میرے ستیاناس تم ہو

کوئی بھی انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اگر زندگی کے راستے میں ایک فریق دوسرے فریق کو ٹھکرا کر چلا جائے پھر ٹھوکر کھا کر پلٹے اپنے کئے پر نادم و شرمسار ہو تجدید وفا کا طلبگار ہو تو اسے محبت نہیں کہتے ۔ یہ صرف اپنے آگے مزید کوئی آپشن موجود نہ ہونے کی مجبوری ہوتی ہے یہ پچھتاوا بھی نہیں ہوتا بہت سادہ اور صاف لفظوں میں اسے خود اپنا تھوکا ہؤا چاٹنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔

بہت سے شادی شدہ مرد جو کہنے کو بیوی پر سوتن بھی نہیں لاتے اور ساری زندگی اسے دو کوڑی کا بنا کر رکھتے ہیں مگر بڑھاپے میں سجدے میں گر کر اس کی لمبی عمر کی دعا مانگتے ہیں ۔ قبر میں پاؤں لٹک جانے کے بعد انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہ عورت نہ ہو کیا ہو ۔ اس سے محبت ہونے لگتی ہے جو سوائے خود غرضی اور مطلب پرستی کےاور کچھ نہیں ہوتی ۔ محبت اور عزت وہی ہوتی ہے جو مرد اپنی طاقت اور اختیار کے دور میں عورت کو دیتا ہے باقی تو صرف منافقت ہوتی ہے ۔ اسی طرح کوئی عورت اگر اپنے ایماندار ، پرخلوص اور حق حلال کی روزی کمانے والے اور اسے خوشیاں دینے کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے والے شوہر کی قدر نہ کرے اور اپنی مادی خواہشات کی تکمیل کے لئے اس کی محبت کو ٹھکرا کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ چلی جائے اور مال و دولت کی دمک میں اتنی اندھی ہو جائے کہ بنا نکاح کے دین کی دھجیاں اڑائے پھر اس مرد کی منکوحہ آ کر اس کے منہ پر ایک کرارا چماٹ رسید کرے اور لات مار کر اپنے گھر سے نکال باہر کرے تب اس عورت کو اپنے سابقہ شوہر کی یاد ستائے اس کی قدر معلوم ہو اور وہ پھر اس سے ملنے کو بیقرار ہو تو اسے ندامت نہیں بےغیرتی کہتے ہیں جس کا آغاز مبالغے کی حد تک سیدھے اور سادہ لوح شوہر کی ڈھیل سے ہؤا تھا ۔

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی تاریخ کے مقبول ترین اور ساتھ ہی متنازعہ ڈرامے " میرے پاس تم ہو " کی یہی کہانی تھی جس کا ایک مرکزی کردار دانش ہمارے معاشرے میں شاید ہی پایا جاتا ہو جو بیوی کی بےراہ روی کو اتنی فراخدلی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرے کہ اس کے مانگنے سے پہلے اسے طلاق تک نہ دے اور بدکاری تک کے ارتکاب میں اس کے ساتھ تعاون کرے ۔ مگر ڈرامے کے مصنف کا کہنا ہے کہ یہ ایک سچی کہانی ہے جس کا وہ خود گواہ ہے ۔ مگر ڈرامے کا انجام اپنی مرضی سے تشکیل دیا گیا ۔ سنا ہے کہ اصل آخری قسط قبل از وقت لیک ہو گئی تھی جس کے باعث ریکارڈنگ دوبارہ کی گئی اور واقعات کو تبدیل کر دیا گیا اور اس چکر میں ڈرامے کے سارے بھرم اور بھاؤ کا ستیاناس مار دیا گیا اور اس کی آخری قسط کو مقررہ دن کی بجائے ایک ہفتے کی تاخیر سے نشر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستانی سینماؤں کے ساتھ ساتھ یہاں امریکہ کے شہر ڈیلس کے ساتھ واقع پلانو سٹی کے دی گرینڈ سینٹر میں بھی ریلیز کرنے کا اہتمام کیا گیا ۔

