کل میری نوکری کا پہلا دن ہوگا۔۔مجھے ایکسائیٹڈ
ہونا چاہیے۔میں ایک زمےدار کماو پوت بننے جا رہا ہوں۔۔مجھے خوش ہو نا چاہیے
کیونکہ جاب کے کچھ عرصے بعد ہی میری محبت میری مریم دلہن بن کر ہمیشہ کے
لیے میرے گھر آجاے گی۔۔۔
اب آپ سے کیا چھپانا دراصل اس کے ماں باپ کی یہی شرط تھی کہ لڑکے کی نوکری
ہوگی تب ہی رشتہ دے گیں۔۔۔تو کل وہ دن آ رہا ہے جب میں برسرروزگار ہو
جاوگا۔۔اور نوکری بھی سرکاری۔۔۔اور کیا چاہیے؟؟ یہ میرے والد صاحب کا خیال
ہے میرا نہیں ۔۔۔
۔۔انہیں یہ پروفیشن پسند ہوگا کیونکہ انکی نوکری تھی ان کی ریٹائر منٹ کے
بعد مجھے مل رہی ہے۔۔مجھے یہ پروفیشن پسند نا تھا۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔
میں نے ڈاکٹر انجینئر یا پائلٹ بننے کے خواب نا دیکھے تھے کیونکہ والد صاحب
بڑے بڑے اداروں میں مجھے نا پڑھا سکتے تھے۔۔۔بی اے تک تعلیم حاصل کر پایا
۔۔۔
میں ٹیچر بننا چاہتا تھا ۔۔یا کوئی بھی چھوٹی موٹی نوکری کر لیتا۔۔اس پیشے
کو اختیار کرنے سے کترا رہا تھا۔۔۔اپنی طرف سے کوشش بھی بہت کی کہ کہیں
چھوٹی موٹی جاب ہی ہوجاے اور اس آفر کو ٹھکرا دوں۔۔لیکن دو سال کے مسلسل
دھکے کھانے کے بعد اندازہ ہوا کہ اچھی نوکریاں ہم جیسوں کو ملنا معجزے سے
کم نہیں۔
۔اتنے دھکوں کے بعد بھی جو جاب ملتی اس کی سیلری اتنی کم ہوتی کہ آنے جانے
کا کرایہ بھرنے کے بعد نا ہونے کے برابر بچتی۔۔میں والد پر بوجھ کم کرنا
چاہتا تھا ۔۔لہذا چند گھروں میں بچوں کو ٹیوشنز دینے چلا جاتا تھا۔۔گوکہ یہ
آمدنی بہت قلیل تھی لیکن میری کوشش جاری تھی۔۔
ادھر والد صاحب کی ریٹائرمنٹ سر پر آگئی تو ایک دن انہوں نے مجھے اپنے کمرے
میں بلایا۔۔میں جھجھکتے ہوے اندر داخل ہوا۔۔۔مجھے ان کے بلانے کا سبب اچھی
طرح معلوم تھا " ہاں بیٹا کیا سوچا پھر تم نے؟؟؟ اگلے ہفتے میری ریٹائرمنٹ
کی تاریخ آرہی ہے۔۔"
میں چپ چاپ سر جھکاے بیٹھا رہا ۔۔مجھے ان کی فیلڈ نا پسند تھی اور یہ بات
اچھی طرح جانتے تھے۔۔
" اس نوکری میں حرج ہی کیا ہے ؟؟ نا کوئی خاص محنت نا مشقت۔۔نا کوئی
پریشانی ۔۔ایسی نوکری تو لوگ ڈھونڈتے ہیں۔۔" انہوں نے آج مجھے قائل کرنے کی
کوشش کی ۔
۔میں نے ناگواری سے والد صاحب کو دیکھا " اس بربریت کو آپ آسان نوکری
سمجھتے ہونگے لیکن میں نہیں"
والد صاحب کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں" عجیب بات کرتے ہو کیسی بربریت
؟؟ ہماری تو نوکری ہے یہ۔۔اور دو سال سے تو جوتیاں چٹخا رہے ہو کیا مل
گیا؟؟ ۔
یہ ٹیوشنیں پڑھا کر جتنا کما لیتے ہو اس سے گھر کیسے چلائیں گے؟؟؟ اور
سرکاری نوکری کو لات مار کر بیٹھے ہو۔" ابا کے لہجے میں طنز تھا۔
۔ ان کی بات میں وزن تھا۔۔۔میں نے کمزور سا احتجاج کیا " لیکن ابا مجھ سے
نا ہوگا یہ"
" تمہیں ایسا لگتا ہے لیکن مشکل کام نہیں ہے یہ۔۔میرے بیٹے کو دلیر ہونا
چاہیے"
" دلیر ۔۔۔ہونہہ۔۔۔کسی کی جان لینے کو آپ دلیری کہتے ہیں "
والد نے گھور کر مجھے دیکھا " بے قصوروں کی جان نہیں لیتا میں۔۔اسی قابل
ہوتے ہیں"
. " آپ کو کیسے پتہ کہ بے گناہ نہیں ہوتے؟؟ اگلا بے قصور نکل آیا تو ؟؟؟"
حالات کے بھنور میں پھنس کر میں ہار مان چکا تھا لیکن اعتراض تو اب بھی تھا
۔
