محمد سلیم رحیمی
......
چند ایک مدارس ایسے ہیں جہاں طلبہ کرام کو قرآن مجید کے حفظ کے ساتھ ترجمہ
بھی پڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے لیکن کیا ہی شاندار تجربہ ہے۔
اولیاء کی سرزمین ملتان کے قریب واقع عبدالحکیم نامی شہر کو یہ شرف اور
اعزاز حاصل ہے کہ وہ مملکتِ خداداد پاکستان اور دنیا بھر میں حفظِ قرآن کے
ساتھ ساتھ ترجمہ کی تحریک کے لیے مرکز بنا،مرکز اسلامی المبارک میں *پیر
سید ساجد الرحمن شاہ صاحب* ایک زندہ دل، گرم خون اور جان جہاں شخصیت ہیں،
اﷲ رب العزت نے انہیں قرآن کریم کے ساتھ ایک خاص شغف عطا فرمایا ہے، یہی
وجہ ہے کہ وہ ہر وقت قرآن کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں، قرآن کے ساتھ ان کے
تعلق اور لگن کو دیکھ کر انسان مبہوت سا ہو جاتا ہے. اﷲ تعالیٰ نے ان کے دل
میں یہ بات ڈالی کہ حفاظ بچوں کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کا ترجمہ
بھی یاد کرایا جائے. ترتیب یہ سوجھی کہ دن بھر حفظ کے اوقات میں سے صرف ایک
گھنٹہ ترجمہ قرآن کے لیے خاص کر دیا جائے، بچے اسی ایک گھنٹے میں سبق سن
سنا اور یاد کر کے فارغ ہو جائیں، انہیں اس ایک گھنٹے کے علاوہ کسی بھی
دوسرے وقت میں ترجمہ کے بارے میں فکر مند نہ ہونا پڑے، تاکہ ترجمہ قرآن کسی
بھی طرح ان کے حفظ میں رکاوٹ نہ بنے. *پیر سید ساجدالرحمن شاہ صاحب* نے نہ
صرف یہ ترتیب سوچی بلکہ اسے اپنے ادارے میں نافذ بھی کر دیا، اﷲ تعالیٰ نے
اس ترتیب میں ایسی برکت رکھی کہ وہ دن اور آج کا دن پیر صاحب کے بیسیوں
شاگرد الحمد ﷲ ملک بھر میں ترجمہ قرآن کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں. وفاق
المدارس پاکستان کے ترجمان مولانا عبد القدوس محمدی صاحب کو جب اس خوبصورت
اور حفاظ بچوں کے لیے انتہائی مفید ترتیب کا پتہ چلا تو انہوں نے فوراً ہی
شہزاد ٹاؤن میں واقع اپنے ادارے مدرسہ عثمان غنی محمدی مسجد میں اسے اپلائی
کرنے کا ارادہ فرما لیا. اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ آج *مولانا عبد القدوس
محمدی صاحب کی محنتوں سے محمدی مسجد شہزاد ٹاؤن اورمولانا عبدالرؤف محمدی
صاحب کے ہاں ابو بکر مسجد چٹھہ بختاور میں چارکلاسوں میں حفظ کے ساتھ ساتھ
بچوں کو ترجمہ قرآن مجید بھی پڑھایا جا رہا ہے. جہاں بیسیوں بچے قرآن مجید
کے معانی و مفاہیم کو سیکھ سمجھ کر اسے حفظ کر رہے ہیں.
حفظ اور ترجمے میں ترتیب یہ ہوتی ہے کہ حفظ تیسویں پارے کی سورہ ناس سے
شروع کیا جاتا ہے اور ترجمہ پہلے پارے کی سورہ فاتحہ سے. حفظ کرتے کرتے جب
بچہ ترجمے والے پارے میں داخل ہوتا ہے تو یکا یک اس کے حفظ کی رفتار اور
مقدار بڑھ جاتی ہے، ترجمہ کے بغیر حفظ کرتے وقت اگر وہ ایک ورق سبق سنا رہا
ہوتا ہے تو ترجمے والے پاروں میں وہ مقدار دوگنا اور بعض دفعہ تین گنا تک
بڑھ جاتی ہے. اور اس نظام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بچہ ترجمے کو ایک
اضافی بوجھ سمجھنے کی بجائے اس سے لطف اندوز ہوتا ہے اور قرآن کے ساتھ اس
کی دلچسپی اور وابستگی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے. ہم نے کوشش کی کہ
ان بچوں کے تاثرات لے کر آپ تک پہنچائے جائیں جو خود کو اس نظم کے ساتھ
جوڑے ہوئے ہیں اور حفظ کے ساتھ ساتھ ترجمے کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر
قرآن کی کلیوں جیسی تعلیمات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں.
آپ کے سامنے چند ایک ننھے منے بچوں کے تاثرات انہی کے الفاظ میں نقل کیے
جاتے ہیں.
1. ہم جو ترجمہ پڑھ رہے ہیں اس کے پڑھنے سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آنے
والی زندگی میں بہت فائدہ ہوگا۔
2. اگر کوئی عربی پڑھ رہا ہو تو ہمیں اس میں کافی باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ
کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔
ترجمے سے ہمیں یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ قرآن جن باتوں سے منع کرتا ہے ان سے
ہم رک جاتے ہیں۔
3. ترجمہ پڑھنے سے ہماری منزل اور زیادہ پختہ ہوتی ہے۔
4. ہمارے حفظ کے اسباق میں آسانی ہو جاتی ہے۔
ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہوجاتا ہے۔
5. ترجمے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر حفظ کرتے ہوئے کوئی متشابہات
آجائیں تو ہمیں فوراً اس کے لفظ یاد آ جاتے ہیں۔
6. جب ہم کتابوں میں جائیں گے تو وہاں ہمارے لیے بہت سی آسانیاں ہوں گی۔
7. قرآن مجید آسمان سے ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اور ہدایت بغیر سمجھے حاصل
نہیں ہوسکتی۔
ترجمہ پڑھنے سے ہمیں حفظ کا سبق زیادہ اور جلدی یاد ہو جاتا ہے۔
8. جب ہم تلاوت کررہے ہوتے ہیں تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں جنتیوں کا
ذکر ہے یا کہ جہنمیوں کا۔
9. جب ہم قرآن مجید کو حفظ کرتے ہیں تو اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے
لیے اس کا ترجمہ پڑہنا ضروری ہے۔
10. قرآن مجید کو سمجھ کر پڑہنے کے بارے میں اکابرین کیا فرماتے ہیں۔
11. امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا کہ قرآن کو آپ نے کیسے پایا تو وہ
فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن مجید میں سے نوے ہزار مسائل تلاش کیے ہیں۔ اور
امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا کہ آپ نے قرآن مجید کو کیسے پایا
تو وہ فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن مجید سے ہزاروں مسائل پر چار جلدیں مکمل
کر لی ہیں لیکن قرآن کے معانی مکمل نہیں ہوئے.
*اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ بار آور ہو اور امت مسلمہ کے قرآن کی طرف
لوٹنے کے لیے بنیادی اکائی ثابت ہو.آمین*
|