اُف وہ اور یہ ٹڈی دَل۔۔؟

بیچارہ کسان تو پہلے ہی آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا، دھوپ نکلنے کے آثار ہیں یا بادل آتا ہے، دھند رہے گی یا ہوا چلنے کے امکانات ہیں؟ وہ موسم کے بارے میں اپنے اندازے لگا ہی رہا تھا کہ اس کے گاؤں کی مسجد سے ضروری اعلان سماعت فرمانے کی آواز بلند ہوئی۔ ضروری اعلان کرنے والا ٹڈی دَل کے حملہ سے بچاؤ کے طریقے بتارہا تھا،’’ کھیتوں میں ڈھول بجایا جائے، دھواں پیدا کرنے کے لئے آگ جلائی جائے، شور کیا جائے‘‘۔ گویا یہ تدابیر تھیں ٹڈی دل سے بچاؤ کی۔ کسان اپنے کھیتوں کی طرف بھاگا، ادھر سے لاکھوں ہیلی کاپٹر نما ٹڈیاں فضا میں نمودار ہوئیں، اُن کے چھوٹے چھوٹے پَر وں کی آواز گونج پیدا کر رہی تھی، وہ ماحول پر چھا رہی تھی۔ اِس چھوٹے سے پرندے کو لوگ دلچسپی سے دیکھتے، مگر یہاں معاملہ دل چسپی والا نہیں ، دل گرفتگی والا تھا، ابھی یہ آفت زمین کا رُخ کرے گی، اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری فصل کو چَٹ کر جائے گی، خوف نے دہشت کی شکل اختیار کر لی تھی، کچھ بھی نہ بچنے کے ڈر سے کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ کسان، اس کے بیوی بچے اور دیگر ساتھی کھیتوں میں پہنچ گئے، وہ ڈھول بجاتے، شور کرتے، کب دھواں سلگاتے؟ کہ ٹڈیوں کا پھیلاؤ بہت سے علاقے میں تھا، کسان ڈھول بجاتا گیا، ٹڈی دَل فصل کھاتا گیا۔ ستم ملاحظہ فرمائیں کہ چند روز قبل تک یہی دھواں جرم تھا کہ فوگ کا ذریعہ بن رہا ہے۔

معاملہ آگے بڑھا، خبر ٹی وی رپورٹر سے ہوتی ہوئی چینلز کی زینت بنی، کسان تو اپنی فصل کی تباہی دیکھ کر بے ہوش ہوگیا تھا، ٹی وی دیکھنے والے ناظرین بھی سکتے میں آگئے، بے بسی سے ٹی وی کو دیکھتے جاتے اور دعائیں کرتے جاتے۔ اُدھر ٹی وی دیکھ کر حکومتی عہدیداروں کو بھی بیانات وغیرہ دینے کا خیال آیا، زراعت کے وزیر نمودار ہوئے، بے نیازی سے فرمایا کہ ’’یہ صرف ہمارا ہی نہیں، پچاس ملکوں کا مسئلہ ہے، تیس برس بعد اپنے ہاں ٹڈی دل نے حملہ کیاہے، اس سے تدارک کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور سپرے کا استعمال کیا جارہا ہے، پلانٹ پروٹیکشن کسانوں کو احتیاطی تدابیر بارے آگاہی دے رہا ہے، جس سے تعاون کی کسانوں کو ہدایت کردی گئی ہے‘‘۔ کسان تو ٹڈی دل کو بھگانے کے لئے اپنے کھیتوں میں گیا ہوا تھا، شاید اسے وزیر صاحب کے فرمودات سننے کا وقت نہ ملا ہو۔ جِن کسانوں نے وزیر موصوف کی باتیں سن لی ہوں گی، وہ ضرور مطمئن ہو گئے ہوں گے، کہ چلیں اِس مصیبت میں ہم اکیلے نہیں، پچاس ملک اور بھی ہیں۔ اگر وزیر صاحب ان میں سے ایسے ممالک کے نام بھی بتا دیتے جو پاکستان کے مخالفین میں شمار ہو تے ہیں تو کسان کو شاید مزید تسلی ہو جاتی، اگر یہی ٹڈی دل بھارت اور امریکہ وغیرہ میں اپنا کام کر رہا ہے، تو کسان یقینا اپنا غم بھول ہی جاتا۔

