غرور کا سر نیچا

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہم بنی نوع انسان کو اپنی اس وسیع وعریض سرزمین پر اشرف المخلوقات بنا کر پید افرمایاہے اور اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تم صرف میری ہی عبادت کرو ،میرے ہی سامنے اپنی جبین نیاز خم کرو، اپنے دامن اور ہاتھوں کو صرف میرے ہی آگے پھیلائو ، ذبیحہ اور نذرونیاز صرف میرے ہی لیےپیش کرو اور میری اس مقدس سرزمین پر میرےاحکام کے مطابق صاف و شفاف زندگی گذارو،منہیات ومنکرات، بدعات وخرافات اور فواحش و واہیات سے ہمیشہ اپنے دامن کو بچائے رکھو۔ اپنے والدین ،اہل خانہ ،رشتہ داروں ،اعزہ و اقارب ،دوست واحباب غرض یہ کہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ،اخوت و بھائی چارگی کا معاملہ کرو،سب سے میل محبت کے ساتھ رہو۔ ریاکاری و مکاری ،شہرت ونمود نیز غروروگھمنڈ اور تکبر سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچائے رکھو ۔اس لئے کہ اللہ کی کسی نعمت پر تکبر کرنا کسی صاحب عقل ودانش کے لیے جائز وروا نہیں ۔بلکہ تکبر توصرف اللہ کے لیےجائز ہے جو عرش پر مستوی ہے ،جیسا کہ حدیث قدسی ہے کہ ’’’’الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي ، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ ‘‘۔’’ کبریائی میری چادر ہےاورعزت میری ازار ہے، جو مجھ سے ان دونوں صفات میں سے کسی کو چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کوجہنم میں ڈال دوں گا‘‘۔(مسلم ،کتاب البر و الصلۃ ۔ابودائود:۴۰۹۰)

چنانچہ مغرور انسان اس دنیا کے اندر بھی ذلیل ورسوا ءہوتا ہےاوربروز قیامت بھی اسے ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اس لئے امت محمدیہ کےہرفرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ حکیم لقمان کی ان نصیحتوں پر عمل کرےجو انہوں نے اپنے لخت جگر کو نہایت ہی حکیمانہ انداز میں کیا تھا جس کا نقشہ قرآن نے کچھ اس طرح کھینچاہے کہ:﴿ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾(لقمان :۱۸) ’’اے میرے پیارے بیٹے ! تولوگوں کے سامنے اپنےگال نہ پھُلااور زمین پر اترا کر نہ چل ،اس لیے کہ کسی تکبر والے شیخی خور کو اللہ پسند نہیں فرماتاہے ‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میںمفسر قرآن ،محدث عصر حافظ صلاح الدین یوسف ؍حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’ تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو تُو ان سے منہ پھیر لے ،یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رہے ، اور ایسی چال یا رویہ نہ اختیارکر جس سے مال ودولت ،جاہ ومنصب یا طاقت وقوت کی وجہ سے فخرو غرور کا اظہار ہوتاہو ۔یہ اللہ کو ناپسند ہے اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے ،اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری اختیار کئے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرےکہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیباہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے ۔اسی لیے حدیث میں فرمایاگیاہے کہ ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا‘‘۔ (جامع ترمذی : ۱۹۹۸) اور ایک دوسری حدیث میں اللہ کے حبیب ﷺ نےارشاد فرمایاکہ ’’ جو تکبر کے طور پر اپنےکپڑے کھینچتے (گھسیٹتے ) ہوئے چلے گا ،اللہ اس کی طرف (قیامت والے دن ) نہیں دیکھے گا‘‘۔ ( بخاری : ۵۷۸۸)یہی وجہ ہے کہ ان متکبرین کے بالمقابل مومنین کے اوصاف حمیدہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ:﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا ﴾(فرقان :۶۳)اور رحمٰن کے(سچے)بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی وفروتنی کے ساتھ چلتے ہیں ۔ اور اگلی آیت میں حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ:﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾(لقمان :۱۹)اور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ ،یقینا آواز وں میں سب سے سے بدتر گدھوں کی آواز ہے ۔ یعنی چیخ اور چلا کر بات نہ کر اس لیے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتاتو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں ہے ،بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور کریہہ ہے ۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب تم گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو ‘‘۔( بخاری : ۳۳۰۳،مسلم: ۲۷۲۹بحوالہ تفسیر احسن البیان ؍از حافظ صلاح الدین یوسف )

