کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے خودکشی بے وجہ نہیں ہوتی

 زندگی کیا ہے؟ ایک انمول نعمت اور خدا کا حسین تحفہ ہے۔ ہر شخص زندگی کو بھرپور انداز میں جینا چاہتا ہے اور اس کا ہر لمحہ بہترین انداز میں بسر کرنا چاہتا ہے مگر زندگی میں کئی بار ایسے مقام آجاتے ہیں کہ انسان تمام تر مثبت سوچ کو نظر انداز کرنے لگتا ہے اور صرف اور صرف منفی خیالات کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے، کبھی کبھار حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ انسان نہ چاہتے ہوے بھی جینے کے برعکس موت کی تمنا کرنے لگتا ہے اور ایسے میں پھر بزدل انسان اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کرنے یعنی خود کشی جیسے قبیح عمل سے بھی باز نہیں آتا۔

خود کشی سے مراد ہے اپنی جان خود لینا اور موت کو گلے لگانا۔ خود کشی اسلام میں حرام قرار دی گئی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
''جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خود کشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خود کشی کرلی تو اس کا ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا''۔ (صحیح بخاری، کتاب الطب، باب شرب السم، ح:5778)

اگرغور کیا جائے تو ہر خود کشی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں کیوں کہ حادثہ یک دم نہیں ہوتا یعنی یقینی طور پر خودکشی کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی نادیدہ قاتل ضرور ہوتا ہے۔

زندگی کے کسی بھی شعبہ پر نظر دوڑائیں تو اس سے منسلک افراد میں خود کشی کا رجحان بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سنہ 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے برس یعنی 2012 میں پوری دنیا میں ہر ایک لاکھ کی آبادی میں گیارہ اعشاریہ چار لوگوں نے خود کشی سے اپنی زندگی ختم کی۔
طلبہ کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، یہی تو ہوتے ہیں مستقبل کے معمار۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے طلبہ کو نمبروں کی دوڑ میں اس طرح دوڑاتے جا رہے ہیں کہ وہ نمبروں کے چکر میں گھومتے چلے جارہے ہیں۔ اس دوران جب کسی طالب علم کا گیارہویں جماعت کا نتیجہ آتا ہے اور اس دن اس کے گھر آنے کے بجائے اس کا والدین کے نام لکھا گیا خط آتا ہے، جس میں اس نے واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ میرے پیارے والدین مجھے معاف کر دیجیے گا، میں اچھے نمبر نہیں لے سکا، میں آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا میں خود سے بہت شرمندہ ہوں اس لیے مجھے جینے کا بھی کوئی حق نہیں! اور یہ خط اس دریا کے کنارے پڑا ہوتا ہے جس میں طالب علم نے کود کر جان دے دی۔ اب غور کریں تو والدین کا بے جا دباؤ اور طالب علم کا یہ خوف کہ والدین کی عزت نہیں رہے گی، انہیں باتوں نے اسے منفی راستے پر دھکیلا اور اس نے زندگی سے ہی منہ موڑ ڈالا حالانکہ والدین کا اندازاسے مثبت سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کر سکتا تھا۔

اردگرد نظر دوڑائی جائے تو ہمیں احساس ہوگا کہ کہیں ماں نے اپنے جگر گوشوں کو بھوک سے تڑپتے دیکھ کر مار ڈالنے کے بعد خود بھی زہر کھا کر جان دے دی۔ وجہ یہ بھوک تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا نہ دیکھ سکتی تھی اور پھر ان کو مارنے کے غم میں اپنی بھی جان لے لی۔ شاعر نے شاید ایسے ہی کسی واقعے کے لیے ارشاد فرمایا تھا:
؎ بھوک سے زہر کھا کر مر گیا انسان
لوگ کہتے ہیں خودکشی کی ہے

زندگی کے قدم قدم پر انسان کو ایسے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے کہ اسے کہیں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ بیمار اور لاغر شخص جو کہ بیماری سے تنگ آچکا ہو اور اس کی زندگی کا محور محض دوائیاں اور ہسپتال کا ایک کمرہ رہ گیا ہو ایسے میں وہ اس اذیت بھری زندگی سے راہ فرار حاصل کرنے کے لیے خودکشی کا سہارا لے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کے گھر کے افراد، دوست احباب اس کو زندگی کی اہمیت کا اندازہ، اس کی ہمت بندھانے میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

