میں اکثر اپنے آپ سے بہت سی
باتیں دنیا اور انسانیت کے بارے کرتا رہتا ہوں اور کبھی کبھی دوسروں کو
پریشان کرنے کے لئے ان سے بھی اس قسم کی باتیں کر لیتا ہوں۔ سائنس کی ترقی
اور اس ترقی کی وجہ سے انسان اور زمانے کو حاصل ہونے والی ترقی سے انکار تو
نہیں کر سکتا کیونکہ سائنسی ایجادات مثلاً پہیہ، بجلی، ذرائع آمدورفت،
ذرائع مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ذراعت اور طب کے میدان غرض ہر میدان
میں انسان نے سائنس کی بدولت ترقی کی ہے۔ مگر بہت سے فوائد ہونے کے باوجود
بھی میں تو اس ترقی پر خوش بلکہ مطمئن بھی نہیں ہوں اب میں اکثر جو باتیں
سوچتا اور اپنے آپ سے کرتا ہوں آج ہماری ویب کے ذریعے آپ سب تک پہنچا رہا
ہوں بلکہ آپ سے بھی کر رہا ہوں اور پریشان کر رہا ہوں آپ شاید بلکہ یقیناً
آپ میں سے زیدہ تر مجھ سے متفق نہ ہوں۔
سائنس نے ترقی کی طب میں۔ کیسے! کہتے ہیں کہ مختلف بیماریوں کی تشخیص اور
ان کا علاج ممکن ہوا جن کا پہلے نہ معلوم تھا اور نہ ان کا علاج کیا جا
سکتا تھا بلاشبہ یہ سچ ہے اور بہت سے کیسز میں یہ ٹھیک اور درست ہے مگر
میرے خیال میں اس کی وجہ سے انسان مطمئن یا خوش ہونے کی بجائے اور زیادہ
پریشان اور بیمار رہنے لگ گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو پہلے نہ کسی
بیماری کا علم ہوتا اور نہ وہ فکر مند ہوتا تھا ہاں کوئی صحت کے بارے مسئلہ
ہوتا تو دیسی طریقے سے علاج کرایا جاتا جس سے لوگ مطمئن بھی ہو جاتے تھے
اور جو آسا ن اور سستا ہوتا تھا۔ اب سائنس کی وجہ سے آئے روز نئی بیماری
سامنے آجاتی ہے جو لوگوں کو پریشان کر دیتی ہے ایک بیماری کا علاج دریافت
کرتے ہیں تو کوئی اور نئی بیماری سامنے آ جاتی ہے۔ سائنس کی ترقی کے حمایتی
کہتے ہیں کہ سائنس کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج ممکن ہوا ہے اور صحت
اور عمر میں اضافہ ہوا ہے لیکن میری تعلیم اور معلومات جہاں تک ہیں تو اس
کے مطابق تو پہلے زمانے میں لوگوں کی عمریں کافی طویل ہوتی تھیں اور صحت
بھی موجودہ زمانے سے کافی بہتر ہوتی تھی۔ انسان کو نہ بیماری کا علم ہوتا
تھا اور نہ وہ اس بارے سوچتا یا پریشان ہوتا تھا مگر بیماری کا معلوم ہونے
کی وجہ سے بیماری اتنا نقصان نہیں پہنچاتی جتنی اس بیماری کا خوف اور
پریشانی نقصان پہنچاتی ہے۔
ذراعت کا میدان لیا جائے تو کہا جاتی ہے کہ سائنس کی وجہ سے کم عرصے میں
زیادہ پیداوار ممکن ہوئی ہے ہاں یہ با لکل ٹھیک ہے کہ نہ صرف پیداوار میں
بہت اضافہ ہوا ہے بلکہ سبزیوں اور پھلوں کی جسامت میں بھی حیران کن اضافہ
ہوا ہے مگر آج سے تیس چالیس سال پہلے کی سبزیوں اور پھلوں اور موجودہ دور
کی سبزیوں اور پھلوں کی غذائیت اور فوائد میں زمین آسمان کا فرق ہے پہلے
فصلیں قدرتی کھادوں کی مدد سے پروان چڑھتی تھیں اور اسی طرح سبزیاں اور پھل
