ایک زمانہ تھا کہ جب سندھ کے شہروں میں
موجود گلی کوچوں میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ کا گونجنا معمول کا عمل بن چکا تھا
سندھ میں موجودشہروں اوردیہاتوں اور سڑکوں پر بندوق برداروں کا راج
تھا،ہرطرف ڈکیتیوں قتل وغارت گری اور لوٹ مار کا بازارگرم تھا،اس زمانے میں
پولیس جو ان حالات میں شدید لعن وتعن کا شکار تھی اپنا حقیقی کرداراداکرنے
کے لیے میدان میں اتری اور رفتہ رفتہ تبدیلی آنا شروع ہوگئی اورآج یہ
صورتحال ہے کہ سندھ کے شہر اوردیہات ماضی کی نسبت نہایت امن اورسکون میں
ہیں کیونکہ اب ان مقامات پر بندوق سے نکلنے والے شعلے دم توڑ چکے ہیں جن
خون آشام گلی میں جہاں کبھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجا کرتی تھی اب وہاں گلی
محلوں میں معصوم چھوٹے بچوں کے کھیلنے کودنے کی آوازیں آنا شروع ہوچکی ہیں
کیونکہ اب ان گلی کوچوں سے خوف کے سائے ختم ہوچکے ہیں،آج سندھ پولیس دہشت
گردی کے خلاف منعظم انداز میں کارروائیاں کررہی ہے ان تمام گلی کوچوں میں
پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طورپر متحرک نظر آتے ہیں،
اس تمام تر عمل کو میں چند لائنوں میں نہیں گھیر سکتااس امن کے پیچھے جس
طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں موجود ہیں اسے کسی بھی
لحاظ سے کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتاہے مگر اس شہرقائد کے سکون کے لیے خود
ابدی نیند سونے والے پولیس کے جوانوں کی قربانیوں کو دل سے خراج تحسین پیش
کرنا ہی ایک پوری کتاب لکھ دینے کے مترادف ہوگا،
امن کے اس سفر میں صوبہ سندھ میں پولیس اہلکاروں کو متعدد بار نشانہ بنایا
جاچکاہے اس میں کراچی اور حیدرآباد میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں گزشتہ
کئی سالوں میں درجنوں پولیس اہلکار پولیس مقابلوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار
ہوئے ،آج کے دور میں جب اسلحہ چاروں طرف پھیلا ہواہے اور خاص طورپر جب ہم
دیکھتے ہیں کہ سماج دشمن عناصر کے پاس ہر قسم کا اسلحہ موجود ہے ،اس ساری
صورتحال میں قانون کا نفاز اور امن کا قیام ایک بہت ہی مشکل عمل بن جاتاہے
اسمبلیوں میں موجود لوگ توپالیسیاں بناکر حکم نامے جاری کردیتے ہیں مگر اس
کے بعد جس مشکلات سے گزرکر پولیس اوردیگر قانون نافذکرنے والے ادارے ان
سماج دشمن عناصر سے ٹکراکرعوام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ان کی جانوں و مال
کی حفاظت کرتے کرتے اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کرتے ہیں وہ سب کچھ ایک
ناقابل فراموش عمل ہوتاہے،ہمیں تحفظ فراہم کرتے کرتے خود جان کی بازی ہارنے
والے ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے ان کے لیے یونین کونسلز کی سطح پر
ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی اور تقریبات کا اہتمام کرنا چاہیے ، دوسری
جانب جب ایک عام آدمی اس ملک میں اپنا تحفظ صرف اس لیے چاہتاہے کہ وہ زندہ
رہ سکے اور اس کاسایہ اس کی بیوی بچوں اور والدین کے سر پر ہو ایسے میں اگر
کوئی عام شہری ایک پل کے لیے یہ سوچیں کہ یہ جو پولیس کے لوگ ہیں ان کے بھی
گھر بار اور بیوی بچے ہوتے ہیں، ان اہلکاروں کے بچے بھی اپنے والد کا ڈیوٹی
سے گھر آنے کا انتظار کرتے ہونگے ان کو بھی بھوک پیاس اور دھوپ کی گرمی
ستاتی ہوگی تو پھر یقینی طوپر پر ایک عام شہری پولیس اور تھانوں سے جو خوف
کھاتاہے وہ سب سے پہلے ختم کریگا اور سب سے بڑھ کر یہ سوچیں کہ ہم اس وقت
جس امن کی بات کرتے ہیں یہ امن ان پولیس افسران اور جوانوں کی ہمت سے ہی
ممکن ہوا ہے،جو اس عمل میں اپنی جانوں سے بھی گئے اور بری طرح سے زخمی بھی
ہوتے رہے مگر کسی بھی حال میں ان جوانوں کا جزبہ کم نہ ہوا،یہ بھی ٹھیک ہے
کہ کچھ لوگوں کے فرائض اور جزبات میں انسانی ہمدردی کی کمی ہوتی ہے جو
