ڈائری نویسی کو بچانے کی ضرورت

کہتے ہیں کہ ڈائری زندگی کے واقعات کو الفاظی شکل میں محفوظ کرنے کا ایسا نظام ہے جیسا کہ تصویری البم ماضی کو اپنے اندر سما لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں لوگ اپنی یاداشتیں ڈائری میں محفوظ کرتے تھے جوکہ ایک اچھا اور مقبول عام مشغلہ تصور کیا جاتا تھا لیکن بد قسمتی سے دور جدید میں ٹیکنالوجی کے لامحدود استعمال نے لوگوں سے یہ مشغلہ چھین لیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس مشغلے سے دوری کی سب سے بڑی وجہ کمپیوٹر ، موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک گیجیٹ ہیں جنہوں نے ہمیں اتنا مصروف کرلیا ہے کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں بچتا کہ ہم خود ڈائری نویسی کے مشغلے سے لطف اندوز ہوں اور اپنے بچوں کو بھی اس سے آگاہ کریں کیوں کہ آج کے بچے اس حسین مشغلے سے متعلق جان کاری تک نہیں رکھتے ہیں۔ ایک اور وجہ مطالعہ کی کمی ہے کیوں کہ ڈائری لکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج ہم کتب بینی اور اخبار بینی وغیرہ سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں جس کے پس پشت ٹیکنالوجی کا لامحدود استعمال کار فرما ہے جنہوں نے ہماری سوچوں کو منتشر اور اوقات کو بے ترتیب بنادیا ہے۔پس جب تک ہمارے اندر مطالعے کی عادت پیدا نہ ہوگی، ذہنوں میں نت نئے خیالات جنم نہیں لیں گے تب تک ہم ایک اچھے ڈائری نویس کیسے بن پائیں گے۔ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کو دیکھیں تو آج کل ہمارے سارے کام اپنی مناسب جگہوں اور اوقات سے کھسک چکے ہیں ، یعنی دائیں بائیں ، آگے پیچھے ، مکمل نا مکمل اور صحیح غلط ہو کر رہ گئے ہیں جو کہ ذہنی انتشار اور وقت کی بے ترتیبی کی وجہ سے ہیں۔ کاموں کی صحیح اور بروقت انجام دہی نارمل ذہن سے منسلک ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ لوہار لوہے کو اس وقت ضرب لگاتا ہے جب لوہا خوب گرم ہوجائے اور دیکھا جائے تو اس کی ضربیں یکسوئی کے ساتھ لگائی جارہی ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنی کامیاب زندگی کے لئے یہی اُصول اپنانا پڑے گا اور ڈائری نویسی کے لئے بھی اس سے کوئی زرین اُصول ہو ہی نہیں سکتا ۔ اکثر اوقات یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ڈائری لکھنے کے لئے ہمیں نا تو مناسب جگہ ملتی ہے اور نا ہی وقت میسر آتا ہے۔ پس سب سے پہلے ایک پُر سکون جگہ کا انتخاب ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی بار بار آپ کے لکھنے کے عمل میں مخل ہوگا تو آپ کے خیالات منتشر ہو جائیں گے اور یکسوئی میں کمی اور تسلسل میں رکاؤٹ پیدا ہوگی جس کی وجہ سے آپ کی تحریر یا تو نا مکمل رہ جائے گی یا پھر بے ربط ہوگی۔ دوسری اہم بات وقت ہے ، روزانہ ڈائری لکھنے کے لئے ایک وقت مقرر کریں خواہ چند منٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا تھا کہ جب آپ کے پاس لکھنے کے لئے کوئی موضوع نہ ہو ، تو بِلا عنوان ہی کوئی چیز لکھ لیا کریں۔ طریقہ بہت سادہ سا بتایا کہ قلم اور ڈائری اُٹھاؤ اور لکھنے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ جیسے آپ کا قلم ڈائری کے صفحات کو چھوئے گا، تو بس دوڑنا شروع کر دے گا۔ پھر حروف سے سے الفاظ بنتے جائیں گے اور الفاظ سے سطور ، سطور سے پیراگراف اور بالآخر مضمون مکمل ہوجائے گا جو بتدریج بڑے ناولوں اور مضامین کی صورت میں یکجا ہو سکتے ہیں۔ یہ طریقہ آسان و سہل ہے لیکن لکھنے کے لئے وقت چاہیے جو آج کل کسی کے پاس نہیں ہے۔

جیسا کہ اوپری سطور میں لکھا جا چکا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی مصرفیات کی وجہ سے ڈائری لکھنے کا شوق معدوم ہوچکا ہے اور ہمارے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر جو کچھ موجود ہے وہ ہمیشہ محفوظ رہے گا، یعنی میموری کی وسعت ، یعنی گیگا بائٹس اور ٹیرا بائٹس پر ہمارا یقین پختہ ہو چکا ہے۔ یہاں یہ بات ضروری سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹ پر موجود واقعات ویسے یاد نہیں رہتے جیسے اوراق اور ڈائریوں میں مقید۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ الفاظ کا اصل گھر کتاب ہے ، کمپیوٹر کی سکرین پر تو اس کی معنویت تقریباً فنا ہوجاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے قبل ، اگر مطالعہ کے دوران کوئی قول ، شعر ، قصہ ، واقعہ یا نظم وغیرہ دل کے تاروں کو چھو لیتی تو ہم اُسے فوراً ڈائری کے اوراق میں قید کر لیتے تھے لیکن اَب حالات نے ٹیکنالوجی کی وجہ سے پلٹا کھایا ہے اگر سوشل میڈیا یا ویب سائٹ پر کوئی چیز بھلی بھی لگے تو ہم اُسے ڈائری میں لکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ حالاں کہ ہاتھوں سے لکھے ہوئے الفاظ جلد ذہنوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ نت نئے خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا معاملہ اس کے برعکس ہے ، واقعات وقتی طور پر ذہن میں رہتے ہیں اور پھر میموری کی لامتناہی وسعتوں میں گُم ہوجاتے ہیں۔ اگر اتفاقاً دوبارہ نظروں کے سامنے سے گزریں تو ذہن کو ویسے بھلے محسوس نہیں ہوتے جیسا کہ ڈائری کے واقعات ہمیشہ پڑھنے والوں کے ذہنوں کو نہ صرف تازگی بلکہ ان سے وابستہ احساسات کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

ڈائری لکھنے کی روایت کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں اس کو ایک تعلیمی ہنر کا درجہ دینا ہوگا۔ امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز والدین کو مشورہ دیتی ہے کہ اپنے بچوں میں ڈائری لکھنے کی عادت ڈالیں۔ اس سے اُن میں تحریری اور تخلیقی دونوں طرح کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے میں مدد ملتی ہے۔ پس ڈائری لکھنے کے عمل ، اس کی افادیت کو اُجاگر کرنے اور اس کو آگے بڑھانے کے لئے والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ہم لکھتے رہیں گے تو ڈائری کا سفر جاری رہے گا اور اگر ہم نے لکھنا چھوڑ دیا تو ڈائری کے سفر کو فُل سٹاپ لگ جائے گا۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 266043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.