حسد کی آگ

کشف چوہدری،ڈیرہ غازی خان
وہ سرخ جوڑے میں دلہن بنی بے حدخوبصورت لگ رہی تھی ہمیشہ سادہ رہنے والی حریم جب دلہن کے جوڑے میں سج سنور کر ہال میں آئی تو ہر نظر اس پر رک گئی۔ وہ شرماتی ہوئی کنفیوژ سی سٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی راستے میں اسے کئی جملے سنائی دئیے۔ماشائاﷲ کتنی پیاری لگ رہی ہے۔اس پر بہت روپ آیا ہے ۔پیاری جوڑی ہے دونوں کی۔وہیں ایک جملے پر وہ چونک بھی گئی۔معمولی سی لڑکی ہے میسنی۔ اپنی ادائیں دکھا کر لڑکے کو بے وقوف بنا لیا۔ یہ جملہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا تو ایک لمحے کے لیے جیسے اس کے قدموں نے چلنے سے انکار کر دیا اسے اس طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی بنا دیکھے وہ جانتی تھی وہ کون تھی۔ وہ اس کی ماں تھی رضیہ۔۔۔ اس کی سوتیلی ماں۔۔۔وہ خود کا سنمبھالتی ہوئی سٹیج پر آگئی مگر اس کا دھیان اب امی پر تھا۔۔ وہ اس کی سوتیلی ماں تھیں اور انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اس سے سوتیلا پن دکھانے میں۔۔بچپن میں ہی اس کی امی کی ڈیتھ ہو گئی تھی۔۔ تب وہ بس دو سال کی تھی۔۔ پھر ابو نے دوسری شادی کر لی اور رضیہ اس گھر میں آگئی اس گھر کی نئی مالکن بن کر۔۔ اس نے بلال کو اپنی محبت سے اپنا بنا لیا تھا مگر اس نے اس دو سال کی بچی کو کبھی اپنے دل میں جگہ نہیں تھی۔۔ پھر جب ان کی بیٹی ایشال پیدا ہوئی تب تو وہ اس سے ایسے چڑنے لگی تھیں جیسے وہ اس کی شکل سے بھی نفرت کرتی ہوں۔۔۔ اگر ابو اس کے لیے کچھ لاتے تو وہ ہنگامہ کھڑا کر دیتیں۔۔ اگر وہ چند منٹس اس کے پاس آکر بیٹھتے تو وہ ان سے لڑ جھگڑ کر انہیں اپنے ساتھ لے جاتیں۔۔۔وہ ہمیشہ گھر میں آنے والی ہر اچھی چیز پہلے خود لیتیں اپنے بچوں کو دیتیں اور جو سب ریجیکٹ کر دیتے وہ اس کے حصے میں آجاتی۔۔ پہلے وہ بہت روتی تھی ابو سے گلا بھی کرتی تھی۔۔ مگر اسے جلد سمجھ میں آگیا ابو کچھ نہیں کر سکتے۔۔ وہ ان کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے۔۔۔ اس لیے اس نے پھر شکایت کرنا چھوڑ دی مگر رونا اس کے بس میں نہیں تھا۔۔مگر صبر کرنا اس نے سیکھ لیا تھا۔۔ اور یہی صبر اﷲ کو پسند آیا اور اس کے لیے ایک اچھے گھر سے رشتہ آیا۔۔لڑکا کا اپنا بزنس تھا ایک بہن تھی جس کی شادی ہو چکی تھی۔۔ اس کو تو یقین نہیں آرہا تھا اس کے لیے اتنا اچھا رشتہ کیسے آگیا تھا۔۔ شاید سب محرومیوں کا ازالہ ہونے والا تھا۔۔ مگر تب وہ صدمے سے دوچار ہوئی جب امی نے ان لوگوں کو حریم کے بارے میں یہ کہہ کر پیچھے ہٹنے کو کہا کہ وہ ایک بدکردار لڑکی ہے اور ان لوگوں نے حریم کی بجائے ایشال کو پسند کر لیا۔۔ اور یہ بات حریم کے لیے کسی گہرے صدمے سے کم نا تھی اسے اس بات کا دکھ نہیں تھا کہ امی نے اس کے لیے آنے والا رشتہ ایشال کی طرف موڑ دیا تھا بلکہ انہوں نے اس کے کردار پر کیچڑ اچھالا تھا۔۔ اس کو امی سے اتنی سنگدلی کی امید نہیں تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ایشال کی منگنی دھوم دھام سے کی گئی اور اسی دوران حریم کے لیے بھی ایک رشتہ آیا مڈل کلاس فیملی تھی مگر سفید پوش لوگ تھے لڑکا جاب کرتا تھااور اس کے علاوہ اس کی ایک بہن اور بھائی بھابھی تھے۔۔ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔۔ لڑکا کی امی کو حریم بہت پسند آئی اور اس نے اسے دیکھتے ہی ہاں کر دی۔۔۔ اور آج وہ حسن کے پہلو میں سٹیج پر سجی سنوری بیٹھی تھی۔۔ ایک ہفتہ پہلے ہی ایشال کی شادی ہوئی تھی اور وہ سونے کے زیورات سے لدی پھندی قیمتی ڈریس پہنے ادھر ادھر گھوم رہی تھی اس نے ہر اس چیز کو حریم سے لے لیا تھا جو حریم کو اچھی لگی تھی۔۔۔ اس کا حسد ہمیشہ حریم کو اس کی من پسند چیزوں سے دور کر دیتا تھا۔۔اتنا مہنگا فرنیچر حریم کو دیا ابو نے؟ کل ہی وہ امی سے بحث کر رہی تھی۔