پولیس کے محکمے میں انسانوں کا تحفظ کرنے کی بجائے الٹا غلط کاموں میں ملوث
ہوجاتے ہیں لیکن ان چند لوگوں کی وجہ سے پورے محکمے کو ہی قصور وار
ٹھہرادینا کہاکا انصاف ہوگااور اس طرح نہ ہی ہر ایک پولیس کے افسر یا جوان
کوآپ برا کہہ سکتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امن کے اس سفر میں پولیس کے افسران اور جوانوں نے جس
انداز میں دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ملکر اپنے فرائض کو
سرانجام دیااسے کسی بھی لحاظ سے فراموش نہیں کیا جاسکتامگر پولیس کے کچھ
اچھے کرداروں کے اس جھمگٹے میں چند ایسے کردار بھی شامل رہے ہیں جو اپنی
وردی کی حقیقت اور اپنی ذمہ داریوں اورفرائض کو نظر انداز کرتے رہے اور ہر
دور میں نیک نام پولیس افسران کی بھی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں یہ وہ
لوگ ہوتے ہیں جواپنے پیٹی بھائیوں کی اچھی کارکردگی اورقابل تعریف کردار کو
گہنا دیتے ہیں ،جس زمانے کا میں اوپر کی لائنوں میں تزکرہ کررہاہوں اس
زمانے میں پولیس میں سیاسی مداخلت کا یہ عالم تھا کہ تھانوں میں ایم این
ایز،ایم پی ایز ،سینیٹر ،سیاسی عہدیداران اور سیاسی قائدین جس طرح کا چاہتے
تھے اپنی مرضی کا کام کروالیتے تھے ،مگر اس دور کی نسبت موجودہ وقتوں میں
اب اس قسم کی کوئی صورتحال باقی نہ رہی ہے ،لیکن پولیس میں موجود کالی
بھیڑیں کہیں نہ کہیں موجود ضرور ہوتی ہیں جو اپنا کام جاری رکھیں ہوئے ہیں
جو پولیس کے اچھے کرداروں کی نیک نامی کے راستے میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں، جس
کی وجہ سے بدقسمتی سے عوام نے پولیس کے بارے میں جو اپنی رائے رکھی ہوئی ہے
وہ تاحال ابھی تک بدستور قائم ہے ،جبکہ ایک بات یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کا
پولیس پر اعتماد اس وقت بڑھتاہے جب پولیس عوام کی سنوائی کرتی ہے اور انہیں
تحفظ دیتی ہے یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ کوئی شخص اپنا کام تھانے سے اس وقت
تک نہیں کرواسکتا جب تک اس کے پاس کوئی بڑی سفارش نہیں ہوتی، یہ ہی وجہ ہے
کہ بہت سے لوگ اپنی شکایات تھانوں میں لے جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں جب کہ
ایسے لوگ یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ سب ہی پولیس کے لوگ ایک جیسے
نہیں ہوتے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے زریعے ایک تصویر مجھ تک پہنچی جس میں
ایک ایس ایچ او کی کرسی پر غریب شہری بیٹھا ہوا تھا اور اس کی درخواست
لکھنے اہلکار خود عام شہری کی نشست پر بیٹھا ہواتھا یہ ایک ایسا منظر تھا
جو تمام ایسے لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو تھانوں اور پولیس کے لوگوں سے
ڈرتے ہیں،اس کے علاوہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھی صوبے اور وفاق کے
درمیان آئی جی سندھ کی تعیناتی متنازعہ ہوجاتی ہے کبھی وفاقی حکومت آئی جی
سندھ کو سپورٹ کرتی ہے تو کبھی سندھ حکومت آئی جی سندھ کو سپورٹ نہیں کرتی
جس کی وجہ سے اکثرعدالت عالیہ کواس معاملے میں مداخلت کرنا پڑجاتی ہے اس
طرح پولیس کی اعلیٰ سطح پر تقرریاں اور تبادلوں کے اثرات پولیس کی نچلی سطح
تک اثر انداز ہوتے ہیں جس سے عوام میں بھی ایک غلط تاثر جاتاہے ،میں سمجھتا
ہوں کہ پولیس کے محکمے میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت کی بجائے میرٹ اور
پروفیشنلزم کی بنیاد پر تقرروتبادلے ہونے چاہیے ،صوبے میں پولیس کی اعلیٰ
تعیناتی کے لیے معاملات کو قانون اورافہام وتفہیم سے ہی متعلقہ عہدیداروں
کو حل کرنا چاہیے اس قسم کے معاملات کو عدالت میں لیجانے سے یہ ثابت ہوتاہے
کہ ہمارے ارباب اختیار اوراقتدار اپنے معاملات خودطے نہیں کرسکتے اور اس
طرح یہ مسئلے عدالتوں میں چلے جاتے ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ اچھی بات نہیں
ہے ۔ختم شد
|