ہم میں ایک برائی ہے ہم جب بھی مل بیٹھتے ہیں تو ایک
دوسرے کا احوال پوچھنے کے بعد جب کسی مشترکہ دوست، کولیگ یا عزیز رشتہ دار
کا پوچھتے ہیں تو ہم لوگ اس کی برائیاں شروع کردیتے ہیں اگر کسی کا ذکر
کرنا مقصود ہے تو اس کی اچھائیاں بیان کیجئے لیکن نہیں ہمیں تو اپنی گفتگو
کو چٹ پٹا اور ملاقات کو یادگار بنانا ہے. اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں
ہوتا اور ہم گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں.کچھ لوگوں کو تو غیبت
کی ایسا مرض لاحق ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بندہ ڈھونڈتے رہتے ہیں
جس کے سامنے چغلی کرسکیں ایسا نہ کرنے پر ان کی طبعیت بوجھل رہتی ہے وہ
اپنے آپ کو فریش ہی نہیں کرسکتے ایسے لوگ ایک بندے یا بندی کو بتا کر
باقاعدہ تاکید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میں نے صرف آپ کو بتایا ہے کسی اور
کو مت بتانا۔
حالانکہ اس سے پہلے وہ بذاتِ خود دس بارہ لوگوں کو اسی تاکید کے ساتھ بتا
چکا ہوتا ہے. یہ بیماری صرف عام لوگوں میں ہی نہیں بلکہ خاص لوگوں یعنی
ادبی لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے جو سامنے نہیں ہوتا اس کے کیڑے نکالنا
شروع کردیتے ہیں جب وہی بندہ سامنے ہو تو ایسی داد و تحسین دیتے ہیں کہ اس
کو غالب کا گماں ہونے لگتا ہے یہی حال لڑکیاں ایک دوسری کا کرتی ہیں, روم
میٹ ایک دوسرے کا کرتے ہیں, آفس کولیگ کرتے ہیں. یہ کیا ہے ہم کس طرف جارہے
ہیں خدارا اخلاقیات کا جنازہ مت نکالیے دوستوں سے دوست بن کر ملیے نہ کہ
دشمن. ہم لوگ صرف چند قہقہوں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں
دوزخ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ غیبت کرنا ایسے ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھانا. کیا ہم میں سے
کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے،نہیں نا. تو پھر
خدارا ہوش کیجیئے اور اپنی اس عادت کو بدل ڈالئیے اور جس کے پاس بیٹھیں اس
سے اس کی باتیں کیجئیے اس کے حالات جانئیے اور اپنے حالات سے آگاہ کیجئیے
اور ایک دوسرے کے کام آئیے. دوزخ کا ایندھن بننے سے خود بھی بچیں اور اپنے
دوستوں کو بھی بچائیں: |