اظہارِ کروفر ایک نفسیاتی عارضہ ہے

 مادیت پرستی اور زر پرستی کے اس دور اِبتلاء میں جن لعنتوں نے معاشرتی زندگی کو مصائب و آلام سے دوچار اور افراد کے امن و سکون کو غارت کر کے رکھ دیا ہے ،ان میں دکھاوا ،نمودو نمائش،تکلف،تصنع اور بناوٹ جیسا مرض اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ سر فہرست ہے،ہمارے روزمرہ معاملات ،رسوم و رواج اور عادات و اطوار میں صنعت گری اور ملمع سازی کی وبا اس قدر عام ہو چکی ہے کہ کھوٹے اور کھرے کی پہچان اور غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط سے الگ کرنا تقریباً ناممکن ہو کے رہ گیا ہے، یہ ایک ایسی زہر آلود روائیت ہے جو ہزاروں گھروں کو اجاڑنے اور ہزاروں زندگیوں کے چراغوں کو گل کرنے کا سبب بھی ہے-

موجودہ دور میں ہر سمت دکھاوے کے ہزارہا مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔بیوٹی پارلرز ہوں یا بوتیک ،فیشن کے مراکز ہوں یا ،جیولری کے نت نئے ڈیزائنز ،شاد ہال ،کلب ،،سیر گاہیں ،صحت افزا مقامات اور تعلیمی ادارے غرض کون سی ایسی جگہ ہے جہاں نمود و نمائش کے فراواں مواقع میسر نہیں- اسی طرح پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے ہوٹلز، ریسٹورنٹس، شاپنگ مالز اور مہنگے سنیما گھروں کی تعداد بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، جو اس بات کی غماز ہے کہ ہماری سوسائٹی Consumption Oriented Society بنتی جا رہی ہے یعنی کماؤ، کھاؤ، پیو، خرچ کرو، اور عیش کرو-

اب یہاں المیہ یہ ہے کہ متمول گھرانوں کے افراد اکثر نمود و نمائش کی خاطر بے دریغ ایسی پرتعیش اور نشاط انگیز رسومات پر پیسہ صرف کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن چونکہ یہ لوگ اپنے سے نچلے طبقہ یعنی متوسط طبقہ کے لئے ایک سٹیٹس سمبل کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے یہ متوسط طبقہ ان رسومات اور رواجوں کی پیروی میں اپنی چادر سے اپنے پاؤں باہر پھیلانے پر مجبور ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات تو یہ جائز ناجائز حربہ استعمال کرتے ہوئے ہر حد پار کرتا بھی نظر آتا ہے-

اس وقت ایسی رسومات و رواجات ہمارے معاشرے میں ایک سماجی دباؤ کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور کئی افراد جو اتنے اخراجات برداشت کرنے کی حالت میں بھی نہیں ہوتے، مگر معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے یا تو سود پر قرض کی دلدل میں دھنستا چلے جاتے ہیں، یا پھر دوسرے اسی طرح کے ناپسندیدہ اور مکروہ افعال میں مبتلا ہو کر اپنی ضروریات پورا کرنے کا بندوبست کرتے ہیں،جو بعد میں ان کے لئے وبالِ جان بن جاتے ہیں-

اس نمود و نمائش سے غریب، محروم اور تنگدست طبقے کی بھی دل شکنی ہوتی ہے جس سے مایوسی، حسد اور بغض جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات غریب طبقے کی مایوسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ دل شکستگی اور قنوطیت کی ہر دلیز پار کر جاتا ہے-

آج پاکستانی معاشرے میں ایک طرف ڈپریشن کا مسئلہ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف کرپشن اور ناجائز طریقوں سے مال و اسباب میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،بلاشبہ ان تمام بیماریوں کی بنیاد یہی نمود و نمائش اور شدید فضول خرچی ہے-

یہ نمود و نمائش اور بے جا اسراف مادی ترقی کی دوڑ میں بھی تباہ کن معاشرتی اثرات کا حامل ہے،روز مرہ ضروریاتِ زندگی پر اسراف سے اشیاء کی زائد طلب پیدا ہوتی ہے اور یہ زائد طلب (دیگر وجوہات کے علاوہ) افراط زر یا عرف عام میں مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔ اور دوسرا معاشیات کے ایک عام اصول کے مطابق بھی آمدنی کا کچھ حصہ خرچ کیا جاتا ہے اور کچھ حصہ بچایا جاتا ہے۔ پھر اس سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اگر بچت سرمایہ کاری کے بجائے بار بار خرچ کی جائے گی تو ملکی ذرائع سے سرمایہ کاری کا رجحان کم ہو جائے گا۔ اس طرح اگر ہمارے ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو ہمارا انحصار دیگر ممالک پر بھی بڑھتا چلا جائے گا-

