اس میں شک نہیں کہ انسان میں خدمت کا جذبہ موجود ہے لیکن
ذاتی اغراض، مفادات اور نفسانی خواہشات اس جذبے پہ اثرانداز ہوکر انسان کو
حیوان نما انسان میں تبدیل کردیتی ہیں اور وہ ظلم و ذیادتی کا رویہ اختیار
کرنے میں بھی تامل نہیں کرتا اس کے برعکس بہت سے لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق
قائم کرلیتے ہیں اور اس کے بندوں کی خدمت کرکے انسانی کمزوریوں پہ قابو
پالیتے ہیں ایسے ہی لوگ اصل ہیرو ہوتے ہیں جو دیس میں ہوں یا پردیس لیکن ان
کی ہیروئیک صفت انہیں خدمت خلق کے جذبے سے سرشار رکھتی ہے اور وہ ذاتی غرض
یا خارجی پریشر کے بغیر ہی خدمت خلق کرتے ہیں، اسلام نے مخلوق کی خدمت کو
خالق کی خدمت سے تعبیر کیا ہے اور اس سے پہلو تہی کرنا خالق کی خدمت سے
غفلت کے ہم معنی ہے، جو لوگ خدمت خلق کرتے ہیں انہیں فرشتہ نما انسان کے
طور پر جانا جاتا ہے اس کے برعکس جو لوگ ظلم و جبر، ذیادتی اور اﷲ کے بندوں
کے لیے تکلیف کا سامان کریں انہیں دنیا کے ہر معاشرے میں شیطان نما انسان
کے طور پر دیکھا جاتا ہے، میرے سامنے براعظم افریقہ کے جنوبی حصے کا نقشہ
ہے جہاں دو مختلف ملکوں میں دو قسم کے پاکستانی مقیم ہیں ایک وہ ہیں جن کا
نام ہی خوف کا علامت ہے جبکہ ایک وہ ہیں جو دیار غیر میں رہ کر بھی ایک طرف
تو خدمت خلق کے زریعے خدا سے تعلق قائم کیے ہوے ہیں دوسری طرف دنیا میں وطن
عزیز کا نام روشن کررہے ہیں، افریقہ کے عین جنوب میں جنوبی افریقہ کے نام
سے ایک ملک واقع ہے جس کی پاکستان میں دو وجہ شہرت ہیں ایک کرکٹ کے حوالے
سے جبکہ دوسری MQM SouthAfrica نیٹ ورک کے طور پر جوکہ ایک عرصے تک کراچی
میں خوف و دہشت کی علامت رہا ہے، صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں متحدہ
ساوتھ افریقی نیٹ ورکے چرچے ہیں، یہ مشہور ہے کہ جنوبی افریقہ سے موصول
ہونے والی کالز میں بھتے، دھمکی یا پھر ٹپکا دینے کے پیغام ہی ہوتے تھے آج
بھی اگر کسی شخص کو وہاں سے مس کال بھی آجائے تو +27 کا کوڈ دیکھتے ہی اچھے
اچھوں کو پسینہ آجاتا ہے اور یہ ذکر کرتے ہوے میرے ذہن میں بھی بہت سے
خدشات اٹھ رہے ہیں کہ اﷲ ہی خیر کرے کہیں بھائی لوگ برا ہی نہ مان جائیں
مگر بوجوہ مجبوری کہ تقابل کے لیے کوئی اور مثال نہیں سو یہ جان ہتھیلی پہ
رکھنے والی جسارت بھی کرنی ہی پڑ رہی ہے، اس کے برعکس اس کے ساتھ ہی واقع
جمہوریہ ملاوی ہے جو دنیا کے دس غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے وہاں
تقریباً تین سے چار ہزار پاکستانی مقیم ہیں، چودھری اظہر محمود ان میں سے
ایک ہیں 2015 میں چودھری صاحب نے علی اکبر کامدار، شعیب اسلم عباسی و دیگر
کیساتھ مل کر پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن ملاوی قائم کی جس کا مقصد مخلوق
خدا کی بیلوث خدمت کرنا تھا تو بہت سے اہل ثروت کے دلوں کو چھوا تو یہ
قافلہ بڑھتا گیا اور اب ملاوی میں اس کے دارالحکومت سمیت دو بڑے شہروں میں
اس کے چیپٹرز کام کررہے ہیں، پچھلے سال ملاوی کے پسماندگان کو سیلاب نے جب
بالکل تباہ کردیا تو پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن ملاوی کے رضاکار پاکستانی
پرچم لیے لیے مخلوق خدا کی خدمت میں خوراک، لباس و ادویات عطیہ کرتے رہے
جیسا کہ ملاوی کی کل آبادی کا نصف غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں
پہ مشتمل ہے تو عالمی متعلقہ ادارے یہاں کام کررہے ہیں ان کے بیچوں بیچ
چودھری اظہر محمود کے رضاکار ساتھی پاکستانی پرچم تھامے ملک و ملّت کا مثبت
چہرہ پیش کرتے رہے، ایک ایسے وقت میں جب بہت سے اپنے بھی اور پرائے بھی
پاکستان کو مختلف پروپیگنڈوں کے زریعے بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں
رکھے ہوے تھے تو ایسے میں ملاوی میں موجود پاکستانی کمیونٹی پاکستان اور
پاکستانیوں کا نام روشن کرتے رہے، اگر ایسا کوئی کام بھارتی شہری کررہے
ہوتے تو بھارتی میڈیا زمین آسمان کی قلابیں ملانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا
لیکن پاکستانی میڈیا کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ ہر جگہ پاکستان ریلوے کی طرح
لیٹ ہوجاتے ہیں، پ PWA ملاوی محبت و رواداری کی بہترین مثال قائم کیے ہوے
ہے ایک عرصے سے ملاوی میں موجود پاکستانیوں کو تحفظ اور کسی بھی جائز مدد
کے لیے ہمہ وقت پیش پیش ہے اس کے ساتھ ساتھ اہلیان ملاوی کو خدا کا کنبہ
سمجھ کر ادویات، خوراک، لباس و دیگر شعبہ ضروریات میں مدد کررہے ہیں، ان کے
اس کام کا اجر حقیقی تو آخرت میں ہی مل سکتا ہے لیکن PWA کی بدولت پاکستان
کا نام ضرور روشن ہورہا ہے، اگر دنیا کے دیگر ممالک میں موجود پاکستانی بھی
اسی طرح آگے آکر خدمت خلق کریں اور ہر کوئی اپنے حصے کا چراغ جلائے تو وہ
دن دور نہیں جب پوری دنیا میں پاکستان و پاکستانیوں کے متعلق پھیلایا گیا
منفی پروپیگنڈہ دم توڑ دیگا اور رحمت و روشنی چاروں طرف ہمارا طواف کرتی
پھریگی اور اس مرحلے پر غالب کے شعر''تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم،
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے'' کے مصداق ان لوگوں سے تو کچھ نہیں کہنا
جن کو ملک و ملّت سے عزت، دولت، مقام ملا لیکن وہ پھر بھی اہل وطن کی دل
آزاری اور وطن عزیز کے وجود کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوگئے ہیں کے علاوہ
وہ تمام پاکستانی جو ملکی بقا و سالمیت کے لیے فکرمند و خواہشمند ہیں مدعو
کرتا ہوں کہ امکانی حد تک اس پر غور کریں اور آگے آکر پاکستان کی پہچان
پاکستان کے طور پر کروائیں۔ |