اندھیری رات میں روشن چراغ والے ہیں، انھیں سلام ! یہ شاہین باغ والے ہیں

شاہین باغ پورے ملک میں مزاحمت کی ایک روشن علامت بن چکا ہے۔ کسی خبر کے ساتھ یا تصویر کے نیچے لکھا ہو کہ فلاں مقام کا ’شاہین باغ‘ قارئین یا ناظرین کویہ جاننے کی حاجت نہیں ہوتی کہ یہ لوگ کیوں جمع ہیں؟ یہ کیا چاہتے ہیں ؟اس احتجاج کا مقصد کیاہے؟ فی الحال نہ صرف اترپردیش کے الہ باد، لکھنؤ، علی گڑھ اور دیوبند ، بہار کے گیا، کشن گنج و سبزی باغ، مغربی بنگال کے روشن باغ بلکہ مہاراشٹر، تلنگانہ، کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش جیسی کئی ریاستوں میں میں ’شاہین باغ‘ کا نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وزیراعظم مودی طلاق ثلاثہ کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ اس کے ذریعہ مسلم خواتین کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کو اس وقت خواتینِ اسلام کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج نے انہیں اس کا احساس دلا دیا گیا ہوگا کہ مسلم خواتین کس قدر بیدار اور دلیر ہیں ۔ اس لیے وزیر اعظم کو چاہیے کہ اب ہندو خواتین پر توجہ فرمائیں لیکن وہ ایسا خطرہ مول نہیں لے سکتے اس لیے کہ جو شخص اپنی اہلیہ کو سنبھالنے میں ناکام ہوگیا وہ بھلاملک بھر کی خواتین کے غم و غصے پر کیسے قابو پاسکے گا؟

جے این یو میں جس وقت کنہیا کمار کو گھیرا گیا تھا تو ایک مسلم دانشور نے بڑے افسوس کے ساتھ سوال کیا تھا آخر مسلمانوں میں کوئی کنہیا کمار جیسا نوجوان کیوں آگے نہیں آتا؟ ان کو بتایا گیا کہ عمر خالد بھی تو کم معروف نہیں ہے تو وہ بولے چلو مان لیا لیکن ملت میں کوئی گوری لنکیش کیوں پیدا نہیں ہوتی؟ گوری لنکیش کی شجاعت و قربانی یقیناً قابلِ ستائش ہے لیکن شہریت قانون کے خلاف مزاحمت کرنے والی جامعہ کی باحجاب طالبات عائشہ رینہ اور لدیدا شکلون نے اپنی ہمت و دلیری سے یہ ثابت کردیا کہ ’وہ بھی کسی کم نہیں ہیں‘۔ گوری لنکیش اور عائشہ جیسی دوشیزاوں کا ظلم و جبر کی آندھی کے سامنے پہاڑ کی مانند جم جانا یقیناً بہت بڑی بات ہے لیکن اجتماعی حیثیت سے ہزاروں خواتین کا مسلسل مظاہرہ کرنامزاحمت کا ایک غیر معمولی مظہر ہے ۔ ہندوستان تو دور عالمی سطح پر بھی ایسی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ یہ ایک ماہ طویل استقامت کا ثمر ہے کہ جونہ صرف قومی بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