بحرحال اس ساری صورتِ حال کے حقائق کو گہرائی کی سطح پر دیکھا جائے تو حقیقت میں یہ دکھاوا اور نمود و نمائش ایک نفسیاتی عارضہ لگتا ہے ، جسے ایک ذھنی بیماری سے تشبیہ دی جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا، اس کے پس پردہ محرکات میں ''لوگ کیا کہیں گے'' ... "ہم کیا اتنے گئے گزرے ہیں" ...اور قسم کے اور دوسرے مہمل جملے ہوتے ہیں۔ پھر اس میں ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور سنجیدہ مزاج لوگ اور حلقے بھی اس ذھنی بیماری کا شکار ہو کر گھریلو مسائل اور سماجی معاملات میں اس قدر پھنسں چکے ہیں،کہ چاھتے ہوئے بھی اس چنگل سے چھٹکارا نہیں پا سکتے-

ایک اور افسوسناک حقیقت اور وہ یہ کہ ہمارے موجودہ دور کے ذرائع ابلاغ اس معاملے میں شدید کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان خرافات کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔ خاص طور پر مختلف ٹی وی ڈراموں، فیشن شوز اور کمرشلز میں جس قسم کے کلچر اور نمود و نمائش کے مظاہر سامنے آتے ہیں اس سے معاشرے میں ان تعیّشات کو اختیار کرنے کی ترغیب ملتی ہے-

اگرچہ دورِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ذرائع ابلاغ کے اثرات سے کسی کو انکار ممکن نہیں اگر ذرائع ابلاغ معاشرے میں روایتی اقدار اور سادگی کو فروغ دینے کاکردار ادا کریں تو یہ ملک و قوم کی بڑی خدمت ہوگی ۔ چونکہ یہ انسانی آزادی اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اس لئے ریاست کے لئے اس پر براہ راست کوئی قدغن لگانا بھی مناسب نہیں لیکن بحرحال ان محرکات کو کسی نہ کسی سطح پر قابلِ توجہ گردانا جانا ضروری ہے جو اس مرض کی بنیاد بنتے ہیں-

اس مقصد کے لئے سماجی ،معاشرتی اور خصوصاً مذھبی حلقوں کو کردار ادا کرنا چاھئیے، اس حوالے سے خصوصاً سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، فلاحی ادارے اور سماجی تنظیمیں کو قابلِ ذکر کردار ادا کرنا ضروری ہے، تعلیمی اداروں خصوصاً گرلز سکولز' گرلز کالجز اور یونیورسٹیوں میں شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے بھی خصوصی مہم چلائی جائے۔ ٹی وی،ٹاک شوز اور اخبارات وغیرہ میں بھی اس حوالے سے اشتہاری مواد کے ساتھ ساتھ فیچر ' مضامین اور کالم شائع کروائے جائیں۔ دانشور طبقہ اس امر کا احساس دلانے میں اپنا کردار ادا کرے کہ لوگ اس طرح کے مشاغل اور نمود و نمائش سے احتراز برتیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، عوام الناس کو خود اپنے مفاد میں اس امر پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ نمود و نمائش کا بالآخر حاصل کیا ہے-

حکومتی سطح پر اس طرح کے سماجی مسائل کا حل ناممکنات میں سے ہے ، اور اس سے امید بھی رکھنی فضول ہے،کیونکہ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں پہلے ہی اپنے اولین داخلی و خارجی سطح کے معاملات میں اتنی الجھن اور خلفشار کا شکار ہوتی ہیں کہ اس طرح کے ثانوی معاملات پر توجہ اور دھیان ان کے بس کی بات ہی نہیں ہوتی،اور ویسے بھی سرکاری سطح پر یہ بیماری بذات خود ایک الگ ٹاپک ہے ،کیونکہ سرکاری سطح پر ہمارے دکھاوے کا یہ عالم ہے ہم دنیا سے قرض مانگنے کے لئے بھی خصوصی چارٹرڈ طیاروں میں جاتے ہیں-

بحرحال جو بھی ہو معاشرتی سطح پر ہمیں اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدابیر ڈھونڈنا ہوں گیں، تبھی اس معاشرتی بھونچال سے خلاصی ممکن ہے، کیونکہ ہم اپنی زندگی کو دکھاوے اور تکلّف ،ظاہرداری کی بھینٹ چڑھا کر مشکل بھی خود ہی پیدا کرتے ہیں اور اسی مشکل پر آہ و بقا بھی خود ہی کرتے ہیں-

اللہ کرے وہ دن جلد آئے، جب ہم خود اپنی ذات میں اللہ کے دیئے ہوئے خواص اور جواہر پر مطمئن ہوں ، اور صرف اسی کے بل بوتے پر خالصتاً اپنی محنت اور رب کی رضا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے پر صبر و شکر بجا لائیں-
Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 22 Articles with 17530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.