مذکورہ نصوص شرعیہ اس بات پر دال ہیں کہ غروروگھمنڈ اللہ کے علاوہ کسی کے لیے بھی جائز نہیں ،وہ اللہ ہی کی ذات ہے جو کبروغرور کو صرف اپنے لیے پسند فرماتاہے اور ہم بنی نوع انسان عاجزوفقیر کو اپنے ہر معاملہ میں تواضع وانکساری اپنانے کی تعلیم وترغیب دیتاہے ۔یہاں تک کہ اپنے حبیب سرورکونین سیدالمرسلین جناب محمد بن عبداللہ ﷺ کوبھی تکبر وگھمنڈ سے اجتناب کرنےاور تواضع وانکساری اختیار کرنے کی تعلیم دی ہےجیسا کہ فرمان الہٰی ہے:﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾(شعراء:۲۱۵)اے نبی !جو لوگ آپ کے متبعین وپیروکار ہیںآپ ان کے لیے اپنا بازو جھکائےرکھیں ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ اور امت کو بارہا اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تم ہمیشہ کبروغرور سے اپنے دامن کو بچائے رکھنا کیونکہ کبرو غرور اس دنیا میں بھی ذلت ورسوائی کا سامان ہوتاہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے دردناک عذاب ہے ۔جیساکہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ ’’اَلا اُخبرکم باھل النار کل عتل جواظ مستکبر ‘‘(متفق علیہ )کیا میں تمہیں جہنمیوں کا پتہ نہ بتا دوں ،پھر فرمایا :ہر وہ شخص جو سخت طبیعت ، اترانے والا،جھگڑالواور اپنے آپ کو بڑا جاننے والا ہے ۔ اور ایسے ہی ظالموں ،بدبختوں اور تکبر وگھمنڈ کرنے والوں کاٹھکانہ جہنم ہےجیساکہ آپﷺ نے فرمایاکہ ’’ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ‘‘(مسلم في کتاب الإیمان، باب: تحریم الکبر: ۲۶۷) جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی کبروغرور ہوگا وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا اور دوسری روایت میںہے کہ’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے آدمیوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا۔( ۱) ۔بوڑھا زانی۔( ۲)۔جھوٹ بولنے والا بادشاہ۔(۳ )۔تکبر کرنے والا فقیر۔(مسلم : کتاب الایمان )

