افغانستان میں مہذب امریکہ کی وحشت

انسانی حقوق اور تہذیب ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں لیکن آج کل جتنا چرچا اس چیز کا کیا جا رہا ہے وہ پہلے شاید کبھی نہ تھا اور ساتھ ہی جتنا آج کل انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے شاید پہلے کبھی اس قدر نہ کیا گیا تھا۔ فاتح اقوام نے ہمیشہ ہی مفتوح اقوام کے افراد کے ساتھ ظلم و زیادتی کے جو کارنامے سرانجام دئیے ہیں اُن سے تاریخ بھری پڑی ہے چاہے وہ سکندر اعظم تھا یا چنگیز خان یا ہلاکو خان سب نے ایک ہی خصلت پائی تھی اس میں مشرق و مغرب کی تخصیص نہیں تھی اور نہ زمانے کی ہاں اگر عظیم فتوحات میں سے کوئی فتح تھی اور پر امن بھی تھی بلکہ سکون و اطمینان بھی تھی وہ تھی فتح مکہ اور یہاں فاتح وہی مذہب اور اُس کا پیغمبر تھا جس مذہب کو آج یہ بدبخت دنیا کے امن کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف تمام مغرب اور کفر صف آرا ہے جبکہ خود یہ جن جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اسکی نظیر دورِ وحشت سے بھی بمشکل ملے گی اسکی تازہ ترین مثال بلکہ انکشاف جرمنی کے ایک رسالے Der Spiegel اور رولنگ سٹون میگزین نے کیا ہے اِن رسالوں میں امریکہ کے کچھ سپاہیوں کی وہ بر بریت دکھائی گئی کہ جسے دیکھ کر انسانیت شرما جاتی ہے مثلہ بنانے کی وہی جا ہلانہ روایت بزعم خود ایک مہذب ترین قوم دہرا رہی ہے پہلے عام سویلین افغانی مارے گئے اور پھر اُن کی لاشوں کی جس طرح بے حرمتی کی گئی وہ امریکہ ہی کا وصف ہو سکتا ہے اِن تصاویر کے بارے میں خبر ہونے پر پینٹا گون اور امریکی حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ انہیں منظر عام پر نہ آنے دیا جائے اسکے لیے ایک درجن سے زائد کمپیوٹر قبضے میں لیے گئے۔ اِن کاروائیوں میں ملوث فوجیوں کے رشتہ داروں تک سے رابطے کیے گئے کہ اگر اُن کے پاس ایسی کوئی تصویر ہو تو غائب کر دی جائے تا ہم پھر بھی یہ تصاویر منظر عام پر آہی گئیں اور یہ بھی پتہ چلا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے کلِر ٹیم ﴿Killer Team﴾کے نام سے ایک گروپ بنا رکھا ہے جو وحشت و بر بریت کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ اِن تصاویر میں ایک افغانی کا سر کاٹ کر اسے رکھا گیا ہے اور یہ فوجی اسے تختہ مشق بنا رہے ہیں اسی طرح 15جنوری 2010کو ایک پندرہ سالہ نہتے لڑکے گل مدین جو قندہار کے نزدیک ایک گاؤں کلے لا محمد کا رہنے والا تھا کو بغیر کسی وجہ کے گرینیڈ مار کر شہید کر دیا گیا اور پھر بہادری کے سند کے طور پر اسکی تصویراتاری گئی پھر اسکے کپڑے اتار کر اسکی لاش کے ساتھ چاقو اور قینچیوں سے کھیلا جاتا رہا اور اس کے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ لی گئیں۔

اسی طرح نو مبر2009 میں جب امریکی فوجیوں کو ایک گن شپ ہیلی کاپٹر کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں لانے کو کہا گیا تو وہا ں بھی اِن لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور سار جنٹ گبز نے بطور ’’یادگار ٹرافی‘‘ لاشوں کی انگلیاں کاٹ لیں اسی طرح کچھ کٹی ٹانگیں اور سر ہیں جن کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے ایک اور تصویر میں ایک لاش کے گلے میں ایک گتے کا بورڈ لٹکایا گیا ہے جس پر یہ لکھا ہوا ہے ’’مرا ہوا طالب ‘‘ جبکہ رپورٹ کے مطابق یہ شخص ان بے گناہ کسانوں میں سے تھا جنہیں امریکیوں نے مار دیا تھا۔ یہ وارداتیں یقیناً صرف تیسر ی پلاٹون کے کلِر گروپ تک محدود نہیں بلکہ پوری امریکی فوج اسی نوعیت کے جنگی جرائم میں ملوث ہے اور جس طرح امریکی محکمہ دفاع نے اِن تصاویر کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی کتنی ہی کوششوں میں وہ کامیاب ہو چکا ہو گا اور کتنی ہی وارداتوں کی تصاویر بھی نہ اتری ہونگی لیکن آسمان و زمین کانپے ہونگے کہ بہادر افغان بزدل دشمن کے چھپے ہوئے وار کی زد میں آگئے۔ گارجین میں ملا لئی جو یا کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں اُس نے2009 میں کنڑ صوبے میں پنسٹھ دیہاتیوں کے مار ے جانے کا ذکر کیا ہے جن میں سے نو وہ بچے شامل تھے جو گھر کا چولہا جلانے کے لیے خشک لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے ۔مضمون نگار جو خود افغان ہے اور ظاہر ہے غیر ملکیوں کے مقابلے میں افغانستان کے حالات بہتر جانتی ہے اسکے مطابق مقتولین کے خاندانوں کو دوہزار ڈالر فی کس دینے کی پیشکش کی جاتی ہے یعنی ایک افغان کی زندگی کی قیمت دو ہزار ڈالر اور ایک امریکی کی جان کے بدلے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مسلمانوں کی جانیں، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ امریکی جرائم نئے ہیں ماضی قریب ہی کی تاریخ میں امریکہ ویت نام اور پھر عراق میں یہی کچھ کرتا رہا اور جب سے افغان جنگ شروع ہوئی ہے بلکہ خود امریکہ نے کی ہے تو اب وہ اپنی وحشت و بر بریت کا جنون افغانیوں پر پورا کر رہے ہیں کبھی جرگوں پر اور کبھی سکولوں پر بمباری کی صورت میں اپنا جنگلی پن نکال رہے ہیں ۔2009میں رات کو مارے جانے والے چھاپوں میں سو عام شہری مارے گئے جن میں حاملہ خواتین بھی شامل تھیں جن کے بچوں کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا۔

The American Muslimsکی ایک رپورٹ کے مطابق حاجیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

عام افغانیوں کے لیے امریکی فوجیوں کے مکے ، تھپڑ، گالم گلوچ اور لاتیں اب عام سی بات رہ گئی ہے۔

یہ تو صرف وہ جرائم ہیں جو منظر عام پر آسکے ورنہ امریکہ خود جن ملکوں میں حالات خراب کرتا ہے اور اُنہیں درست کرنے کے بہانے وہاں اپنی فوجیں بھیجتا ہے تو پھر اسکی فوج ہر قدم پر جنگی جرائم کی مرتکب ہوتی ہے افغانستان امریکہ کے لیے ایک ایسا ہی میدان جنگ ہے جہاں پر ہر ظلم اور ہر جرم جائز ہے بلکہ افغانستان پر ہی کیا موقوف خود ہمارے سرحدی علاقے بھی مسلسل امریکی وحشت کی زد میں ہیں ڈرون کو کسی بھی گھر ،کسی بھی گاؤں، بلکہ کسی بھی گاڑی پر حملہ کر نے بھیج دیا جاتا ہے اور اُس پر کسی ندامت کا اظہار تو درکنار اس پر فخر کیا جاتا ہے ابھی حال ہی میں امریکہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب وہ ہر ڈرون حملے پر کوئی وضاحت پاکستان کو نہیں دے گا یعنی چاہے حملہ کسی جرگے پر ہو کسی جنازے پر ہو یا ننھے بچوں کے کسی مدرسے یا سکول پر وہ خود کو اس کا مجاذ سمجھے گا۔

دنیا کو اب امریکہ کے اس کردار پر سوچنا بھی ہوگا اور کوئی لائحہ عمل بھی مرتب کرنا ہوگا وہ ممالک جو آج امریکہ کی ہا ں میں ہاں ملاکر مسلمانوں کا خون بہانے پر خوش ہیں اگر امریکہ کو روکا نہ گیا تو اس کی پیش قدمی رکنے والی نہیں وہ ان تک بھی پہنچ سکتا ہے جب تک اسے بزور بازو نہ روکا جائے۔ گل مدین ایک بچے کا نام نہیں ہے یہ افغان قوم کا نام ہے یہ پوری افغان قوم کی تذلیل ہے اور پوری مسلم امہ کی بھی لیکن اس احساس زیاں کو محسوس کرنے کے لیے مسلمانوں کا اتفاق اور اتحاد اولین شرط ہے تاکہ وہ اس قابل ہوں کہ امریکہ کو مزید مظالم سے روک سکیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552771 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.