پہلوان کی بڑھک

ہم سب اسے پہلوان کہتے تھے،وہ ایک لحیم شحیم گرانڈیل جوان تھا،اس کی لمبی لمبی مونچھیں،بھاری بھرکم آوازاور موٹے موٹے ہاتھ تھے۔وہ جب بوسکی کاکرتہ،رنگین کناری کالاچہ اورپاؤں میں چمکدارکھسہ پہن کرباہرنکلتاتھاتودوردورتک سنسنی پھیل جاتی تھی۔پورے محلے میں پہلوان کی بڑی دہشت اوردبدبہ تھالیکن جونہی پہلوان اپنے گھرکی دہلیزپرقدم رکھتاتھا، یہ دبدبہ،یہ دہشت جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی تھی،اس کی آوازبھراجاتی تھی، مونچھیں لٹک جاتی تھیں اورتنی گردن جھک جاتی تھی۔پہلوان جتنی دیر گھررہتاتھا،اندرسے برتن ٹوٹنے،چیخنے چلانے اوررونے دھونے کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔اس میں پہلوان کاکوئی قصورنہیں تھا،اللہ نے مسز پہلوان کوذراتلخ،غصہ آوراورشکی مزاج بنایاتھالہنداوہ برتن ٹوٹنے،چیخنے چلانے اوررونے دھونے کاکوئی موقع ضائع نہیں کرتی تھی اوربعض اوقات ان آوازوں میں اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی آوازیں بھی کورس کی شکل میں شامل ہوجاتی تھیں۔ایسے میں پہلوان ہانپتاکانپتا،پسینے میں شرابورہاتھوں اورچہرے پر خراشوں کا نشان لئے گھرسے باہرچوک میں پان والی دوکان کے ایک سٹول پرپناہ لیتاتھا۔

اگرکبھی بات حدسے گزرجاتی توہم سب دوست مل کرپہلوان کوغیرت دلانے کی کوشش کرتے تووہ آہستہ آہستہ رکے رکے لہجے میں کہتا”چھ بچوں کولیکرکہاں جاؤں گا“اورہمارے پاس پہلوان کے اس سوال کاکوئی جواب نہیں ہوتاتھا۔پہلوان گھریلو تشددیاڈومیسٹک وائلنس کی مکمل مثال تھا۔ پورے شہرمیں پہلوان کوعزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھالیکن گھرمیں قدم رکھتے ہی اس سے وہ سلوک ہوتاتھاجس طرح ہٹلرکے ہاتھوں پیرس کاہواتھایاپھرہمارےحکمرانوں اوران کے ہمنواؤں کے ہاتھوں ملکی سیاست کا۔ہم لوگ کبھی غلطی سے پہلوان کوچھیڑنے کی خاطراس معاشرے کو”مین ڈومینن سوسائٹی“کہہ دیتے توپہلوان اس کابرامنانے کی بجائے مسکراکرکہتاکہ ابھی تم نے اس کڑوے میوہ کامزانہیں چکھااور کبھی تڑپ کرکہتاکہ ”یارو تم توایسانہ کہاکرو۔

پاکستانی معاشرے کی ایک تصویرپہلوان ہے،بڑی حدتک ہم یعنی پہلوان کے دوست بھی اس گروہ میں شامل ہیں۔ہماری بھی ”ٹیں“ دہلیزپرپہنچ کردم توڑدیتی ہے۔،ہماری جرات بھی گلی تک محدودہوتی ہے،ہم بھی گھرمیں قدم رکھتے ہیں توعہدَ قدیم کے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کربیوی کی بارگاہ میں مودب حاضرہوجاتے ہیں اورباقی زندگی اس کی اطاعت و فرمان برداری میں بسرکرنے کاحلف اٹھاتے ہیں لیکن اس معاشرے میں ایسے ہزاروں لاکھوں مردایسے بھی موجودہیں جوگلی میں قدم رکھتے ہیں توگھرکے سکون میں زلزلہ آجاتاہے،جواپنے ساتھ سسکیوں چیخوں اورآہوں کا سیلاب لیکرآتے ہیں۔اس ملک میں کتنی عورتیں ہیں جن کیلئے گھرعقوبت خانوں سے بدترہیں،جن کی خواب گاہیں ٹارچرسیل ہیں،جن پرجلتے چولہے الٹ دیئے جاتے ہیں،جن کے جسم سگریٹوں سے داغے جاتے ہیں،جنہیں مردباہرجاتے ہوئے چارپائیوں سے باندھ دیتے ہیں، جنہیں تیزاب سے جلایاجاتاہے،جن پرکھولتاہواپانی اورگرم ہانڈیاں الٹ دی جاتی ہیں،جنہیں جانوروں کے باڑوں میں کھونٹوں سے باندھاجاتاہے،جوونی ہوتی ہیں، جو کاروکاری ہوتی ہیں۔