بھی قدرتی کھاد کو استعمال کر کے حاصل کئے جاتے تھے جن کی غذائیت اور فوائد
سے شاہد ہی کوئی ناواقف ہو آج کی فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کے بارے بھی یہی
سب کچھ کہا جاتا ہے مگر کیا یہ حقیقت بھی ہے موجودہ دور میں مصنوعی کھادوں
کے بے جا اور بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے کھانے کی اشیاء جیسے پھلوں،
سبزیوں اور فصلوں میں نہ غذائیت ہے اور نہ وہ فوائد ہیں جو پہلے زمانے میں
ہوتے تھے بلکہ آج کل کھادوں کی مدد سے پروان چڑھنے والی خوراک سے تقریبا ہر
انسان بلڈ پریشر، معدے کے مسائل، ہڈیوں اور جوڑوں کے مسائل اور سانس کی
مختلف بیماریوں کا شکار نظر آتا ہے۔
ذرائع آمدورفت کو لیا جائے تو بلاشبہ وقت بچانے میں بہت زیادہ کردار ادا
کیا ہے جس ہم میں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے مگر ان کے بہت زیادہ اور
بلا ضرورت استعمال نے انسان کی صحت پر برے اثرات مرتب کئے ہیں پہلے لوگ دور
دراز کا سفر چل کر طے کرتے تھے جس سے جسمانی ورزش ہو جاتی اور ان کی صحت
اچھی ریتی تھی اچھی خوراک ملتی ، جسم حرکت کرتا اور صحت اور توانائی حاصل
ہوتی تھی مگر اب وقت کی تو بچت ہو جاتی ہے مگر صحت اور تندرستی پر اچھا اثر
نہیں پڑتا ہے کیو نکہ ہم نے پیدل چلنا بالکل چھوڑ دیا ہے جس وجہ سے سانس
اور دل کی بیماریوں کے علاوہ پٹھوں اور ہڈیوں کی مختلف بیماریوں کا شکار ہو
گئے ہیں۔
سائنس نے جہاں بہت مثبت کردار ادا کیا جیسا کہ ذرائع آمدورفت۔ بجلی،
انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ کیونکہ ان کا استعمال ہی ان کو اچھا یا برا
بناتا ہے مگر ایٹمی ہتھیار اور جراثیمی ہتھیاروں کی وجہ سے انسان نے اپنے
لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے اور ذرا سا غصہ اور لاپرواہی چند سیکنڈوں میں
لاکھوں انسانوں کو موت کے نیند سلا سکتی ہے۔
مزید بہت سی باتیں اور سوچیں دل و دماغ میں تو ہیں مگر وقت کی کمی کی وجہ
سے پوری نہیں لکھ سکتا میں تو یہی کہوں گا کہ سائنس کی وجہ انسان نے ترقی
کم اور تنزلی زیادہ حاصل کی ہے ایک اور خاص وجہ دنیا سے اچھے اقدار، روایات
اور عادات جیسے محبت، رواداری، اخوت، ایثارو قربانی، بھائی چارہ، حوصلہ،
برداشت اور صبر تحمل بھی زمانے سے اسی سائنسی ترقی کی وجہ کم ہوتے جا رہے
ہیں اور ختم ہونے کی طرف رواں دواں ہے۔ ایک اور بات ذہن میں آگئی ہے وہ بے
روز گاری ہے جس کام کو بہت سے آدمی مل کر کرتے تھے اب ایک مشین اس کام کو
ایک انسان کی مدد سے کر دیتی ہے جو اس مشین کو چلاتا ہے یوں بہت سے لوگ
بےروز گار ہوتے جارہے ہیں۔ مزید پھر کبھی وقت نکال کر اس موضوع کے بارے
لکوں گا۔ اپنے خیالات اور جذبات سے ضرور آگاہ کیجیئے گا کہ آپ مجھ سے متفق
ہیں یا نہیں۔ شکریہ |