خودکش حملہ آور کے روپ میں خود کشی کرنے والے کو یہ لالچ ہوتا ہے کہ ایک خود کش حملہ کرنے سے اتنے پیسے مل جائیں گے کہ گھر والوں کا راشن آجائے گا، بہن کا جہیز بن جائے گا اور بیمار ماں کی دوا آجائے گی۔ اگر صاحب نصاب اپنی اپنی زکوۃ مستحقین تک پہنچائیں تو یقین مانیے خودکش بمبار یہ عمل کرنے کا کبھی بھی نہ سوچے۔ یہاں اہل ثروت کے روپ میں اس کے قاتل موجود ہیں۔

کٹہرے کے باہر کھڑے ہوے بوڑھے باپ کو جب پتا چلا کہ اس کے معصوم بیٹے کے قاتل کو پھانسی پر لٹکانے کے بجائے، بھاری رقم کے عوض رہائی کا پروانہ دیا جا چکا ہے تو اس بوڑھے باپ کے لیے عدالت کا یہ فیصلہ بجلی بن کر گرتا ہے اور وہ انصاف کی موت ہو جانے پر خود بھی موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ کیوں کہ وہ معاشرے کے حالات سے دل برداشتہ ہو چکا تھا کہ مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بقول شاعر
؎ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے، یاد نہیں

ایک بیٹی کو جب بیسیوں لڑکے والے دیکھ جا کر جاتے ہیں اور پھر جواب یہ آتا ہے کہ ہمیں تو فلاں بزنس مین اپنی بیٹی کا رشتہ دے رہا ہے اور آپ کی بیٹی تو جہیز میں کچھ خاص لا بھی نہیں سکتی تو والدین کے دلوں پر جو گزرتی ہے سو گزرتی ہے مگر جب بیٹی کو یہ بات پتا چلتی ہے تو وہ اپنی اہمیت جہیز کے معنوں میں تولے جانے پر روز جیتی ہے اور روز مرتی ہے۔
؎ قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں
پھر انہیں خودکشی سکھاتا ہوں

ایسے میں اس کو ایک راستہ نظر آتا ہے کہ روز گھٹ گھٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی دفعہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جائے اور پھر پنکھے سے لٹکی ہوئی ایک لاش معاشرے کے فضول رسم و رواج پر بین کرتی دکھائی دیتی ہے۔

بعض اوقات کسے بہت اپنے کا فراق انسان کو اس مقام پر لا کھڑا کر دیتا ہے کہ وہ جینے کی ہر وجہ بھول جاتا ہے اور ابدی نیند سونے کے لیے چار گولیاں زہر کی لے لیتا ہے۔

حالانکہ اسے زہر لینے کے بجائے ان لوگوں کا بھی سوچنا چاہیے تھا جو اس کو دیکھ دیکھ جیتے ہوں۔ ہاں! مشکل ضرور ہوتا ہے زندگی کا سفر طے کرنا مگر بہر حال طے تو کرنا ہے۔

ضروری نہیں کہ محض انہیں وجوہات کی بنا پر انسان خود کشی کا مرتکب ہو، بعض اوقات خودکشی کے خیالات آنا اور خود کشی کی کوشش کرنا کسی شخص کے دماغی خلل کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں طبی معائنہ بھی ضرور کروانا چاہیے۔

مختصر یہ کہ خودکشی کے پس پردہ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ کہیں کوئی امید دم توڑتی نظر آئے گی، کہیں کوئی ظلم ہوگا، کہیں بیماری اور کہیں کوئی نامکمل حسرت۔ زندگی کبھی بھی آسان نہیں ہوتی کیونکہ یہ تو امتحان ہے اور امتحان زیادہ تر آسان نہیں ہوا کرتے۔

خود کشی جیسے قبیح عمل کو روکنے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا کہ یہ عارضی زندگی ہمیں ایک بار ملی ہے اور اسی میں کیے گئے اعمال کا نتیجہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔

زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا، دوسروں میں مثبت سوچ پیدا کرنی ہوگی، امیدوں کے دیے جلانے ہوں گے۔ یہ کسی ایک کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے۔ گھر سے سکول، کالج، آفس، ہر طرف اگر امید اور مثبت تبدیلی نمایاں ہو جائے تو بہت جلد خودکشی کا نام و نشاں مٹ جائے گا۔

Memuna Rehmat
About the Author: Memuna Rehmat Read More Articles by Memuna Rehmat: 12 Articles with 16092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.