اس ملک میں ماچھکہ کاقبرستان ہے جس میں سینکڑوں عورتیں کفن اورجنازے کے بغیردفن ہیں،جوکاروکاری قبرستان کہلاتا ہے۔اسی ملک میں بچیوں کوجائدادکیلئے قرآن سے بیاہ دیاجاتاہے،جنہیں شادی کے نام پرایسے جہنم میں پھینک دیاجاتاہے جہاں ان کی ہڈیاں تک گل سڑجاتی ہیں۔جہاں اس ملک میں علاقے کاایک سردارزندہ عورتوں کوخونخوارکتوں کے آگے پھینکنے کا نہ صرف حکم دیتاہے بلکہ ایسے خونخوارمنظرسے لطف اندوزبھی ہوتا ہے،ملک کے حکمرانوں میں اس کابال تک بیکاکرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی اورایسے لوگ باقاعدہ میڈیاکے سامنے سینہ پھلاکراپنے علاقوں کے ان قوانین کاباقاعدہ دفاع بھی کرتے ہیں،جہاں اس ملک اس معاشرے میں نودس سال کی بیٹیاں سترسال کے بوڑھوں سے بیاہ دی جاتی ہیں۔

اس ملک میں حدودکے نام پرہرمہینے 110سے زائد بے گناہ بچیاں قتل کردی جاتی ہیں،جس میں2019ءمیں26270لڑکیاں گھریلوتشددسے مجبورہوکرگھروں سے بھاگ گئیں،اس ملک اس معاشرے میں نابالغ بچے اوربچیاں ماؤں اورباپوں کے تشدد کاشکارہیں جس میں بیگمات چھوٹے نوکر اورنوکرانیوں پرظلم کے پہاڑتوڑدیتی ہیں،جس میں ساس سسربہوکے ہاتھوں تنگ آکرمانگنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔اس ملک اس معاشرے میں ایسی ناخلف اولاد بھی موجودہے جواپنے بوڑھے والدین کواپنے ہی گھروں میں نوکربنالیتے ہیں،جواپنی ماں کولوہے کی گرم سلاخوں سے داغتے ہیں اور جائیداد ہتھیانے کیلئے اپنے بوڑھے والد کوکمرے میں بندکردیتی ہیں اوروہ بیچارہ بھوک اورپیاس سے بلک بلک کردم توڑدیتاہے۔دنیاکاکوئی مذہب، کوئی آئین، کوئی قانون اورکوئی معاشرہ اس ظلم کی اجازت نہیں دیتالیکن ہمارے ملک میں کہیں مذہب،کہیں غیرت،کہیں روایت اور کہیں رسم کے نام پریہ ظلم ہورہاہے،عورتیں،بوڑھے اوربچے، چار دیواری اور ایک کمزورسی چھت کے نام پرپوری زندگی بلیک میل ہوتے رہتے ہیں، موت کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔

میں کبھی کبھی سوچتاہوں کیایہ لوگ اس ملک کی رعایانہیں،کیایہ مظلوم لوگ ہماری،ہمارے معاشرے اورہماری حکومت کی ذمہ داری نہیں؟؟ہم بڑے سے بڑے ظلم کو”گھریلومسئلہ“قراردیکرمعاف کیوں کردیتے ہیں۔میں سوچتاہوں،یہ لاکھوں کروڑوں لوگ کس کی ذمہ داری ہیں؟ مگر افسوس مجھے ان سوالوں کاکوئی جواب نہیں ملتا۔نیب کے سربراہ نے جب میڈیا میں ہواؤں کارخ بدلنے کی نویدسنائی تومیراماتھااسی دن ٹھٹکاکہ اب اس کی جوابی کاروائی ضرورہوگی؟اب ایک نئے آرڈی ننس نے نیب کے پرکاٹ کررکھ دئیے ہیں۔ہمارے پہلوان وزیراعظم نے بڑے رعب کے ساتھ کئی دھمکیوں سے بھی کام لیا،بالکل اسی پہلوان کی طرح جس کامیں نے مضمون کی ابتدائی سطروں میں ذکرکیااوراب اپنے ہی ساتھیوں سے منہ چھپاچھپاکریہ کہنے پرمجبورہوگئے ہیں کہ”یاروتم توایسانہ کہاکرو۔عدلیہ نے بی آرٹی کی تحقیق کاحکم دیاتواس کے خلاف عدلیہ میں درخواست دائرکردی۔مخالفین کوجنگلابس کاطعنہ دینے والوں کی جان پربن آئی ہے۔کیانیب حکومت کاترلامان لے گی؟ آخر پہلوان ہی پہلوان کے کام آتے ہیں۔

میں ایک دفعہ پھراپنے ان مخیرحضرات سے اپیل کرتاہوں کہ آگے بڑھیں۔پہلے تجرباتی طورپرکسی پسماندہ شہرکاانتخاب کرکے ایسی کونسل کاقیام عمل میں لائیں جہاں گھریلو تشددکے شکارمردوں،عورتوں بوڑھوں اوربچوں کی دادرسی کر سکیں، انہیں گھروں میں قائم عقوبت خانوں سے نکال سکیں،انہیں آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا موقع فراہم کریں۔حکومت کو اس حساس معاملہ پرقانون سازی کیلئے مجبورکریں تاکہ ان قوانین کے تحت سارے ملک میں ایسے ادارے وجود میں آسکیں جہاں ان مجبورومقہورلوگوں کی دادرسی ہوسکے۔ان کونسلوں میں ہمدرداورتجربہ کارپروٹیکشن آفیسر تعینات کئے جائیں،ان کی معاونت کیلئے مقامی عدالتی اہلکارہوں،مصالحتی ٹیمیں ہوں جوشکایات پرمظلوموں کی فوری مددکرسکیں،گھروں میں مصالحت کابندوبست کرسکیں،زخمیوں کی طبی امدادکا معقول انتظام ہو،جنہیں جان کاخطرہ ہوان کومکمل تحفظ فراہم کیاجا سکے۔اگرجلدایسانہ ہو سکا تولاہورکی مجبورومقہوریتیم بچیوں کا”کاشانہ”میں ہونے والی ہولناک داستانیں اور بددعائیں حکمرانوں کاتختہ الٹ دیں گی۔

یادرکھیں معاشرے گھروں سے بناکرتے ہیں اورجن معاشروں میں گھرتشدد،ظلم،جانبداری اورعدمِ مساوات کاشکارہو،وہ معاشرے کبھی صحت مندنہیں ہوسکتے۔ جن چاردیواریوں میں برداشت،تحمل اورقلبی وسعت نہیں ہوتی وہ ملک،وہ معاشرے کبھی عزت اوراحترام نہیں پاسکتے۔جب باپ بچے کے ہاتھ سے بچپن میں پلیٹ چھینتاہے تو وہ بچہ بڑاہوکرپورے معاشرے کے ہاتھوں سے پلیٹیں چھینتاہے اورجس سماج میں عورت مار کھانے کے بعدبچے کودودھ پلاتی ہے وہ معاشرہ کبھی سکون کی نیندنہیں سوسکتا۔اس معاشرے میں کبھی عدل ،انصاف اور برابری نہیں آسکتی۔ میرایہ ایمان ہے جن معاشروں، جن ملکوں کے گھروں میں ایسی اسلامی مساوات کے اصول نہیں ہوتے،ان حکومتوں میں کبھی تحمل،برداشت اوروسعت نہیں آسکتی۔
رہے نام میرے رب کا جس نے بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ” اعدلو ھواقرب للتقوی “انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے قریب ہے۔
درد کے قصر میں امید کی قندیلیں ہیں
میں نے آباد کئے درد کے صحرا کیسے

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.