکی یہی ہوتا ہے "ہاں یہی پیار ہے". بلکہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ محبت
کے معنی بگاڑنے میں بڑا ہاتھ فلموں اور ڈراموں کا ہے۔۔۔تو بھائ کیوں دیکھتے
ہو ؟ ۔۔۔معاشرے میں جو تصویر محبت کی پیش کی جا رہی ہے وہ نہایت اذیت ناک
ہے۔۔ بہر کیف ہم لوگ لاتوں کے بھوت ہونے کی وجہ سے باتوں سے کہاں ماننے
والے ہیں۔
اس ساری مغز ماری سے ہٹ کر محبت کا اصل مقصد تو یہ تھا جو معاشرہ سمجھنے سے
قاصر رہا ہے، کہ اللہ کے محبوب سے محبت کی جاۓ، نیک کاموں سے محبت کی جاۓ،
اچھے اور سے لوگوں سے محبت کی جاۓ، دین سے محبت کی جاۓ، انسان سے محبت کی
جاۓ، والدین سے محبت کی جاۓ، اپنے کام سے محبت کی جاۓ ۔۔۔۔لیکن افسوس تو
اسی بات کا ہے کہ ہم لوگوں نے ان سب چیزوں کو محبت کے دائرے میں شمار کرنا
چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں، عقل و شعور کو تھوڑا ہاتھ ماریں کہ
یہ چیزیں معاشرے میں دم توڑتی نظر آ ویں ہیں ۔۔۔
نوجوان ہی تو ہماری قوم کا سرمایہ ہیں اور ان نوجوانوں کو بلا وجہ کی تھرڈ
کلاس محبتوں میں پڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔۔۔۔کیونکہ۔محبت کی نہی جاتی یہ تو
بس خود ہو جایا کرتی ہے اور جس سے ہوتی ہے اسکی عزت ، حرمت ، پسند نا پسند
کا خیال رکھتی ہے۔۔ محبت اللہ سے بھی ہو سکتی ہے اسکی مخلوق سے بھی۔۔۔اللہ
تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث پر چلنے اور سیرت کے اصل پیغام ’توحیدوسنت‘ کو
اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین |