چین میں نئے قمری سال کے آغاز سے جشن بہار کی سرگرمیوں کا
آغاز ہو جاتاہے۔چینی عوام جشن بہار ، خاندانوں کے ملاپ کے روایتی تہوار کے
طور پر مناتے ہیں اور اس دوران چین کے مختلف علاقوں بالخصوص شہروں میں
روزگار یا دیگر مصروفیات کے سلسلے میں مقیم افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ جشن
بہار کی تعطیلات اور خوشیاں اپنے والدین و اہل خانہ کے ہمراہ منائی
جائیں۔جشن بہار کے موقع پر جونہی لوگ اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو
دنیا اسے سب سے بڑی عارضی "نقل مکانی" قرار دیتی ہے۔کچھ اعداد و شمار واضح
کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ رواں برس یعنی سال دو ہزار بیس میں چین میں جشن
بہار کا آغاز پچیس جنوری سے ہو رہا ہے اور لوگوں کی اپنے آبائی علاقوں کو
روانگی کا سلسلہ دس جنوری سے جاری ہے ۔چالیس دنوں پر محیط آمدورفت کا یہ
سلسلہ اٹھارہ فروری تک بلا تعطل جاری رہے گا۔چینی حکام کے مطابق رواں برس
تین ارب سفر متوقع ہیں اور گزشتہ برس کی نسبت لوگوں کی آمدورفت میں مزید
اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ چالیس روزہ سفری سرگرمیاں چین میں "چھون یون" سے
موسوم ہیں۔گزشتہ ادوار کی نسبت رواں برس جشن بہار اور نئے قمری سال کا آغاز
کچھ جلد ہو رہا ہے وگرنہ عام طور پر فروری کے آغاز یا وسط میں ہی چین میں
نئے قمری سال کا آغاز ہوتا ہے۔تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے حامل
ملک میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لیے چیلنجز اس باعث بھی زیادہ ہیں کہ کالجز
میں زیر تعلیم طلباء کی تعطیلات بھی اسی عرصے کے دوران ختم ہو رہی ہیں لہذا
جشن بہار کے سفری رش اور طلباء کی واپسی ، دونوں امور کا بہتر انتظام
یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں۔ہربار کی طرح اس مرتبہ بھی ٹرین کے ذریعے سفر
لوگوں کی اولین ترجیح رہے گی۔جشن بہار کے لیےتیس کروڑ سے زائد ٹرین ٹکٹس
پہلے ہی خریدے جا چکے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے عوام کی سفری سہولت کے لیے
کچھ نئے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ اگر دارالحکومت بیجنگ کی بات کی جائے تو
بیجنگ تاشنگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ اور بیجنگ کیپیٹل انٹرنیشنل ائیرپورٹ دونوں
فعال رہیں گے۔جشن بہار کے حوالے سے بیجنگ کیپیٹل انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے
65,200فلائٹس کے انتظامات کیے گئے ہیں جبکہ تاشنگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر
فلائٹس کی تعداد 11,200 رہے گی۔ اس ضمن میں بیجنگ سے فلائٹس کی روانگی کے
حوالے سے جو اہم مقامات شامل رہیں گے ان میں چین کے شمال مشرقی شہر جہاں
موسم خوشگوار رہتا ہے ، چین کے ایسے مقامات جو برفباری کے باعث سیاحوں میں
مقبول ہیں جبکہ جاپان اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک بھی بیرونی ممالک کی
اسی فہرست میں آتے ہیں جہاں چینی لوگ تعطیلات کے دوران تفریحی لمحات گزارنے
جاتے ہیں۔ریلوے کے ساتھ ساتھ فضائی زرائع سے بھی لوگ اپنے شہروں میں جائیں
گے اور صرف بیجنگ سے ہی تقریباً انیس لاکھ افراد مختلف شہروں کا رخ کریں
گے۔ چین میں چونکہ ریلوے کے شعبے کی ترقی کو کمال حاصل ہے لہذا رواں سال
چین میں ہائی اسپیڈ ریلوے کے نیٹ ورک کو مزید توسیع حاصل ہوئی ہے اور بیجنگ
اور دیگر شہروں کے درمیان نئے روٹس بھی شروع کیے گئے ہیں اس لیے جشن بہار
کے دوران نئے روٹس کی سفری آزمائش بھی ہو گی۔چین میں لوگوں کی بڑی تعداد
ریلوے کے ذریعے ہی سفر کو ترجیح دیتی ہے اور چینی حکام یہ بھی کہتے ہیں کہ
ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ ورک میں توسیع اور ترقی کے باعث سڑک کے ذریعے سفر
کرنے والے مسافروں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
چین کے پاس اس وقت ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ ورک کی مجموعی لمبائی تقریباً
پینتیس ہزار کلو میٹرز ہے جو دنیا بھر میں سب سے بڑا ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ
ورک ہے۔سال دو ہزار انیس کے دوران بلٹ ٹرین سے سفر کرنے والے مسافروں کی
تعداد تقریباً دو ارب اکتیس کروڑ رہی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
ریلوے نے مسافروں کے لیے کس قدر سہولت فراہم کی ہے۔اسی طرح مسافروں کے لیے
ای ٹکٹس کی سہولت بھی دستیاب ہے۔جشن بہار کے دوران مسافروں کی زیادہ تعداد
کے پیش نظر ای ٹکٹس خریدنے کے دورانیے کو بھی بڑھایا گیا ہے اور مسافر صبح
چھ بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک آن لائن ٹکٹس خرید سکتے ہیں جبکہ چہرے کی
شناخت کی جدید ٹیکنالوجی سے ٹکٹس کے تصدیقی عمل میں بھی تیزی آئی ہے جس سے
وقت کی بچت بھی ہو گی۔
چین کے مختلف شہروں میں مسافروں کی بڑی تعداد کے پیش نظر ریلوے اسٹیشنز پر
انتظار گاہوں کی گنجائش کو بڑھایا گیا ہے۔ ریلوے عملہ ہمہ وقت مستعد اور
متحرک نظر آتا ہے اور انتہائی گرمجوشی اور خوش اخلاقی سے مسافروں کا
استقبال کیا جاتا ہے۔ چینی عوام جب جشن بہار کی خوشیاں اپنے پیاروں کے ساتھ
منا رہے ہوتے ہیں تو یقینی طور پر اس خوشی کے پیچھے ان محنتی کارکنوں کی
کاوشیں بھی کارفرما ہوتی ہیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ چینی سماج میں ایک تبدیلی یہ بھی رونما ہوئی ہے کہ جدید
سفری ذرائع کی دستیابی سے اب والدین خود بھی بچوں سے ملنے شہر آ جاتے ہیں
وگرنہ ماضی میں ہمیشہ شہروں سے دیہی علاقوں کی جانب ہی سفر کیے جاتے
تھے۔چین میں اس نئے رحجان کو "ریورس رش" کا نام دیا گیا ہے۔گزشتہ دو برسوں
کے دوران اس رحجان میں تیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور چین کی
ٹرانسپورٹ انتظامیہ نے اس حوالے سےرعایتی ٹکٹس سمیت مسافروں کے لیے دیگر
سہولیات کی فراہمی کو بڑھایا ہے۔ بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں سمیت
چھںگ دو ،ہانگ جو اور چھونگ چھنگ ایسے شہروں میں شامل ہیں جو "ریورس رش" کے
باعث مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
انیس سو اسی کی دہائی میں چین کے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب آبادی کی
منتقلی کا عمل شروع ہوا جس کا ایک مقصد روزگار کے مواقعوں کی فراہمی اور
سہولیات سے آراستہ زندگی بسر کرنا تھا۔جس کے بعد ہی جشن بہار کے موقع پر
لوگوں کی اپنے آبائی علاقوں میں واپسی سے دنیا کی سب سے بڑی عارضی نقل
مکانی نے جنم لیا جسمیں گزرتے وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
شاہد افراز خان ، چائنا میڈیا گروپ بیجنگ سے بطور عالمی ماہر وابستہ ہیں
،چینی سماج کے مختلف پہلووں اور پاک۔چین دوستانہ تعلقات کے حوالے سے متفرق
موضوعات پر لکھتے ہیں-
|