مہنگا نہیں سستا سا لیا ہے بڑی مشکل سے تمہارے ابو کو راضی کیا اس فرنیچر پر۔۔ تمہارے لیے تو اتنا مہنگا لیا تھا میں نے سب کچھ۔ رضیہ نے سرگوشی میں اسے سمجھانا چاہا۔پھر بھی اس کو اتنا کچھ دیا ابو نے۔ اس کو پھر بھی اعتراض تھا شاید اس سے یہ برداشت ہی نہیں ہوتا تھا حریم کے پاس کچھ ہو۔۔ابھی اس کی شادی ہونے دو تمہیں اور چیزیں لے کر دوں گی بعد میں۔ ویسے بھی تمہارا سسرال تو اتنا امیر ہے تمہارا شوہر تمہیں ہر چیز لے کر دے گا۔۔ اس کے پاس ہے ہی کیا۔۔ معمولی جاب کرتا ہے لڑکا۔۔ اس سے جان چھوٹ جائے تو سب ہمارا ہی ہے۔ میں تو بس کوشش کر رہی ہوں جو زمینوں میں اس کا حصہ ہے وہ اس کو نا ملے اس لیے اس کو یہ سب دینے دیا تاکہ کل کو کہہ سکوں اتنا کچھ لے کر دیا اب اس کا کوئی حصہ نہیں بچا یہاں۔ رضیہ نے بیٹی کی تسلی کرنے کے لیے اسے اپنے آئیندہ کی پلاننگ بتائی۔۔۔ اور ایشال کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔واہ امی آپ تو بہت چالاک ہیں۔ ویسے بھی میرا اس کا کیا مقابلہ میری تو اب شان و شوکت ہی بہت اونچی ہے۔۔ اتنے زیورات پہلے ہی دئیے شادی پر منہ دکھائی میں پانچ تولے کا سیٹ الگ دیا مہران نے۔ وہ فخر سے بتانے لگی۔۔ اور رضیہ اپنی بیٹی کی نظر اتارنے لگیں۔۔۔اﷲ میری بیٹی کو حاسدین کے حسد سے بچائے۔ وہ اس پر سے سرخ نوٹ وارتے ہوئے بولیں۔مہران نے دوسری شادی کر لی۔ ایشال کا رو رو کر برا حال تھا اور رضیہ اس کو تسلی دے دے کر تھک گئی تھی۔حریم بھی اپنی بیٹی کے ساتھ پریشان سی اس کو دیکھ رہی تھی۔میں نے بھی اس کو کہہ دیا ہے اگراس نے اس چڑیل سے شادی کی تو میں اس کو چھوڑ دوں گی۔ اب میں بھی دیکھتی ہوں کیسے اس سے شادی کرتا ہے۔ ایشال نے روتے روتے غصے سے کہا۔اور یہی تمہاری غلطی تھی میری بچی۔۔ اس نے تمہیں طلاق بھیج دی ہے۔ ابو نے پیپر اس کے سامنے ٹیبل پر ڈالتے ہوئے کہا۔کیا؟ وہ میری بیٹی کو طلاق کیسے دے سکتا ہے؟ رضیہ نے بے یقینی سے اپنے شوہر کو دیکھا پھر ان پیپرز کو دیکھا جبکہ ایشال شاک کے عالم میں ابو کو دیکھ رہی تھی۔ہاں اس نے طلاق دے دی ایشال کو۔۔ یہ سب تم لوگوں کے حسد کا نتیجہ ہے تم نے حریم سے وہ رشتہ چھیننے کے چکر میں یہ بھی جاننا ضروری نا سمجھا وہ لڑکا کیسا ہے کس کردار کا ہے۔۔ حریم سے حسد میں اتنی اندھی ہو گئی تم دونوں کہ کہیں اس کا رشتہ یہاں طئے نا ہو جائے تم نے اس رشتہ کو ہمیشہ کی طرح اپنی بیٹی کی طرف موڑ دیا جیسے پوری زندگی تم نے حریم کے حصے کی چیز اپنے بچوں کی طرف موڑ لی۔۔ مگر افسوس اس بار حسد میں تم نے اپنی بیٹی کے لیے حریم کے حصے کا نصیب ہی موڑ لیا۔۔ تم نے اپنی بیٹی کے لیے کسی کی گود سے خسارا چھین کر اپنی بیٹی کی جھولی میں ڈال دیا اور حریم کو دیکھو آج وہ عزت سے اپنے شوہر کے ساتھ اس کے چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے۔۔ اس کی بچی ہے۔۔ اور ایشال کے حصے میں سوائے رسوائی کے کچھ نہیں آیا اس یے خدا کو حسد جیسی بلا پسند نہیں کیونکہ یہ خود حسد کرنے والے کی ذات کو کھا جاتا ہے۔۔ جیسے تمہاری بیٹی کی قسمت کو کھا گیا۔۔۔ ابو نے واضح اور صاف لفظوں میں انہیں آئینہ دکھایا۔۔۔ مگر اب دیر ہو چکی تھی حسد کی آگ ان دونوں ماں بیٹی کو نگل چکی تھی اور اب انہوں نے اس میں جلنا تھا۔۔ اور جس سے حسد کیا وہ خوش مطمئن پرسکون رہے گی۔

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 47 Articles with 40478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.