ہمارے بیٹے ناصر کو بہت اشتیاق تھا کیونکہ ڈرامہ شروع کرنے سے پہلے ہمایوں سعید کو سکائپ پر جوائن کرنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا ۔ اس لئے وہ شو کے مقرر وقت دن کے ساڑھے گیارہ بجے سے کافی پہلے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ سینما چلا گیا تاکہ مرضی کی سیٹیں ملیں ۔ مگر ساڑھے بارہ بجے اس کی کال آئی کہ شو ابھی تک شروع نہیں ہؤا ہے کیونکہ ہمایوں سعید سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے ۔ خیر واپس آ کر بتایا کہ انتظار کر کر کے اور آڈینس کے احتجاج کے بعد ڈرامہ دن کے ایک بجے سٹارٹ کر دیا گیا تھا اور آدھے گھنٹے بعد جب منتظمین کا ہمایوں سعید سے رابطہ ہو گیا تو ڈرامے کو روک کر سینما اسکرین پر وڈیو کال چلائی گئی اور خوب جوش و خروش کا سماں بندھا ۔ پورا سینما ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہؤا تھا شاید ہی کوئی سیٹ خالی بچی ہو ۔ مزے کی بات یہ تھی کہ بہت بڑی تعداد خواتین پر مشتمل تھی جن میں کچھ کے ساتھ چھوٹے بچے اور کچھ ہمارے والے جیسے ذرا بڑے بچے ، باقی مرد حضرات تو برائے نام ہی تھے ۔ ری کیپ میں جب دو ٹکے کی لڑکی والا سین آیا تو انہیں بہت چین آیا جس کا انہوں نے کھل کر اظہار کیا اور سیٹیاں اور تالیاں بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ مگر ڈرامے کے اختتام پر بلا امتیاز سبھی کے منہ لٹکے ہوئے تھے دانش کی موت پر ساری خلقت سوگوار تھی ۔ مصنف نے اسے مروا کر بہت سی متوقع پنچائتوں اور پیچیدگیوں سے اپنی جان چھڑا لی پہلے ہی اس کی گردن کم پھنسی ہے کیا؟

بہر حال قوم جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ بھولنے کی بھی بیماری میں مبتلا ہے بہت جلد اس صدمے سے بھی باہر نکل آئے گی کئی ایک کی تو حس لطافت اپنے عروج پر ہے ۔ لیکن ہم سب کو اس بات پر یقین ہونا چاہیئے کہ گناہ کے اتکاب میں کسی کی معاونت کرنا اور اسے سازگار ماحول مہیا کرنا بھی خود گناہ میں شریک ہونے کے مترادف ہے ۔ دانش ایک اچھا انسان ضرور تھا مگر بیوی کی بےراہ روی میں برابر کا ذمہ دار تھا اب بندہ ایسا بھی کاٹھ کا اُلو نہ ہو کہ اسے کسی غیر مرد کے ساتھ ملوث ہوتا دیکھ کر بھی اس کی غیرت نہ جاگے جس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کے منہ پر تیزاب پھینک دیا جائے یا اس کے ناک کان کاٹ دیئے جائیں ۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کا بھی والی وارث موجود نہیں ہے اصلاح کرنے کے لئے تو اسے دو لگا کر روکنے کی کوشش کرو پھر بھی نہ مانے تو تین بول کر کے اسے چلتا کرو ۔ اور اپنے سے کسی بہتر کو اسے آزمانے دو نتیجہ جو بھی ہو وہ آپ کا درد سر نہیں ہے مگر یہاں تو دل ہی بند ہو جاتا ہے ۔ مہوش اور دانش دونوں اپنے دشمن خود تھے اور دونوں نے پاس پاس رہ کر ایکدوسرے کا ناس مارا (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.