|
ایک مشہور کہاوت ہے کہ صبح کا ناشتہ بادشاہوں کی طرح کرنا چاہیے- اس لیے
برصغیر پاک و ہند کے رہنے والوں نے اس کا یہ مطلب لیا کہ چونکہ بادشاہوں کو
باورچی میسر ہوتے تھے جو ان کو صبح کے ناشتے میں طرح طرح کے پراٹھے بنا کر
کھلاتے تھے اس لیے صبح کے ناشتے میں پراٹھا کھانا بہت ضروری ہوتا ہے- اس
لیے تقریباً ہر گھر میں صبح کے ناشتے میں پراٹھوں کی خوشبو آنا لازمی امر
ہے- مگر آج کل کے دور میں جب کہ ہمارے معدے انتہائی نازک ہو چکے ہیں-
پراٹھا کھانا اور اس کو ہضم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لیے صبح
بادشاہوں کی طرح ناشتہ کرنے والوں کو کچھ ایسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ
سکتا ہے جس کا اظہار وہ فطری شرم کے سبب ہر ایک سے نہیں کر سکتے ہیں-
معدہ گربڑ کر سکتا ہے
پراٹھا چونکہ ایک بھاری غذا ہے جس کے سبب اس کو کھانے کے بعد معدے کی جانب
سے سرزنش ایک فطری عمل ہے- مگر دفتر جانے کی جلدی میں اگر معدے کی اس کال
کو نظر انداز کر بھی دیں تو دفتر جاتے ہی کام کے بجائے باتھ روم کی حاضری
لگانا ضروری ہو جاتا ہے-
|
|
پیٹ بھرے ہونے کے سبب نیند کا آنا
پراٹھا کھا کر ہمارے خیال میں بادشاہ تو سو جایا کرتے تھے مگر جن لوگوں کو
پراٹھا کھا کر کام پر جانا پڑتا ہے یا اسکول کالج جانا پڑتا ہے ان کے لیے
پراٹھا نیند کی گولی کا کام کرتا ہے- اور بھرا ہوا پیٹ بار بار قیلولے کا
مطالبہ کرتا ہے- مگر پیٹ کے اس مطالبے کو پورے کرنے کی کوئي صورت نظر نہیں
آتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روتے دھوتے پراٹھے کے ہضم ہونے کا انتظار کیا جاتا
ہے تاکہ چاک و چوبند ہو کر بندہ کام کرسکے-
پیاس کا لگنا
چونکہ پراٹھے کے اندر چکنائی کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے اس لیے وہ معدہ اس
پراٹھے کو ہضم کرنے کے لیے بار بار پانی کا مطالبہ کرتا ہے- اور اگر اس کے
مطالبے کی تکمیل کی جائے تو پھر بار بار غسل خانے کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں-
تاکہ اس پانی کو باہر کا راستہ دکھایا جا سکے اس طرح بندہ پراٹھا کھانے سے
توبہ کرنے لگتا ہے-
|
|
وزن کا بڑھنا
پراٹھے کھانے والوں کا وزن بھی ان کے پیٹ کی طرح ان کے کنٹرول میں
نہیں رہتا ہے اور بڑھتا ہی جاتا ہے- کچھ ہی دنوں میں وہ پراٹھے کی طرح گول
مٹول ہو جاتے ہیں اور ان کے چہرے پر سے بھی چکنائی اسی طرح چمکتی ہوئی نظر
آنے لگتی ہے جس طرح پراٹھے کا چہرہ چمک رہا ہوتا ہے-
|