یہ کہانی ہم بچپن میں اپنی والدہ
سے سُنا کرتے تھے (اللہ کریم انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین)
کہ ایک کسی گاؤں میں چار بھائی اپنے ماں باپ کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار
رہے تھے چاروں شادی شدہ اور بال بچے دار تھے۔سب سے چھوٹا بہت سیدھا سادہ سا
تھا اس لیے تینوں بڑے بھائی اس سے کھیتی باڑی سے لے کر مویشیوں کو چارہ
ڈالنا نہلانا دھلانا بھینسوں کا دودھ نکالنا غرض کہ دن رات اس کو کام لگائے
رکھتے اور خود مزے سے پگڑی کو ما وا لگا کر چوہد ری بن کر گاﺅں میں گھومتے
رہتے ۔ سیدھا سادہ چھوٹا بھائی جس کا نام رفیق تھا مگر اس کو بڑے بھائی نام
بگاڑ کر ”پھیکو“ کہہ کر بلاتے اور ہر وقت ڈانٹتے ڈپٹتے رہتے جسے دیکھ کر ان
کے ماں باپ دکھی ہوتے اور گاﺅں کے لوگ بھی اُسے کام کرتے ہوئے پسینے سے
شرابور دیکھ کر ترس کھاتے اور کہتے پھیکو بھائی تم اتنا کام کرتے ہو جب کہ
تمہارے بھائی ہر وقت چوہدری بن کر گھومتے رہتے ہیں ۔ آخر تم بھی ان کے
بھائی ہو کام میں اُن کو بھی تمہارا ہاتھ بٹانا چاہیے، تم ان سے بات کیوں
نہیں کرتے ؟ اس کا جواب دینے کی بجائے پھیکو بس مسکرا کر شہادت کی انگلی
اوپر کی طرف کر کے کہتا ”او جانے“ اور پھر اپنے کام میں لگ جاتا ۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد تو پھیکو پر جیسے ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جائیداد کے
بٹوارے پر بڑے بھائیوں نے ساری زمین اور حویلی پر قبضہ کر کے پھیکو بیچارے
کو ایک جوڑی مریل سے بیلوں کی دیتے ہوئے کہا۔ جاﺅ اپنے حصے کے یہ بیل لو
اور یہاں سے کہیں اور ٹھکانہ کرو حویلی میں اور زمینوں میں تمہارا کوئی حصہ
نہیں۔ گاﺅں والوں نے بہتیرا کہا کہ آخر یہ بھی تمہارا بھائی ہے اس کو بھی
زمین کا کوئی ٹکڑا دے دو جہاں یہ اپنے بال بچوں کو لے کر رہ سکے، بہت حیلے
بہانے کر کے گاﺅں کی پنچائت کے زور دینے پر ایک بنجر زمین کا ٹکڑا پھیکو کو
دے دیا گیا جہاں پھیکو نے گھاس پھونس اور لکڑیوں کی مدد سے ایک جھونپڑا
کھڑا کر لیا اور بھائیوں کے کھیتوں میں کام کر کے بچوں کے لیے کھانے پینے
کا انتظام کرنے لگا۔
دن گزرتے گئے اور بچے جوان ہو تے گئے ، ایک دن پھیکو کی بیوی جو سمجھدار
تھی مگر مجبور تھی کہ ایک طرف پھیکو تھا دوسری طرف اسکے تین بھائی اور سب
سے بڑی بات کہ پھیکو اپنے بھائیوں کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا بس شہادت کی
انگلی کھڑی کر کے اتنا کہہ کر مسکرا دیتا۔ ”او جانے“ مطلب اوپر والا
جانے۔بیوی بھی صابرہ تھی، روکھی سوکھی میں اللہ کا شکر ادا کرنے والی، مگر
کہاں تک !! آخر ایک دن پریشان سی ہو کر میاں سے کہنے لگی۔
بھلے آدمی ہماری تو جیسے تیسے گزر گئی مگر اب بچے جوان ہو گئے ان کے شادی
