ادھوری خواہش

میرے حجرے کی ایک کھڑکی مستورات کے مسکن کی جانب کھلتی تھی۔۔ چوں کہ ہم سارا دن اسی حجرے میں رہتے تھے تو جی بہلانے کے لیے ہم کھڑکی کھول کے اردگرد نگاہ گھما کر تھوڑا دل بہلا لیا کرتے تھے۔۔ آہستہ آہستہ ہماری یہ عادت بن چکی تھی کہ اگر کھڑکی سے باہر چند لمحات نہ دیکھا تو جیسے کوئی آفت آجائے گی۔۔ میرا معمول تھا کہ کھانے کے بعد میں اکثر کھڑکی میں ہی دکھائی دیتا تھا جس پر میرے دوستوں کو مجھ سے گلہ بھی رہتا تھا۔۔ یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کے اگر میں کہیں باہر سے کھانا کھا لیتا تو باؤلوں کی طرح اُدھر بھی کھڑکی کی تلاش میں بے چین رہتا۔۔ ایک دن موسم خوب جوبن پر تھا۔۔ یونہی میں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور معمول کے مطابق منظر کشی کے لیے کھڑکی سے باہر نظریں گھومانا شروع کر دی۔۔ میری عمر کا تقاضا تھا کہ موسم کے بدلتے ہی میرے دل کے موسم نے بھی رخ بدلہ اور میرے دل میں ایک حسینہ کے خیال نے جنم لیا۔۔ یہ کوئی جرم نہیں، دل میں کوئی بھی خواہش جنم لے سکتی ہے ۔۔۔ اسی دوران ایک صنفِ نازک اپنے مسکن کی چھت پر نمودار ہوئی۔۔ سیاہ لباس میں ملبوس صنفِ نازک ایسے ہی تھی جیسے آسمان پر سیاہ بادلوں نے سورج کو اپنے گرد گھیر رکھا ہو۔۔

اُسکی آنکھیں اتنی خوبصورت تھی گویا اگر کوئی بھی دیکھتا تو اس میں بہہ جاتا۔۔ کھلے بالوں کے ساتھ ہاتھ میں چائے کا کپ لیے وہ چھت پر ٹہل رہی تھی۔ اِدھر میرے دل کی دھڑکنیں تھی جو اُسکے ٹہلنے سے منسلک ہو چکی تھی ۔۔ ساتھ ہی چھت پر پتنگ اڑاتے بچوں پر جونہی میری نظر پڑی تو بچپن کی چند یادوں نے دل میں جنم لیا، بچوں کی نسبت میں نے اپنی توجہ کا مرکز اُس حسینہ کو سمجھا۔۔ اُسکا بار بار بالوں کی لٹھ کو گھومانا میرے دل کو بہت بے چین کر رہا تھا اور میں دل ہی دل میں اُسکا ہو کے رہ گیا تھا۔۔اُسکی ایک ایک حرکت میرے دل کو خوش کر رہی تھی اگر وہی حرکت کوئی اور دیکھتا تو ہو سکتا وہ اُسی حرکت کو احمکانا ٹھہراتا مگر پسند کا معاملہ انفرادی ہے اور پھر جب محبوب سامنے ہو تو پھر سب پسند۔۔۔۔۔۔ اوپر آسمان تلے چیلوں کا ایک گروہ ماحول میں ایک خوبصورت آواز کا منظر پیش کر رہا تھا مگر جسے میں خوبصورت منظر کہہ رہا یہی آواز ہو سکتا کسی اور کے لیے اذیت کا باعث ہو فرق تو صرف پسند اور نہ پسند کا ہے، فرق تو صرف دل کے موسم کا ہے۔۔ میں چاہتا تھا وہ بس چھت کے ایک کونے میں کھڑی رہے اور میں اپنی نظروں کو اُسی پر جمائے رکھوں۔۔ مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی ۔۔ وہ ہاتھ میں چائے کا کپ لیے ایک کونے سے دوسرے کونے کے طرف ٹہل رہی تھی۔۔ اُسکا دوسرے کونے کی جانب جاتے ہوئے غائب ہو جانا ایسے تھا جیسے اوپر اڑتی تمام چیلیں میرے سینے پر بیٹھ کر میرے دل سے گوشت کے لوتھڑے نوچ رہی ہوں، جیسے دل کا موسم لمحے میں خزاں میں تبدیل ہوگیا ہو جیسے موسم کے بدلتے ہی خوشیوں کے تمام پتے جھڑ کر درخت پر افسردگی کی سوکھی ٹہنیاں بچ گئی ہوں اور پھر ٹہنیاں بھی اب کس کام کی؟۔۔ کچھ دیر بعد اُسکی ایک دوست بھی اُسکے ساتھ ٹہلنے میں مگن ہو گئی ۔۔ وہ اپنی دوست کے ساتھ باتیں کرتی اپنے چہرے پر نادان مسکراہٹیں بکھیرتی مجھے خود سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔ وہ بار بار اپنے سر پر دوبٹہ سنوارتی مگر ظالم ہوا کے جھونکے دوبٹہ سر سے سرکانے میں نمایاں کردار ادا کرتے۔۔ اصل میں یہ موسم ہی ہوتا ہے جو انسان کو محبت میں گرفتار کرواتا، وہ موسم دل کا موسم ہو یا باہر کا اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔ اُس نے ہر جانب نظریں گھما لی تھی سوائے اس کبخت کھڑکی کے۔۔ اسکو معلوم ہی نہ تھا کہ کھڑکی میں بیٹھا یہ نادان پرندہ اُسکی جانب اڑان بھرنا چاہتا ہے۔۔ وہ جس جانب بھی نظریں گھماتی دل میں ایک حسرت جنم لیتی کاش میں اُسکی نظروں کا باعث بنو لیکن حسرتیں بھی کس کام کی۔۔

ہوا میں اڑتے پرندوں اور کھڑکی میں بیٹھے پرندے میں فرق صرف اڑان کا تھا، اُن پرندوں کو دیکھ کر میں کوس رہا تھا کہ یہ کیوں اپنی اڑان کو ضائع کر رہے انکو اگر کل اