انسان بہت ہی کمزور مخلوق ہے ، اپنی پیدائش سے لیکر موت
تک ہرپل اورہرلمحہ اپنے خالق کی مہربانی کا محتاج ہے ۔ہاتھ وپیر میں
چلنیپھرنے ،اٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کرنے کی طاقت۔ ناک ، کان اور آنکھ میں
سونگھنے ، سننے اور دیکھنے کی طاقت دل ودماغ میں سوچ وفکر کی طاقت اور جسم
میں جان کی طاقت سب ان اعضا کے بنانے والے اﷲ کی جانب سے ہے ۔ ایک آدمی اسی
وقت زندہ رہ سکتا ہے جب تک اﷲ کی مہربانی ہے ، اس کی مہربانی سے محروم ہوتے
ہی وہ دنیا سے فنا ہوجائے گا۔ اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ اﷲ ایک
آدمی پر تئیس گھنٹے مہربان رہا اور چوبیسویں گھنٹے اپنی مہربانی ہٹالیتا
ہے، اس کے بعد آدمی چوبیس سکنڈبھی سانس نہیں لے سکتا ۔ اس قدر مجبور وکمزور
انسان بھلا طاقتور کیسے ہوسکتا ہے ؟
اﷲ نے انسانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یُرِیدُ اللَّہُ أَنْ
یُخَفِّفَ عَنْکُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِیفًا(النساء :28)
ترجمہ:اﷲ چاہتا ہے کہ تم پر آسانی کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا
ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:الْآنَ خَفَّفَ اللَّہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ
فِیکُمْ ضَعْفًا(الأنفال:66)
ترجمہ: اب اﷲ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری
ہے ۔
سورہ روم میں انسان کی مرحلہ وار کمزوری بتاتے ہوئے اﷲ فرماتا ہے :
اللَّہُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ
قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّۃٍ ضَعْفًا وَشَیْبَۃً Ú یَخْلُقُ
مَا یَشَاء ُ Ö وَہُوَ الْعَلِیمُ الْقَدِیرُ (الروم:54)
ترجمہ:اﷲ تعالٰی وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس
کمزوری کے بعد توانائی دی ، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا
جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔
اس آیت میں اﷲ نے بتایا کہ انسان ضعیفی میں پیدا کیا گیا پھر اسے قوت دے کر
جوان بنایاگیا اس کے بعد پھر سیاس پر بڑھاپا کا بوجھ ڈال کر ضعیف بنادیا
گیا۔ہمارے مشاہدے کی چیزیں ہیں یا یہ کہہ لیں کہ یہ ہمارے حالات ہیں ، آئے
دن ہم بیمار ہوتے ہیں ، کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں ، ہمیں آرام ونیند کی
ضرورت پڑتی ہے ،ہم سب کوبھوک وپیاس محسوس ہوتی ہے ، سردی وگرمی سیہمیں
تکلیف پہنچتی ہے ، مصائب ومشکلات پہ روپڑتے ہیں ، ایک وقت آتا ہے بدن سے
روح ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ساری انسانی کمزوریاں
ہیں اور جو کمزور ہو طاقت والا کیسے ہوسکتا ہے ؟
یہ بھی امر واقعی ہے کہ کوئی آدمی کسی سے جسمانی اعتبار سے طاقتور ہوتا ہے
، کسی کو مال ، کسی کو اولاد ، کسی کو جاہ ومنصب اور کسی کو حکومت وکرسی کی
طاقت ملتی ہے ۔ ایسے میں کچھ لوگ اپنی طاقت کا استعمال دوسروں کو نفع
پہنچانے میں کرتے ہیں جبکہ اکثرلوگ قوت وطاقت کا استعمال کمزوروں پر زیادتی
میں کرتے ہیں ۔ ظلم وزیادتی کرنے والوں پر طاقت کا نشہ اس قدر حاوی ہوجاتا
ہے کہ اسے یہ شعور نہیں ہوتا کہ اس سے بھی بڑا طاقتور ہے ، ایک ایسی قوت ہے
جو عظیم الشان کائنات کو حاوی ہے۔اسے یہ احساس نہیں رہ جاتا ہے کہ اس کے
پاس موجود قوت خواہ مال ہو، اولادہو، اسلحہ وبارود ہو، عہدہ ومنصب ہو
یاحکومت وسطوت ہو سب قادر مطلق اﷲ کی طرف سے ہے اور فانی ہے، وہ جب چاہتا
ہے انسان کو طاقت دیتا ہے اور جب چاہتا اسکی طاقت چھین لیتا ہے ۔ موت
انسانی غرور وطاقت کا آخری انجام ہے ، اس سے پہلے نہ جانے کتنی عبرت ونصیحت
اور عروج وزوال کی داستانیں ہیں ۔
ضعف وکمزوری کے مقابلہ میں قوت وطاقت ہے اور اﷲ ہی سارے جہاں میں سب سے