بیاہ کرنے ہیں اور اس طرح یہاں محنت مزدوری کر کے جو تم لاتے ہو وہ تو مشکل
سے دال روٹی چلتی ہے ۔ بچوں کے لیے کچھ نہیں بچتا کچھ ان کے لیے بھی سوچو۔۔
پھیکو بیچارہ کیا سوچتا اُس نے الٹا بیوی سے کہا ، تم ہی کچھ بتاﺅ میری تو
سمجھ ہی اتنی نہیں!! مُجھ سے کام جتنا مرضی کروا لو مگر عقل اتنی ہے ہی
نہیں کہ کام کے آگے کچھ سوچوں۔ بیوی نے مشورہ دینے والے انداز میں کہا،
دیکھو بھلے آدمی اس گاﺅں میں رہ کر تو تمہارے بھائی تمہیں آگے بڑھنے نہیں
دیں گے، کیوں نہ ہم لوگ کسی دوسرے گاﺅں یا شہر جا کر محنت مزدوری کریں جس
سے کچھ بچوں کے لیے بھی بچت ہو۔ پھیکو نے مسکرا کر کہا، چلو اگر تم سب کی
یہی مرضی ہے تو میری بھی مرضی تمہارے ساتھ ہے۔
دوسرے روز اپنا مختصر سا سامان بیل گاڑی پر لاد کر منہ اندھیرے چل پڑے کہ
دن ہونے سے تو بھائی جانے نہیں دیں گے۔چلتے چلتے جنگل میں دوپہر ہو گئی تو
ایک گھنے درخت کے نیچے ڈیرہ ڈال دیا کہ بیل بھی تھک گئے ہیں اور بھوک بھی
زوروں کی لگی ہے گھر سے تو خالی پیٹ نکلے تھے یہیں کچھ پکا کھا لیتے ہیں،
بیوی نے پھیکو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، بھلے آدمی کچھ سوکھی لکڑیا ں اکٹھی
کر لاﺅ میں اتنے میں چولہا بنا لیتی ہوں ، پھیکو لکڑیاں لینے جنگل میں چلا
گیا ، بیٹے سے کہا ، جاﺅ بیٹے سامنے ندی سے پانی بھر لاﺅ ، بیٹا فوراً برتن
لے کر پانی لینے چلا گیا، بیٹی سے کہا بیٹی آگ جلا کر چولہے پر ہانڈی چڑھا
دو، بیٹی نے ویسا ہی کیا،اُس درخت پر ایک ہنس راج پرندہ بیٹھا ہوا یہ سب
تماشہ دیکھ رہا تھا، اور سوچ بھی رہا تھا کہ ان کے پاس پکانے لیے تو کچھ
نظر نہیں آتا مگر انتظام پورا کر رہے ہیں آخر اس سے رہا نہ گیا تو ہنس کر
پوچھا ۔کیوں بھئی کیا پکانے کا ارادہ ہے۔؟ پھیکو کی بیوی نے بڑے اطمینان سے
جواب دیا۔” ا ور تو کچھ ہے نہیں! تمہیں ہی پکڑ کر پکا لیتے ہیں!!
ہنس راج بیچارہ ڈر گیا اور کہنے لگا ، اگر تم لوگ میری جا ں بخشی کا وعدہ
کرو تو میں تمیں ایک خزانے کا پتہ بتا سکتا ہوں ،؟ پھیکو کی بیوی نے کہا
ہاں اس شرط پر تمہیں چھوڑ سکتے ہیں بتاﺅ کہاں ہے خزانہ ؟ ہنس راج نے اپنے
پنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں اس وقت تمہارا چولہا جل رہا ہے، ٹھیک اسی
کے نیچے سے زمین کھودو ، سب نے مل کر زمین کھودی تو ایک تانبے کی دیگ جو
اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی نظر آئی سب نے مل کر اسے باہر نکالا ،اشرفیاں کسی
مغلیہ دور کی تھیں اور سب سونے کی تھیں ،پھیکو نے بیوی سے کہا ، کلو کی
ماں(کلو ان کے بیٹے کا نام تھا) اب آگے کیا جانا ہے چلو اللہ نے بہت کچھ دے
دیا ہے اب واپس چلتے ہیں اور خوب اچھا سا گھر بناتے ہیں کچھ زرعی زمین بھی
