ڈرامہ " میرے پاس تم ہو" کا تجزیہ پیش کرنے سے پہلے اُسکی
آخری قسط میں ہیرو دانش کی موت نے زیادہ تر ناظرین کو اتنا مایوس کیا کہ
ڈرامہ اپنی سنجیدگی سے ہٹ کر مزاحیہ رُخ اختیار کر گیا اور مصنف خلیل
الرحمن اور ڈرامے کی پوری ٹیم کا سوشل میڈیا پر اتنا مذاق اُڑایا گیا کہ یہ
بھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا ہو گا۔ بلکہ دانش کی محبت کی انتہا سے
موت کی وادی تک کے سفر نے ہندوستان کی نامورمصنفہ امر پریتم کے اِن الفاظ
کو حقیقت کا رنگ دے دیا کہ:
عشق ایک وہ بیماری ہے جس سے انسان تندرست بھی ہو سکتا ہے لیکن" یاد" وہ نیم
حکیم ہے
جسکی ہر "پُڑیا " آپکے مستقبل کی جان خطرے میں ڈالتی جاتی ہے"
دانش مر گیا لیکن اپنے دانشمندانہ مکالمے چھوڑ گیا جن میں سے پہلا وہ تھا
جہاں سے ڈرامہ عام حیثیت سے نکل کر اہم ہو گیا۔
دو ٹکے کی لڑکی کیلئے آپ مجھے 50ملین دے رہے تھے۔
رُخصتی کے وقت کوئی کام کرتا ہے ۔
دل چاہتا ہے اُسکو معاف کردوں ،پھر خدا یاد آجاتا ہے،شرک تو خدا بھی معاف
نہیں کرتا۔
دانش کی دانشمندی کا پہلا مکالمہ اور محبت کے بارے میں عورت کو سامنے رکھتے
ہوئے چند مزید مکالموں پر اختلافات بھی ہوئے اور خواتین نے احتجاج بھی کیا
بلکہ کورٹ تک بھی بازگشت سنی گئی تاکہ ڈرامے کو روکا جا سکے۔ ایک مصنفہ
دُعا ہاشمی کا خصوصی مضمون اخبارات اور ویب سائٹ پر شائع ہوا جسکا ایک پیرا
کچھ اسطرح ہے کہ:
میں اس بات پر حیران ہوں کہ لوگ کس طرح ایک انتہائی اعلی معیار کے شاہکار
ڈرامہ”الف” کو پذیرائی دینے کی بجائے ایک وہی عام گھسی پٹی کہانی، سستے
ڈائیلاگ والے ڈرامے” میرے پاس تم ہو” پزیرائی دے رہے ہیں۔جو قوم “دو ٹکے
والے” سستے ڈائیلاگ پر مر مٹتی ہو ایسی قوم سے اعلی معیار کی چیز کا انتخاب
نہ کرنے کا شکوہ بجا نہ ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں میں اس ساس بہو ، طلاق،
بے وفائی، گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی جیسے موضوعات سے نکلنے کے لیے اگلے
دس بارہ سال انتظار کی ضرورت ہوگی، اس سب کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی عوام کو
کوئی بھی کسی بھی گھٹیا سی بات کے پیچھے لگا سکتا ہے،لوگوں کے جذبات سے خوب
کھیلا جارہا ہے “میرے پاس تم ہو ”۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کہانی ہمارے
معاشرے میں رونما ہونے والی حقیقی کہانیوں سے مماثلت نہیں رکھتی تو یہ بیجا
بات ہوگی۔
بہرحال اعلیٰ ترین ریٹنگ کے بعد اختتام پر اپنی اہمیت کھو جانے کے باوجود
ڈرامہ ©" میرے پاس تم ہو" کی کہانی کے مصنف خلیل الرحمٰن قمر اور ڈائریکٹر
ندیم بیگ نے اس ڈرامے کے مکالموں و ڈائر یکشن پر جو محنت کی اُسکی تعریفیں
ناقابل ِبیان رہی۔
لہذا س سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ڈرامے کی کہانی ماضی کی چند فلموں
اور کہانیوں سے مُشابہ تھی ۔فرق تھا تو مکالموں کا اور ان کے مطابق سین بند
کرنے کا۔ مکالموں کی ادائیگی کا انداز دلکش تھا اس کی سب سے اہم وجہ اس دور
کی سب سے اہم کاسٹ کے دو اہم کردارہمایوں سعید اور عدنان صدیقی اور تیسرا
ایک تجربہ کار اداکارہ گو کہ کردار چھوٹا تھا پر مضبوط سویرا ندیم کا۔
جنہوں نے مل کر اپنے ساتھی اداکار وںکو اپنی اداکاری میں سمو لیا ۔یہاں یہ
کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ڈرامہ دو ٹکے کے مکالمے سے اُٹھا تھا تو وہاں
سویرا ندیم کا بحیثیت عدنان صدیقی کی بیوی کے ڈرامے میں قد م رکھتے ہوئے
ہیرﺅین کو ایک تھپڑ رسید کرنا ڈرامے کو کلائمکس پر لے آیا تھا۔
اس ڈرامے کے وہ اعلی ترین سین جہاں سے ڈرامہ مزید دلچسپی کے ساتھ آگے بڑھتا
رہا ایک مدت تک ناقابل فراموش رہیں گے اور یہی ڈرامے کی پہچان ہوتی ۔
باقی رہی بات محبت کی تو اس کے لئے انڈیا کی فلم جب وی میٹ میں ایک مکالمہ
ہے
وہ تمہاری ماں تھی
وہ محبت میں تھی
لیکن چند مدت بعد محبت کا بھوت اُتر جاتا ہے اور بچوں کی یا ستانے لگتی ۔
ایک بات اہم ہے کہ اس ڈرامے نے ماضی کے کچھ اہم ڈرامے جن میں پی ٹی وی کے
کرن کہانی، وارث اَن کہی ، دھوپ کنارے اور انڈیا کے ساس بھی کبھی بہو تھی
اور کہانی گھر گھر کی کی یاد تازہ کردی اور" میرے پاس تم ہو" کے اہم کردار
دانش کے دانشمندانہ مکالمے اور آخری قسط میں اُس کی موت نے پی ٹی وی کے
ڈرامے کے کردار شہ زوری ،انکل عُرفی ،چوہدری حشمت اور کوڈو جیسے کرداروں کے
نقش ناظرین کے ذہنوں میں ایک دفعہ پھر اُبھار دیئے۔ |