سرہ درگہ
(Prof Shoukat Ullah, Banu)
’’سرہ درگہ ‘‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کہ
معنی ہیں کہ ایسا خطہ جو پانی کی کم یابی کے باعث بنجر بن جائے اور جہاں
خود رو جڑی بوٹیاں ، جھاڑیاں اور پودے وغیرہ اُگ آئے ہوں۔ضلع بنوں کے جنوب
میں بیس ، پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر ’’ سرہ درگہ ‘‘ نامی علاقہ ہے جو اس
کے معنی کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک فاتحہ خوانی کے سلسلے
میں وہاں جانے کا اتفاق ہوا، یہ علاقہ اتنا دور نہیں ہے لیکن جن دوستوں سے
وہاں جانے کے لئیپوچھا اور رہنمائی حاصل کی تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ
علاقہ کافی دور ہے۔میرے خیال میں اپنی گاڑی پر صرف آدھ گھنٹے کا سفر لگ رہا
تھا لیکن دوستوں کا اصرار تھا کہ علاقہ کافی دور ہے اور اپنے ساتھ رہبر کا
انتظام کرلیں۔ کہتے ہیں کہ مشورہ فائدہ مند ہوتا ہے پس ہم نے اپنے ساتھ
رہبر کا انتظام کیااور اﷲ کا نام لے کر سرہ درگہ روانہ ہوئے۔ جیسے ہی شہر
کی حدود سے باہر نکلے ، ٹوٹی پھوٹی اور کچی پکی سڑک شروع ہوگئی اور گاڑی
ہچکولوں کے سہارے سے اپنا سفر طے کرنے لگی۔ درمیان رستے میں دریائے ٹوچی کو
دو جگہوں سے عبور کیا، ایک پُل تھا اور دوسرا پانی کے اندر رستہ تھا۔ گاڑی
جونہی پانی میں چلنے لگی تو جتنی دُعائیں یاد تھیں ، دل ہی دل میں پڑھنے
لگا۔ خدا خدا کرکے دریائے ٹوچی پار کیا ، اَب ہم سرہ درگہ کے علاقے میں
داخل ہوچکے تھے۔ یہ علاقہ بڑا وسیع و عریض طول و عرض پر محیط ہے۔ ہماری
منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے تقریباً پونے دو گھنٹے لگے۔ جہاں زیادہ تر
علاقہ بنجر تھا تو کہیں لوگوں نے شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل لگائے
ہیں اور خربوزے کی کاشت کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ حکومتوں کی بے توجہی کی
وجہ سے سرکاری ٹیوب ویل نایاب تھے اور جو موجود تھے وہ وخشک ہوچکے تھے کیوں
کہ بجلی کی مین لائنوں میں بجلی کبھی کبھار آنے اور بجلی کی آنکھ مچھولی کی
بدولت ٹیوب ویل خراب پڑے تھے اور یہی وجہ تھی کہ چالو نہ ہونے کی وجہ سے
خشک ہوچکے تھے۔ خربوزے کے کھیت مقدار میں زیادہ تھے لیکن اُن کی قیمت شہر
کی مارکیٹ میں مہنگی ہونے کا سبب معلوم ہوا ، یعنی ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اپنے
خرچے سے لگائے گئے شمسی ٹیوب ویل ہیں۔ اس کے علاوہ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں
طے کرنا پڑتا ہے، یعنی ٹرانسپورٹ کی قیمت میں اضافہ خربوزے کی قیمتوں میں
اضافے کا ذمہ دار ہیں۔ خیال رہے کہ بنوں کی خوب صورتی ، زرخیزی اور جنگلات
تاریخی کتابوں میں ملتی ہے جس کی وجہ پانی کی بہتات ہے کیوں کہ دریائے کرم
اور دریائے ٹوچی اسی علاقے میں بہتے ہیں۔ جنگلات کی کثرت کی وجہ سے اسے ’’بنوں‘‘
کہا جاتا ہے جو کہ لفظ ’’بَن ‘‘ کی جمع ہے جس کے معنی جنگل کے ہیں۔ جیسا کہ
علامہ محمد اقبال ؒ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ دونوں دریا افغانستان سے نکل کر بنوں سے ہوتے ہوئے ضلع لکی مروت میں
سرائے گمبیلا کے مقام پر ملتے ہیں۔ میرا یہ بتلانے کا مقصود یہ ہے کہ پانی
کی بہتات کی باوجود سرہ درگہ آج تک بنجر و بیاباں ہے۔ یہاں میں یہ بھی
بتاتا چلوں کہ اس علاقہ کے پاس دریائے ٹوچی بہتا ہے اور دریائے کرم پر
باران ڈیم سے آنے والی مروت کینال اسی علاقے سے گزر کر ضلع لکی مروت میں
داخل ہوتی ہے۔ باران ڈیم کا افتتاح 1960 ء میں صدر ایوب خان نے کیا تھا
لیکن بد قسمتی سے 1960 ء سے ساٹھ سال کے بعد اور مروت کینال کے باوجود سرہ
درگہ آج بھی بنجر و بیاباں ہے۔ قارئین کے مطالعہ میں اضافہ کے لئے یہ بھی
بتاتا چلوں کہ باران ڈیم سے تین بڑی نہریں نکلتی ہیں ، یعنی فلڈ چینل لائن
، نہر کچکوٹ اور مروت کینال ۔ جہاں تک نہر کچکوٹ کی تاریخ کی بات ہے تو یہ
نہر نامور فاتح معزالدین غوری نے آٹھ سو سال قبل دریائے کرم سے نکال کر
بنائی تھی اور یہ ضلع بنوں سے ہوتے ہوئے ضلع لکی مروت میں کوٹ کشمیر سے آگے
تک پہنچ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کسی حکمران نے
اس علاقہ کو توجہ نہیں دی اور سرہ درگہ کا لفظ ہمیشہ کے لئے اس کا مقدر
ٹھہر گیا ہے۔ سولہ جنوری کو وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے ڈیرہ اسماعیل خان
کا دورہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں مخالفین کی پرواہ نہیں ہے ، ہم جنوبی
اضلاع میں ترقیاتی کا موں کا جال بچھائیں گے ۔ انہوں نے جہاں پنیالہ کو
تحصیل کا درجہ ، گومل یونیورسٹی پہاڑ پور کیمپس اور زرعی یونیورسٹی پر جلد
کام مکمل کرنے وغیرہ کے منصوبوں کے اعلانات کئے تو وہاں غذائی قلت پر قابو
پانے اور خود کفالت کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے چشمہ رائٹ بینک کینال کے
لئے ایک سو بیس ارب روپے کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ کے ان بیانات سے واضح
ہوتا ہے کہ انہیں جنوبی اضلاع کی پسماندگی کا احساس ہے۔ اُمید ہے کہ
وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا جنوبی اضلاع کے مزید دورے کریں گے اور اپنے سیاسی
مخالفین کی پرواہ کئے بغیر ضلع بنوں آئیں گے اور غذائی قلت پر قابو پانے کے
لئے مروت کینال اور نہر کچکوٹ کے لئے خطیر رقم کی منظوری دیں گے تاکہ سرہ
درگہ اور دیگر ملحقہ علاقوں کی محرومیوں اور مشکلات کا ازالہ ممکن ہو۔
|
|