خرید کر اپنے کھیتوں میں ہل چلائیں گے، اپنے کھیتوں میں ہل چلانے کا مزا ہی
کچھ اور ہوتا ہے۔خزانہ بیل گاڑی پر لاد کر واپس آتے آتے رات ہو چکی تھی ،
صبح اٹھے تو اشرفیاں گننے بیٹھے مگر ان پڑھ ہونے کی وجہ سے گنتی نہیں آتی
تھی اس لیے سوچا کہ چلو وزن کر لیتے ہیں مگر ترازو تو نہیں ہے ، کچھ سوچ کر
پھیکو کی بیوی نے بیٹی سے کہا جاﺅ ترازو اپنی تائی اماں کے گھر سے مانگ لاﺅ
، وزن کر کے واپس کر دیں گے ، بیٹی بھاگی بھاگی تائی اماں کے پاس گئی اور
ترازو مانگا، تائی اماں بھی بڑی شاطر تھیں، پوچھنے لگیں کیا تولنا ہے ترازو
سے۔؟ لڑکی نے جو باپ کی طرح سیدھی سادھی تھی پھٹ سے کہا، سونے کی اشرفیاں
تولنی ہیں ، تائی اماں کو یقین نہیں آیا کہ ان بھوکے ننگوں کے پاس سونے کی
اشرفیاں کہاں سے آئیں گی!! ترازو تولا کر دے دیا مگر چالاکی سے ترازو کے
پلڑے کے نیچے کچھ راب لگا دی جو گڑھ بناتے وقت ویسٹ نکلتی ہے بالکل سریش کی
طرح ہر چیز کو چپکا لیتی ہے ۔
جب ترازو لے کر لڑکی واپس آئی تو تائی اماں نے چور آنکھوں سے ترازو کے پلڑے
کے نیچے چپکی ہوئی اشرفی کو دیکھ لیا اور لڑکی کو بڑے پیار سے بہلا پھسلا
کر ساری کہانی سن لی کہ کیسے اور کہاں سے خزانہ ہاتھ لگا ۔ پھر کیا !!
فوراً اپنے میاں کو بلا کر سب کچھ بتایا اور چلنے کی تیاری کرنے لگے۔اُسی
درخت کے نیچے جا کر ڈیرہ جمایا اور جیسے جیسے لڑکی سے سنا تھا ویسے ویسے
کرنا شروع کر دیا سب سے پہلے خاوند سے لکڑیاں لانے کے لیے کہا جو منہ میں
یہ بڑبڑاتے ہوئے چلا گیا!! پتہ نہیں کیا کرے گی یہ عورت لکڑیوں کا۔؟ بیٹے
سے کہا جاﺅ سامنے ندی سے پانی بھر لاﺅ، بچے بھی باپ ہی کی طرح چوہدری تھے
لہٰذا بڑا اکھڑ سا جواب ملا۔ ”پانی میں کیا ڈوب کے مرو گی۔؟“ بیٹی سے کہا
تم ذرا چولہا جلا دو، بیٹی نے بھی بیٹے کی طرح اکھڑ پن سے جواب دیا ”جل کے
مروگی کیا ؟ ہنس راج درخت پر بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ، اس نے ہنستے
ہوئے پوچھا ”کیا پکانے کا ارادہ ہے ؟ بڑھیا جو اسی بات کا انتظار کر رہی
تھی ، جھٹ سے بولی ،” اور کچھ تو ہے نہیں تمہیں پکڑ کر پکا لیں گے“ ہنس راج
نے پھر ہنستے ہوئے جواب دیا ۔” ارے تم مجھے کیا پکڑو گے تمہارا تو آپس میں
اتفاق نہیں ہے مجھے پکڑنے والے تو اور ہی تھے جو ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے
ایک دوسرے کا کہا بے چوں چراں کے مانتے تھے ہاں اگر وہ لوگ چاہتے تو مجھے
پکڑ سکتے تھے اسی لیے میں ان کے سلوک اور اتفاق سے ڈر گیا تھا۔ جاﺅ پہلے
اپنے اندر اتفاق پیدا کرو پھر مجھے پکڑنے آ جانا“ اتنا کہہ کر ہنس راج نے
اُڑان بھری اور یہ جا وہ جا وہ لوگ سب دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہم لوگوں کو آپس میں سلوک اور اتفاق کی دولت نصیب
فرمائے۔آمین |