نوشہرہ میں ایک معصوم بچی سے جنسی درندگی کا ایک الم ناک
وشرم ناک واقعہ سامنے آیاہے ۔بتایاجاتا ہے کہ سات آٹھ سالہ بچی ’’نور‘‘قرآن
پاک پڑھنے کے لیے مدرسہ کو جارہی تھی کہ راستے میں ہی کسی نے اُسے اغوا ء
کرلیا،زیادتی کا نشانہ بنایا اور زیادتی کے بعد قتل کردیا ۔معصوم بچوں ،بچیوں
سے جنسی زیادتی وبعدازاں اُن کابہیمانہ قتل یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جو
اِس ملک میں ہوا ہے ۔اِس سے پہلے بھی ملک کے طول وعرض میں اِس طرح کے بے
شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں۔افسوس اِس بات پر کہ اب تک حکومتی سطح پر مکمل
کنٹرول نہیں پایا جاسکا۔آخر معصوم بچوں کو بے نور کرنے کا یہ سلسلہ کب ختم
ہوگا۔ ایسے واقعات کب تک ہوتے رہیں گے۔کب تک اِس قوم کی ننھی کلیاں اور
مسکراتے پھول جسموں کے بھوکے سفاک درندوں کے ہاتھوں مسلے جاتے رہیں گے۔آخر
ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟۔ہمارے حکمرانوں کو ہوش کب آئے گا اور انتظامیہ کب
جاگے گی ؟۔افسوس اب تو اخیرہی ہوچکی ہے۔آخر ہم کب تک معصوم بچوں کے لاشے ،بکھری
باقیات اور بوسیدہ ہڈیاں اُٹھاتے رہیں گے۔اِس کا کوئی اختتام بھی دیکھنے کو
ملے گا یا یونہی ہم اِس طرح کے ہمیشگی صدمات سہتے رہیں گے۔معصوم بچوں سے
جنسی زیادتی جیسے بڑھتے ہوئے کیسزکی روک تھام کے لیے ہمارے پاس صرف دلاسے
ہی ہیں۔ جہاں دلاسوں پر ہی کام چلایا جاتا ہو۔ وہاں کاپھر اﷲ ہی حافظ
ہوتاہے۔افسوس ہمارے ملک میں معصوم بچوں سے آئے رُوز زیادتیاں ہو رہی ہیں
اور ہم ہاتھوں پر ہاتھ باندھے بیٹھے ہیں اور اِس کے حقیقی تدارک کے لیے کچھ
نہیں کررہے ہیں۔کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔کسی
اِکادُکا واقعے میں اگر کوئی مجرم پکڑ ہی لیا جاتا ہے تو اُس کی تشہیر سے
ہی باہر نہیں نکلتے اور اِس معاملے پر فوٹوسیشن میں مبتلاہوئے مبارکبادوں
کی ایک جھڑی سی لگا دیتے ہیں مگرایسا دوبارہ نہ ہو کے لیے حقیقی سطح پر
کوئی کام نہیں کرتے۔زینب الرٹ بل منظور کرکے قوم پر ’’احسان عظیم‘‘ کیے
واپس اپنی پہلی سی زندگی میں مگن ومصروف ہوئے سب کچھ یکسر بھولے قوم کا درد
مزید بڑھادیتے ہیں۔اِن کے درد کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی مثبت اقدام نہیں
کرتے ہیں۔جس طرح کی صورتحال معصوم بچوں سے زیادتی کے حوالے سے آج کل ملک
عزیزکو درپیش ہے ۔والدین سے صرف اتناہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنی ننھی معصوم
کلیوں اور مسکراتے پیارے پھولوں کی حفاظت خود کرتے اِن کو گھروں میں ہی
باندھ دیجیئے کہ امیرسلطنت اور منصف شہر غافل ہوچکے ہیں۔پھریہ کہ جہاں 20
روپے کے صابن اور 120 روپے کے شیمپو کی تشہیر کے لیے عورت کو ننگا
کیاجاتاہو۔2 روپے کی چیونگم کی تشہیر کے لیے آدھی درجن نوجوان لڑکیوں کو
نچایا جاتا ہو۔وہاں بچیوں کے ریپ پر واویلا کرنا فضول ہے۔جہاں ٹی وی ڈراموں
میں دیور بھابھی کے ناجائز تعلقات دیکھانا معمول بن جائے اور دیکھایا جائے
کہ شوہر کا اپنی بیوی کو پہلے یار سے ملانے کو قربانی جیسا پیش کیاجائے اور
بھائی لڑکی پٹانے کے لیے بہن کا استعمال کرے۔وہاں اخلاقیات اور انسانیت کے
درس دینا منافقت ہے
|