شاہین باغ کے مظاہرے میں شامل ریحانہ کی گود میں دو سال کے بچہ ہوتا ہے۔ اس کی منطق نہایت سہل ہے وہ اپنی شرکت کی وجہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ’’ میں بہار کی رہنے والی ہوں۔ وہاں ہمارے پاس گھر بنانے لائق زمین نہیں ہے۔ یہاں کرایہ کے کمرے میں رہتے ہیں۔ صبح اپنے گھر کا کام نمٹانے کے بعد دوسروں کے گھروں میں کام کرکے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ ایسے میں اگر مودی جی ہم سے ثبوت مانگیں گے توہم کون سا کاغذ دکھائیں گے؟ میں یہاں روزانہ رات کو آتی ہوں تاکہ وہ میرے بیٹے سمیت مجھے ملک بدر نہ کر دیں ‘‘۔ اس مظاہرے میں شاہین باغ کے علاوہ مختلف مقامات سے الگ الگ مذاہب کے ماننے والی خواتین اپنی یکجہتی کے اظہار کی خاطر شرکت کرتی ہیں لیکن ان میں وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے حلقۂ انتخاب گورکھپور سے آنے والی پراچی شرما کا معاملہ بہت ہی مختلف اور منفرد ہے۔ احتجاج کے چوتھے دن پراچی بطور صحافی رپورٹنگ کے لئے شاہین باغ پہنچیں اور ملازمت کو خیرباد کہہ کر وہیں کی ہو رہیں۔ پراچی پانڈے اس تحریک میں اسٹیج کی کنوینر ہیں اور رات بھر وہیں قیام کرتی ہیں۔پراچی کو جامعہ میں طلبہ کے ساتھ پولیس کی بربریت پر افسوس ہے اور وہ اس کی مذمت کرتی ہیں ۔ پراچی کے مطابق پولیس مظاہرین کو ہٹنے کی گزارش کررہی ہے لیکن خواتین نے سی اے اے کے واپس ہونے تک تحریک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پولس شاہین باغ کے مظاہرے کو ٹرافک کا بہانہ بناکر ہٹانا چاہتی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ کالندی کنج-سریتا وہا ر روڈ بند ہونے کی وجہ سے جہاں سینکڑوں مسافروں کو پریشانی ہورہی ہے ۔ لوگوں کو آشرم ہوکر ڈی این ڈی سے نوئیڈا آنے جانے میں لمبے ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سریتا وہار اورمدن پور کھادر کے لوگوں نے 12جنوری کو جنوب مشرقی ضلع کے پولیس ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک مارچ نکال کر روڈ ٹریفک بحال کرنے کا الٹی میٹم بھی دے رکھا ہے۔ مظاہرے کے سبب زحمت تو شاہین باغ کے باشندوں کو بھی ہے۔ ان کا معاشی خسارہ بھی ہورہا ہے لیکن کسی عظیم مقصد کے حصول کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کا مقدس جذبہ کے سامنے معمولی نقصانات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اس کی وجہ سے کچھ قابلِ قدر مکان ملکان نے دکانداروں کا اس مہینے کا کرایہ چھوڑ دیا۔ اس بابت رضوان کہتے ہیں ، ’’تحریک کی وجہ سے دکانیں نہیں کھل سکیں۔ ان کی آمدنی نہیں ہوئی تو میں ایک مہینے کا کرایہ نہ لے کر ان کا نقصان کچھ حد تک کم کر سکتا ہوں۔ تحریک بہت ضروری ہے۔‘‘ سونو وارثی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ یہ تحریک جب تک بھی جاری رہے گی میں اپنے کرایہ داروں سے ایک روپیہ بھی وصول نہیں کروں گا۔ جمہوریت کی حفاظت کے لئے چلنے والی تحریک میں میرا یہ تعاون انتہائی حقیر ہے‘‘۔ یہی ایثار و قربانی کا جذبہ تحریکات کی جان ہوتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مسلم قیادت کی دور اندیشی اور بالغ نظری سے این آر سی کے خلاف چلنے والی تحریک اب ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ احتجاج کی علامت بنا دیا ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کل ہند مسلم یوتھ فورم کے ٹی ایم ضیاء الحق نے کہا تھا کہ اس احتجاج نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ یہاں کی خواتین اپنےحقوق اور ملک کے آئین کی حفاظت میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ جابرانہ حکومت نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کے بھی خلاف اور ملک کے لئے تباہ کن ہے ۔ ہندو مسلم اتحاد کا یہ مظاہرہ بی جے پی کے لیے سمِ قاتل ہے کیونکہ اس کی ساری سیاست کا دارومدار مسلمانوں کے خلاف ہندووں کو بھڑکا کر ان کا جذباتی استحصال کرنے پر ہے ایسے میں اگر کوئی تحریک ان دونوں طبقات کو متحد کردے تو کمل کو مرجھانے میں دیر نہیں لگے گی۔ شاہین باغ کے احتجاج نے سنگھ پریوار کی اس کمزوری کو بھانپ کر اس پر بھرپور وار کیا ہے ۔ یہی اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرین پر سرفراز بزمی کا یہ خراج عقیدت صد فیصد صادق آتا ہے کہ ؎
اندھیری رات میں روشن چراغ والے ہیں
انھیں سلام ! یہ شاہین باغ والے ہیں
رعونتوں کی کلائی مروڑنے والے
صلیب جبر کو ٹھوکر سے توڑنے والے
یہ زعفرانی غباروں کو پھوڑنے والے
انھیں سلام ! یہ شاہین باغ والے ہیں

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449295 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.