ایک بزرگ خاتو ن کی آہ
وبکا سپریم کورٹ میں مقدمہ نمٹاتے ججز کی آنکھیں بھی نم کر گیا یہ عدالت لا
پتہ افراد کیس کی سما عت کر رہی تھی اس بزرگ خا تو ن کا کہنا تھا کہ انھوں
نے اپنی جو انی بیو گی میں گزاری ایک ہی بیٹا تھا اسے پا لا پو سا پڑھا یا
لکھا یا جب وہ اس قابل ہو ا کہ زندگی کے چند لمحے سکو ن سے گزا ر سکے تو
ایک دن اسے اٹھا لیا گیا کئی سالوں کی در بدر کی ٹھو کر یں کھا تی لا چار
خا تو ن کا کہنا تھا اس کا بیٹا کسی برے فعل میں ملو ث نہ تھا اس کے با
وجود لا پتہ کر دیا گیا ان لو گو ں کے جن کے اپنے گز شتہ کئی سالوں سے لا
پتہ ہیں جن کی تلاش ان کے الوا حقین تصویریں ہا تھو ں میں تھا مے ما رے
مارے کبھی ایک ادارے سے دوسرے ادا رے در بدر کی ٹھو کریں کھا تے پھر تے ہیں
مگر انھیں کچھ معلو م نہیں کہ ان کے یہ عزیز زندہ بھی ہیں یا نہیں ؟کس حال
میں ہیں ؟اپنے پیاروں کی تلا ش میں کس زنجیر عدل کو کھٹکھٹا ئیں ؟ ان کی
آنکھیں خاموش ہیں مگر چہرے پر کئی سوال اور بد دعائیں تحریر ہیں کہ اس ملک
اس معا شر ے میں کو ئی خدا ہے تو اس خدا کا خوف کیوں ان لو گوں کے دلوں میں
نہیں ؟ خدا کے لیے ہمیں ہمارے پیاروں کی زندگی یا مو ت کی اطلا ع تو دے دو
اگر وہ مر چکے ہیں تو بھی بتا دو کہ ہم دل پر پتھر رکھ کر اس کے نا م کے
آگے مر حوم لکھ دیں اگر زندہ ہیں تو کم ازکم اتنا بتا دیں کہ زندگی میں
دوبا رہ ان کی صورت دیکھ سکیں گے یا نہیں ؟ ان مظلو موں کو ان تما م سوالات
کا جو اب کسی ریلی کسی یا داشت سے نہیں مل سکا آج بھی ان حقا ئق سے پردہ
نہیں اٹھا یا جا سکا ہے۔
یہ با ت بلا کسی حیل و حجت کے کہی جا سکتی ہے کہ لا پتہ افراد کا معا ملہ
اس قدر حساس ہے کہ اس پر قلم اٹھا نا بڑ ی احتیا ط کا تقا ضا کر تا ہے جب
سپریم کو رٹ نے اس پر تو جہ کی تو تما م لو گوں کی یہی رائے تھی سب کا ایک
ہی خیال تھا کہ اتنے اہم اور طا قت ور ادارے سے جو اب طلبی کر نا نا ممکن
ہے اپنی طا قت کے حوالے سے اس با ر سپریم کو رٹ غلط فہمی کا شکا ر ہے کچھ
عر صہ قبل جب سپریم کو رٹ نے اس کیس کے سلسلے میں خفیہ اداروں سے پو چھ تا
چھ کی تو ان کا صاف جواب یہی تھا کہ یہ ہما ری تحویل میں نہیں نہ ہم کسی کو
جواب دہ ہیں مگر کچھ دنوں کے بعد انہی اداروں نے اپنا بیان بدل کر اعتراف
کیا کہ اڈیالہ جیل کے وہ گیارہ افراد ہما ری تحویل میں ہیں خفیہ اداروں کے
وکیل محمد ارشاد نے کہا سپریم کو رٹ کا احترام کر تے ہیں اور ان کے فیصلے
کو قبول کر یں گے چیف جسٹس آف پا کستا ن اپنی جرات مند انہ طبعیت کے با عث
اس امتحان میں بھی سر خرو ہو ئے اور انھوں نے اڈیالہ جیل سے اغواء کیے گئے
افراد کا سرا غ لگا لیا یہ یقیناً انصا ف ا ور قا نو ن کی بڑی جیت اور فتح
کے ابواب میں ایک اضا فہ ہے (لیکن! اس کیس میں ابھی امتحان اور بھی ہیں)
چیف جسٹس صا حب کو اللہ تعالیٰ مزید ایسے احکا ما ت جا ری کر نے کی استطا
عت فر ما ئے عدلیہ کی تا ریخ میں وہ پا کستا ن کے مقبول ترین چیف جسٹس ہیں
جو اخبا رات میں چھپنے والی چھو ٹی چھوٹی خبروں پر سو موٹو ایکشن لے لیتے
ہیں اس ایکشن کے نتیجے میں ان سینکڑوں ہز اروں مظلو مو ں کو انصاف اور ریلف
ملتا ہے جو شا ئد بر سوں عدالت کے دروازے تک بھی نہ پہنچ پا تے ۔
پا کستا نی میڈیا اور اخبا روں میں ایک دھا ئی سے لا پتہ افراد کا معا ملہ
زیر بحث ہے سابق صدر پر ویز مشر ف اپنی سوا نح حیات ” دی لا ئن آف فا ئر“
میں اس با ت کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ڈالرز کے بدلے میں کئی پا کستا نیوں کا
