کہاں سے آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟

یہ غالباً انیس سو بہتر کی بات ہے میں سکھر سے کوئٹہ پیسنجر ٹرین کے ایک تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کر رہا تھا۔ اس وقت تھرڈ کلاس کے ڈبے بالکل سادہ سے ہوتے تھے سیدھے سیدھے چار لکڑی کے بینچ جن میں دو تو کھڑکیوں والی سائیڈ میں اور دو بیچ میں پیٹھیں جوڑ کر جڑے ہوتے تھے ۔

میں ایک کھڑکی کی سائیڈ والے بینچ پر بیٹھا تھا کہ گرمی کا موسم تھا کچھ ہوا لگتی رہے، گاڑی میں زیادہ تر سندھی بھائی بیٹھے تھے جو چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر اترنے والے تھے ، مجھے چونکہ ایکسپریس کا ٹکٹ نہیں ملا اور مجبوری میں پسنجر ٹرین کا بھی اپر کلاس کا ٹکٹ نہیں مل سکا تو تھرڈ کلاس میں ہی سہی مگر جانا ضروری تھا اسلیے نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر کے مصداق چل پڑا گاڑی اتنی سست رفتاری سے چل رہی تھی کہ بہت دفعہ سوچا کہ اتر کر کوئی بس پکڑ لوں پھر خیال آتا کہ بسیں بھی تو ایسے ہی چلتی ہیں جہاں اسٹاپ پر رکتی ھیں آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتیں اس لیے صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

رینگتے رینگتے جب گاڑی جیکب آباد کے اسٹیشن پر رکی تو ایک سندھی بھائی میرے ساتھ خالی جگہ دیکھ کر آ بیٹھے ، یہ بڑی بڑی مونچھیں جو کالی سیاہ چوڑی سی داڑھی میں جا کر گڈ مڈ ہو رہی تھیں سر پر ایک رنگین اجرک کی طرح بڑا سا پٹکا اور اسی طرح کی چادر گلے میں لپٹی ہوئی کانوں میں گول سے چھوٹے چھوٹے رنگ جو شاید چاندی کے تھے، ہاتھ میں کلہاڑی جس کا دستہ تقریباً چار فٹ لمبا تھا اپنے سامنے ٹیک کر بڑے ہی مغرورانہ انداز میں پاؤں پھیلا کر بیٹھ گئے، مجھے ان کا پھیلاﺅ دیکھ کر کچھ سمٹ جانا پڑا۔

گاڑی اسٹیشن سے روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ایک ٹکٹ چیک کرنے والے نیلی وردی میں ٹی ٹی صاحب آئے اور اپنی اپنی ٹکٹیں دکھانے کے لیے کہا سب نے ٹکٹیں ہاتھوں میں پکڑ لیں مگر میرے پاس والے سندھی بھائی نے اپنا منہ غصے سے دوسری طرف پھیر لیا، میں سمجھا شاید ان کے پاس ٹکٹ نہیں ہے ٹی ٹی صاحب کے بار بار کہنے پر بھی وہ صاحب منہ پھیرے بیٹھے رہے، مجھ سے رہا نہ گیا میں نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے سندھی بھائی سے کہا بھائی صاحب اگر آپ برا نہ منائیں تو میں آپ کی ٹکٹ بھر دیتا ہوں کیونکہ گاڑی میں بغیر ٹکٹ سفر کرنا جرم ہے اور ٹی ٹی صاحب ایک با اختیار آدمی ہیں وہ آپ کو پریشان کر سکتے ہیں، سندھی بھائی نے میری طرف لاپرواہی سے دیکھتے ہوئے بڑی بے زاری سے چادر کے ایک پلو سے ٹکٹ کھول کر ٹی ٹی صاحب کی طرف بڑھا دیا جو دیکھنے میں ہی اردو بولنے والے مہاجر لگتے تھے ٹکٹ پر نشان لگا کر ان کو گھورتے ہوئے واپس کر کے آگے بڑھ گئے ۔

میں بڑا حیران تھا کہ ٹکٹ جب ان کے پاس تھا تو دکھانے میں اتنا تردد کیوں ؟ آخر میں نے تھوڑی دیر بعد سندھی بھائی سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی صاحب جب ٹکٹ آپ کے پاس تھا تو دکھانے میں کیا حرج تھا خواہ مخواہ اتنا طول دینے کی کیا ضروت تھی۔

سندھی بھائی نے بڑی نفرت بھرے انداز میں ایک جملہ کہا جو میں آج بھی میرے کانوں میں گونجتا رہتا ھے۔” کہاں سے آ جاتے ہیں ہم پر حکومت کرنے“ یہ جملہ انہوں نے اتنی نفرت بھرے انداز میں کہا کہ اس کی چبھن سیدھے میں نے اپنے دل میں محسوس کی، خیر میں نے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے پوچھا، بھائی صاحب آپ کا کوئی بیٹا ہے، انہوں نے بڑے فخر سے کہا، جی اللہ کی مہربانی سے دو بیٹے ہیں ۔ میں نے پھر سوال کیا، کیا وہ پڑھے لکھے ہیں یا ابھی پڑھ رہے ہیں ؟ میں نے سندھی بھائی کی عمر سے اندازہ کیا کہ اس کے بیٹے جوان ہوں گے، جی نا سائیں اگر ان کو پڑھائیں گے تو ہماری بھیڑ بکریاں کون چرائے گا۔! ان کا یہ جواب میرے لیے بڑا حیران کن اور باعث تشویش تھا اور وہ اس لیے کہ پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایسی سوچ رکھتی ہے؟

میں نے بڑے ٹھہرے ہوئے اور سمجھانے والے انداز میں موصوف سے کہا، بھائی صاحب اگر آپ اپنے بچوں کو پڑھائیں لکھائیں گے نہیں تو ظاہر ہے پڑھے لکھے لوگ تو باہر ہی سے آئیں گے اور حکومت چلانا ان پڑھ لوگوں کا کام تو ہے نہیں ، آپ اپنے بچوں کو پڑھائیں اور اس قابل بنائیں کہ وہ حکومت چلا سکیں تو کوئی باہر سے نہیں آئے گا ۔ لہٰذا آپ ان پر غصہ کرنے کی بجائے اپنی اس کمزوری کو دور کریں جس کی وجہ سے باہر والے لوگوں کو آپ پر یا پاکستان پر اپنا تسلط جمانے کا موقع مل جاتا ہے اور ہم ہیں کہ سارا قصور باہر والوں پر ڈال کر اور دو چار گالیاں نکال کر اپنا غصہ نکال لیتے ہیں اور مطمئین ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا نیکی کا کام کر لیا ہے ۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں دور کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔آمین
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84013 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.