زیادہ طاقتور ہے ۔ اس کا مشاہدہ اپنی تخلیق کے شروع دن سے اولاد آدم کرتی
آرہی ہے ۔ اﷲ کا فرمان ہے:وَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ ہِیَ أَشَدُّ قُوَّۃً
مِّن قَرْیَتِکَ الَّتِی أَخْرَجَتْکَ أَہْلَکْنَاہُمْ فَلَا نَاصِرَ
لَہُمْ (محمد:13)
ترجمہ:ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیادہ تھیں جس سے
تجھے نکالا گیا ہم نے انہیں ہلاک کر دیا ہے جن کا مددگار کوئی نہ اٹھا ۔
اس آیت میں اﷲ نے علی الاطلاق ان طاقتور اقوام کی تباہی کا ذکر کیا جنہوں
نے ظلم وکفر کیا جبکہ قرآن میں کئی مقامات پرچند ظالم اقوام اور طاقتور
افراد کا بھی ذکر کیا ہے جن کی قوت چکناچور ہوگئی اور وہ خود دنیا کے لئے
نشان عبرت بن گئے ۔ اﷲ کا فرمان ہے :
أَوَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ
الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ Ú کَانُوا أَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً وَأَثَارُوا
الْأَرْضَ وَعَمَرُوہَا أَکْثَرَ مِمَّا عَمَرُوہَا وَجَاء َتْہُمْ
رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ Ö فَمَا کَانَ اللَّہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلَٰکِن
کَانُوا أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ (الروم:9)
ترجمہ:کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں
کا انجام کیسا ہوا ؟ وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور تھے اور انہوں نے بھی زمین
بوئی جوتی تھی اور ان سے زیادہ آباد کی تھی اور ان کے پاس ان کے رسول روشن
دلائل لے کر آئے تھے یہ تو ناممکن تھا کہ اﷲ تعالٰی ان پر ظلم کرتا لیکن
دراصل وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔
مال ودولت سے مغروروطاقتورحاکم قارون کا ذکرکرتے ہوئے اﷲ فرماتاہے:
إِنَّ قَارُونَ کَانَ مِن قَوْمِ مُوسَیٰ فَبَغَیٰ عَلَیْہِمْ Ö
وَآتَیْنَاہُ مِنَ الْکُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوء ُ
بِالْعُصْبَۃِ أُولِی الْقُوَّۃِ إِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لَا تَفْرَحْ Ö
إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِینَ (القصص:76)
ترجمہ:قارون تھا تو قوم موسیٰ سے لیکن ان پر ظلم کرنے لگا تھا۔ ہم نے اسیاس
قدرخزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں اٹھا
سکتے تھے ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اترا مت !اﷲ تعالٰی اترانے والوں سے
محبت نہیں رکھتا ۔
دنیا کے ایسے طاقتورآدمی جس کے خزانے کی چابھیاں کئی کئی طاقتورلوگ بمشکل
اٹھاپاتے تھے آخر اس کا انجام کیا ہوا؟ اس کے انجام کے متعلق اﷲ نے دوسری
جگہ بتلایا کہ قارون سے بھی زیادہ مال اور طاقتوروالے لوگوں کو ہم ہلاک
کرچکے ہیں ، ارشاد ربانی ہے :
أَوَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَہْلَکَ مِن قَبْلِہِ مِنَ
الْقُرُونِ مَنْ ہُوَ أَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَأَکْثَرُ جَمْعًا Ú وَلَا
یُسْأَلُ عَن ذُنُوبِہِمُ الْمُجْرِمُونَ (القصص:78)
ترجمہ:کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اﷲ تعالٰی نے اس سے پہلے بہت سے بستی
والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی
والے تھے اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی ۔
ملکہ سبا بلقیس(جب حالت کفر میں تھی) کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط
پہنچتا ہے کہ اسلام قبول کرلو تو اس کے ساتھیوں نے طاقت وجنگ جوئی کا رعب
ظاہرکیا اور کہا: قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّۃٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِیدٍ
وَالْأَمْرُ إِلَیْکِ فَانظُرِی مَاذَا تَأْمُرِینَ (النمل:33)
ترجمہ:ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں
آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی
ہیں ۔
مگراﷲ کے رسول سلیمان علیہ السلام کے سامنے بلقیس کا عظیم تخت، اس کے لشکر
اورقوت کام نہ آئے اوراسلام قبول کرنا پڑا اور کہہ اٹھیں"أَسْلَمْتُ مَعَ
سُلَیْمَانَ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ " اب میں سلیمان کے ساتھ اﷲ رب
العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں۔
بہرکیف! قوت وطاقت والے اقوام وافراد کے عروج وزوال اور ان کی تباہیوں کی
طویل داستانیں ہیں ، یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ انسان کو بدن یا زمین کی
قوت ملتی ہے وہ بھی اﷲ کی طرف سے ہے اور اس وقت تک رہتی ہے جب تک اﷲ چاہتا
ہے ۔ اﷲ ہی قوت وطاقت والا ہے ، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اسے
تھکان لاحق نہیں ہوتی، اسے اونگھ نہیں آتی ، اسے کھانے پینے کی حاجت نہیں
،اس میں کوئی نقص وعیب نہیں ، وہ سب سے بلند اور سب سے زیادہ قوت وطاقت
والا ہے ۔ اﷲ کا فرمان ہے : أَنَّ الْقُوَّۃَ لِلَّہِ جَمِیعًا وَأَنَّ
اللَّہَ شَدِیدُ الْعَذَابِ (البقرۃ:165)
ترجمہ:تمام طاقت اﷲ ہی کو ہے اور اﷲ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے۔إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ (66)
ترجمہ: یقینا تیرا رب ہی طاقتور اور غالب ہے۔
ایک جگہ یوں ارشاد ہے : إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ
الْمَتِینُ(الذاریات:58)
ترجمہ:اﷲ تعالی تو خود ہی سب کا روزی رساں ، طاقت والا اور زبردست زورآور
ہے۔
ظاہر سی بات ہے جو ہم کو پیدا کرے، جو ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کرے،
جوہماری زندگی اور موت پر قادر ہو اصل طاقت والا تو وہی ہے ، اوپری آیات
میں القوی (قوت والا) اور المتین (زبردست قوت والا) کا ذکر ہے ، یہ دونوں
اﷲ کے اسمائے حسنی ہیں ۔
آج مسلمان کیوں کمزورہے ؟ ایمان لانے کے باجودہرجگہ مسلمان ہی کیوں مظلوم
ومقہور ہے ؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے جاننا ہوگا کہ مسلمانوں کی اصل قوت کیا ہے ؟
مسلمان کی قوت اﷲ پر کامل ایمان جو شرک سے پاک ہو اور اعمال صالحہ ہے ۔
مومن کی قوت اﷲ کا ساتھ ہے اور اﷲ کا ساتھ ایمان وعمل کے بغیر ممکن نہیں ہے
۔ سوچنے کا مقام ہے کہ روئے زمین کا سب سے بڑا گناہ اﷲ کے ساتھ شرک کرنا ہے
اور مسلمانوں کی اکثریت اس گناہ میں مبتلا ہے پھر کیوں نہ مسلمان پریشان
ہو؟
اگرمسلمان غیراﷲ سیاستغاثہ اور قبروں کو سجدہ کرنا چھوڑکر عقیدہ وایمان
درست کرلے اور سچی توبہ کیساتھ اعمال صالحہ کی طرف لوٹ جائے تو اﷲ قوت
درقوت سے ہمکنار فرمائے گا ، یہ اس کا وعدہ ہے چنانچہ ارشاد باری ہے :
وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ یُرْسِلِ
السَّمَاء َ عَلَیْکُم مِّدْرَارًا وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً إِلَیٰ
قُوَّتِکُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِینَ (ھود:52)
ترجمہ: اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی
طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج
دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے اورتم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ
کرو ۔
اﷲ نے مدد کرنا اپنے اوپر فرض کرلیاہے ، مطالبہ بس صحیح ایمان کاہے ، اﷲ کا
فرمان ہے : وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ(الروم:47)
ترجمہ:ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔
اے کاش مسلمان شرک کی خطرناکی کو سمجھیں اور اس سے توبہ کرکے خالص ایمان
وصحیح عقیدہ پر کاربند ہوجائیں۔
|