امریکہ سے سودا نمٹا چکے ہیں ان کا ’ڈالر دو بندے لو ‘کا محاورہ بھی باز
گشت میں رہا وائس فار مسنگ پر سن کے مطابق بلو چستا ن میں مشرف دور حکومت
سے لے کر اب تک آ ٹھ ہزار لو گ لا پتہ ہو چکے ہیں جب کہ صوبا ئی حکو مت کا
کہنا ہے کہ یہ تعداد چند سو سے زیا دہ نہیں اس وقت ۰۷۶ لا پتہ افراد کا
افغا نستا ن میں مو جو دگی کا انکشاف بھی ہو ا ہے لا پتہ افراد کی با زیابی
کا معاملہ آج کے جمہوری دور حکومت میں بھی نا کامی سے دوچار ہے ۔
آ ج کل پا رلیمنٹ کے ایو ان با لا میں لا پتہ افراد کے مسئلہ پر بحث و مبا
حثہ ہے وفا قی حکو مت نے بھی ان کا سراغ لگا نے اور با زیا ب کر نے کی یقین
د ھا نی کر وائی ہے حکومت نے مز ید دو کمیٹیا ں بنا نے کا اعلا ن کیا جب کہ
د و کمیٹیاں اس سلسلے میں پہلے ہی کا م کر رہی ہے جس کے سر براہ سیکرٹر ی
داخلہ اور دوسری کے ہا ئی کو رٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں جو معا ملا ت کا جا ئزہ
لے رہی ہے با ت اب تک بحث برائے بحث تک ہے کو ئی فر یق کھل کر مسئلہ کی نشا
ندہی کر نے کے لیے را ضی نہیں وزیر دا خلہ نے کئی با ر اپنے بیان میں کہا
ہے کہ وہ پا رلیمنٹ کو بند کمر ے میں بر یفنگ دینے کو تیار ہیں مگر اب تک
اس با بت کو ئی سنجیدہ کا روائی کا اہتمام نہیں کیا گیا کسی کے ہنستے بستے
پر سکون گھر سے کسی فرد کا اٹھا لیا جانا یا صبح کا م پر گئے اور واپس نہیں
آنا کو ئی معمو لی با ت نہیں پھر اس پر ظلم یہ کہ اس بارے میں کچھ پتہ بھی
نہ چلے کہ وہ کہا ں اور کس حال ہیں ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے لوگوں کا لا
پتہ ہو جا نا کو ئی حا دثاتی کا روائی نہیں اسکی کڑ یا ں بین الاقوامی ساز
شوں سے ملتی ہیں جن کا مقصد پا کستا ن کو کمزور کر کے نا قبل تلا فی نقصان
پہچا ناہے وہ بڑی طاقتیں جو پا کستا ن کے ہمسایہ ممالک میں اپنی تو سیع
پسندا نہ عزائم کے لیے ساز باز کر کے بلو چستا ن کو لگا تار عدم استحکا م
کی جانب د ھکیل رہی ہیں ملک میں قوم پرستی کے جذ با ت کو ہوا دے کر نو جو
انوں کو اسلحہ اور ما لی امداد فراہم کر کے اپنے ہی ملک کے خلا ف استعمال
کر رہی ہیں پا رلیما نی کمیٹی کے لیے اس سارے معاملے کو انتہا ئی ذمہ داری
سے سمجھنے کی ضرورت ہے عدم پتہ اور مسخ شدہ لا شوں کے سلسلے کو اب رکنا چا
ہیے عوام کے جا ن ومال کی حفا ظت حکو مت وقت کی ذمہ داری ہے ۔
امر یکی تا ریخ عدلیہ کے سب سے قابل احترام اور جر ات مند جج چیف جسٹس سر
جا ن ما رشل (۴۲ ستمبر ۵۵۹۱ءسے ۶ جولا ئی ۵۳۸۱ء) ہیں چیف جسٹس سر جا ن ما
رشل کا تا ریخی کا رنامہ ہے کہ انھوں نے عدلیہ کی ما ڈرن ہسٹری میں جو
ڈیشنل ایکٹو زم کی بنیاد ڈالی اور عوامی مفا د میں امریکی کا نگریس کے کئی
منظور کردہ قا نو ن کو کالعدم قرار دیا سر جا ن ما رشل کا ایک مشہور ریما
رکس ہے جو انھوں نے ایک مقدمے کی سما عت کے دوران انتظامیہ کی تما م تر کو
ششوں کے با وجود ایک عا م کو شہری کو ریلیف دینے کا حکم دیا انھوں نے اپنے
فیصلے میں کہا کہ ” حکومت کا بنیا دی فرض ہے کہ اپنے شہریوں کے حقوق کا
تحفظ کرے عدل وانصاف اور قا نون جیسی اصلا حات اس وقت اپنی وقعت کھو دیتے
ہیں جب حقیقی معنوں میں ان پر عمل نہ کیا جا ئے ہزاروں سالہ انسانی تاریخ
بتا تی ہے ننا وے مجر موں کو سزا دینے سے ایک بے گنا ہ کو ظلم سے بچا نا
زیا دہ بہتر ہے کہ مظلو م کے ساتھ ہو نے والی زیا دتی پورے معا شرے پر اثر
ڈا لتی ہے ۔ |