یادرکھیئے کہ غروروگھمنڈ کا سر ہمیشہ نیچارہتاہے ،چاہے وہ وقت کا حاکم ہو یا پردھان ،مالک ہو یا ملازم ،عالم ہویاجاہل ،تاجر ہویا مزدور،امیر ہو یا غریب، غرض جو بھی کتاب اللہ و سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے رب کی اس مقدس سرزمین پر تکبر کرے گا اللہ اسے اس دنیا میں بھی اس کا مزہ چکھادے گا، اسے کرسی صدارت اور عرش معلی سے کھینچ کر تحت الثریٰ کی کھائی میں پھینک دےگا ۔جس کا ہم اور آپ بعینہ مشاہدہ بھی کرتے ہیںکہ ہمارے مابین بعض ایسےلوگ پائے جاتے ہیں جنہیں اپنی علمیت وقابلیت اور زبان وقلم پربڑا نازہوتا ہے ،جس کی وجہ سے وہ اپنے اسلاف ،اساتذہ ، اکابرین نیز معاصرین کوبھی کچھ اہمیت نہیں دیتے، بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان سےمجادلہ ،بحث ومباحثہ یہاں تک کہ مباہلہ کی بھی دعوت دے ڈالتے ہیں اور اپنی گندی ذہنیت کی بناء پر عوام الناس کے مابین فرقہ پرستی ،بغض وحسد ،کینہ کپٹ کا بیج بوتے ہیں ،مسند تدریس پر بیٹھ کر طلبہ کا ذہن منتشر کرنا ، معصوموں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنا ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر طعن وتشنیع کرنا ،امہات المومنین پر تبرابازی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ اور شیوہ بن چکاہے۔آپ ملک وحالات کا جائزہ لیجئےاور دیکھئے کہ ابھی حالیہ ہی دنوں دینی مدارس کے ایک موقر ادارہ کے ایک استاد نے روئے زمین کی سب سے مقدس جماعت کو کس طرح برابھلاکہا،ان کی شان میں گستاخی کی اور اپنی طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا ،ان کے خلاف اول فول باتیں بکیں ہیں، اُن نفوس قدسیہ کو نعوذ باللہ ظالم، غاصب، خاطی،طاغی اور عاصی جیسے غلیظ وگندے القاب سے ملقب کیا ہےجو کسی بھی صاحب بصیرت سے مخفی نہیں ،جب کہ محترم کی الزام تراشی وبہتان تراشی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ عوام انہیں معاف کردے بلکہ ان کی ہرزہ سرائی اور زہرافشانی تو زمانے سے چلی آرہی ہے ،یہ کبھی کسی جماعت کے خلاف زہرافشانی کرتےہیں تو کبھی ان کے محسن حکومتوںپربیہودہ کمینٹ کرکےاپنے دل کا بھڑاس نکالتے ہیں جبکہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ادارہ کے ذمہ داران بھی ایسے دریدہ دہن اور گندے افکاروخیالات والے شخص کوایک عرصہ تک اپنے یہاں پالے ہوئےہیںاوران کی نازیبا حرکتوں اور غلط بیانوں پر کوئی ایکشن لینے کو تیار نظر نہیںآتے۔چنانچہ انہی حرکتوں اور کرتوتوں کا نتیجہ ہےکہ اب یہ شخص عوامی پلیٹ فارم سےبھی اپنے اسلاف اورمادرعلمی کو برا بھلا کہتاہے، وہاں کے نصاب تعلیم پربھی طرح طرح کے کیچڑ اچھالنا اس کاشیوہ بن چکاہے۔غرض اس شخص کے بارے میں مشہور ہےکہ یہ اتنابےحس وبے غیرت ہے کہ جس پتیلی میں کھاتاہے اسی میں چھید (سوراخ ) بھی کرتاہے، جو یقیناکسی بھی عالم دین، صاحب عقل ودانش کو زیب نہیں دیتا ۔ چنانچہ ایسےغیر سنجیدہ شخص کا علاج بروقت ہونا چاہیےاور اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص کےکالے کرتوتوںکو دنیا ہی میںطشت ازبام کر دیتاہےاور عوام الناس کے لیے سامان عبرت بنادیتاہے ۔ایسے شخص کے خلاف امت محمدیہ کے ہر فرد کو سخت اورفوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے ورنہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والا معاملہ ہوگا ۔فاعتبروا یااولی الابصار

لہذاآج کے اس پرفتن و ناگفتہ بہ حالات میں خطیب دوراں اور امت محمدیہ کے ہر فرد کو اخلاص وللہیت کے ساتھ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے کتاب وسنت کی پاکیزہ تعلیمات کو عام اورسلف صالحین کی اتباع وپیروی کرتے ہوئے ایک صاف وشفاف زندگی گذارنے کی سعی کرنی چاہئے ، بیجا کسی پر نقد وجرح ،صحابہ کرام جیسی مقدس وبابرکت ہستیوں کی طعن وتشنیع ،امہات المومنین پر تبرابازی اور تبع تابعین کی توہین سے اپنے دامن کو بچانا چاہیے ، صحابہ کرام اور سلف صالحین کی عظمت وفضیلت کو سمجھتے ہوئے ان کے آپسی معاملات کو اللہ کے حوالے کرکے ان سے دل و جان سے محبت کرنا چاہئے جو کہ ایمان کا ایک حصہ ہے اور ان سے بغض وحسد ،کینہ وکپٹ رکھنا ان پر لعن وطعن کرنا ،انھیں ظالم وغاصب جیسے گھنائونے القاب سے ملقب کرناالحاد اورانکار حدیث کی واضح دلیل ہے ۔

ایسےپرآشوب دورمیںجہاں جہالت اورفرقہ پرستی کابول بالا ہے ضرورت ہے کہ ہم اپنے زبان وبیان ،قلم وقرطاس کا صحیح اور مثبت استعمال کریں ،اپنے اسلاف کے کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین سے دل وجان سے محبت کریں ۔کبروغرور سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے اپنے اندر تواضع وانکساری پیدا کریں اسی میں ہماری کامیابی وکامرانی ہے ۔اللہ ہمیں صحیح سوچ وسمجھ عطافرمائے اور موصوف محترم کو ہدایت نیز ان کے قلوب واذہان کی اصلاح فرمائے۔ آمین !

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 134135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.