حکومتی مشوروں پر کسان نے بھاگ دوڑ تو بہت کی، اس کے بچوں نے مل کر بہت شور مچایا، بچے اور ان کی ماں تو فصل کو اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتے دیکھ کر شور کرنے کی بجائے رونے لگے تھے، کسان بھاگ بھاگ کر دھواں بنانے کے لئے ایندھن اکٹھا کر رہا تھا، اوپر نیچے ہلا ہلا کر اُس کے بازو بھی شل ہو رہے تھے۔، شور بھی محدود تھا، دھواں بھی تھوڑی سی جگہ پر سے ہی اٹھ سکا، اُس کے اقدامات کرتے کرتے ٹڈی دل اپنا کام کر چکا تھا، اس کی فصل اُجڑ چکی تھی۔ اب دھواں اس کے دِل سے اٹھ رہا تھا، اب اسے شور تو سنائی دے رہا تھا، مگر ٹڈیاں اُڑانے کا نہیں، بچوں کے بھوک سے رونے کا، اس کی بیوی بھی اپنے بچوں کو بازوؤں میں سمیٹے اپنی تباہ ہوتی فصل کر دیکھ رہی تھی، وہ بے سُدھ تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ ٹڈی دَل نے اپنا کام کیا اور پھر لمبی اُڑان بھری، کسی اور اَن دیکھے علاقے کا سفر درپیش تھا، جہاں مسجد سے اعلان ہوگا، کسان اپنے بیوی بچوں سمیت اپنی جمع پونجی (فصل) بچانے بھاگ کھڑا ہوگا ۔۔۔ پھر وزیر صاحب کا نپا تُلا بیان آئے گا ، احتیاطی تدابیر کے ساتھ ’’جدید ٹیکنالوجی‘‘ کا جُھجنھنا کسان کو دینے کی کوشش کی جائے گی، یوں ٹڈی دَل، کسان اور حکومتی نمائندوں کا یہ سفر جاری رہے گا۔

میں کسان کی اِس تباہی ، بے بسی اور حکومتی عہدیداروں کی بے حسی سے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میرا دھیان تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی طرف چلا گیا۔ کوئی ہی ادارہ ہوگا جہاں دیانتداری سے کام ہو رہا ہے، ورنہ زیادہ تر اداروں میں افسران سے لے کر اہلکاران تک تمام لوگ ’’ٹڈی دَل‘‘ کا کردار ہی ادا کر رہے ہیں، جس دفتر میں دیکھیں، یہ ٹڈیاں کاغذوں کو کَتر رہی ہیں، عوام ہیں کہ ڈھول بجا رہے ہیں، شور کر رہے ہیں، رو پِیٹ رہے ہیں، چیخ رہے ہیں، ٹڈیاں ہیں کہ کسی طور قابو نہیں آتیں، ٹڈی دَل کو بھگانے والی تمام تراکیب ناکام ہو چکی ہیں، احتیاطی تدابیر بھی کار گر نہیں ہو رہیں، شور بھی بے اثر ہو چکا ہے، سپرے بھی ناکارہ ثابت ہو رہی ہے۔ ٹڈی دَل فصلوں پر ہو یا سرکاری و نیم سرکاری دفاتر یا پھر عوام کی ضروریات زندگی کے معاملات پر شاید اﷲ تعالیٰ کے عذاب کی صورت ہے۔ ٹڈی دَل کے نقار خانے میں یہ حکومتی احتیاطی تدابیر بھیانک مذاق سے کم نہیں، آئیے بے بسی کے عالم میں اﷲ تعالیٰ سے معافی کے طلبگار ہوں۔ یا اﷲ !یہ عذاب گناہوں کی سزا ہے تو معاف کردے، آزمائش ہے تو محفوظ رکھ ، ہمیں دونوں قسم کے ٹڈی دَل سے نجات عطا فرما! آمین!

 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427121 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.