۔"تو کیا؟؟؟ تب بھی یہ ہمارا قصور نہیں۔۔ہمارا کام ہے ایمانداری سے اپنی
نوکری کرنا" ابا نے سختی سے اپنا موقف سنا دیا ۔۔
اور میں نے ایک شرط کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے۔۔" ٹھیک ہے ابا لیکن میں یہ کام
صرف تب تک کرونگا جب تب کوئی باعزت جاب نہیں مل جاتی"
والد صاحب نے بدمزگی سے میری طرف دیکھا" تو یعنی یہ بے عزت نوکری ہے؟؟ "
میں نے اس بات کا جواب نا دیا اور چپ چاپ باہر نکل آیا۔۔اب اس ناپسندیدہ
کام کے لیے اپنے دل کو سمجھانا تھا ۔۔۔اور یہ بہت مشکل تھا۔۔
مجھے تو سوچ کر ہول اٹھ رہے تھے۔۔لیکن اور کر بھی کیا کرسکتا تھا؟؟
اگر ابا کی نوکری کو ٹھوکر مارتا تو گھر میں حالات یقیناً خراب ہوجاتے اور
میں گھر والوں کا مجرم بنتا۔۔۔ایک ایک کرکے دن گزرتے گئے اور میرے اندر
کشمکش بڑھتی گئی۔۔بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب میں والد کے ساتھ اس جگہ موجود
تھا جہاں کبھی بھی نا آنا چاہتا تھا ۔۔
ضروری کاروائی کے بعد مجھے ایک پیپر سائن کرنے کو دیا گیا ۔۔اس پیپر پر جلی
حروف میں میرا پروفیشن لکھا تھا ۔۔میں نے افسوس سے نظریں جھکا کر سائن
کردیے۔۔۔
لیں جی آج بیٹھے بیٹھے ایک شریف اور بے ضرر سا بندہ " بائی پروفیشن جلاد "'
بن چکا تھا۔۔
جس نے کبھی چیونٹی تک نہیں ماری وہ اب بندے مارے گا ۔۔ یہ سوچ کر ہی میرے
ہاتھ کانپنے لگے کہ ان ہاتھوں سے اب لوگوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکاوں
گا۔۔۔مجھے خود پر غصہ بھی آیا کہ مجھ جیسا ڈرپوک طبیعت بندہ ایک جلاد کے
گھر کیوں پیدا ہوگیا۔؟
۔۔مجھے تو یہ تک پتہ نا تھا کہ ایک جلاد میں کتنی بے حسی اور سفاکیت ہونی
چاہیے؟؟
پھانسی گھاٹ میں کسی زندہ انسان کو موت کے گھاٹ اتارتے اپنے جذبات پر کیسے
کنٹرول کرنا ہے ۔؟
انہی سوچوں میں گم۔تھا کہ والد صاحب نے مجھے پکارا۔۔" چلو بیٹا تمہیں کام
کا طریقہ سمجھانا ہے "
میں بدک کر پیچھے ہٹا " کیا ۔۔۔۔۔؟؟ ابھی سے کام بھی شروع۔۔۔۔نہیں ابا آج
نہیں۔۔۔مجھے ذہنی طور پر تیار تو ہونے دیں "
میری آواز گوکہ سرگوشی سے بلند نا تھی پھر بھی ابا نے جز بز ہوکر سامنے
بیٹھے افسروں سے نظر چرائی۔
۔آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی اور مجھے لے کر سنٹرل جیل میں داخل
ہوگئے۔۔راستے میں سمجھایا کہ صرف طریقہ بتانا ہے ابھی پھانسی نہیں دینی کسی
کو۔۔۔میری جان میں جان آئی اور ڈرتے ڈرتے مختلف بیرکوں میں قید لوگوں کو
دیکھا۔۔
" ابا۔۔۔ان میں سے پھانسی والے مجرم بھی ہونگیں؟؟"
سوال کرنے کے بعد اندازہ ہوا خاصہ بچگانہ سوال تھا۔۔۔" ہاں۔۔لیکن بہت
کم۔۔زیادہ تر دوسرے قیدی ہیں۔۔عمر قید ۔۔دس سال۔۔پانچ سال ایک سال وغیرہ
۔۔۔"
ان کے تفصیلی جواب کے باوجود بھی میرا دماغ جواب کے پہلے حصے یعنی " ہاں
"میں اٹکا رہا۔۔۔
ہم مختلف بیرکوں سے گزرتے ہوے ایک نسبتاً ویران گوشے میں آگئے۔۔یہاں سے
راہدری عبور کرکے ایک بیرک نما کمرے کے سامنے رکے۔۔اس پر لکھی گئی عبارت
پڑھ کر میرے ماتھے پر پسینہ کی بوندیں چمکنے لگیں۔۔دروازہ کھولا تو سامنے
پھانسی گھاٹ موجود تھا۔۔۔میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا ۔۔قدم تو
لڑکھڑانے تھے۔۔۔( جاری ہے)
|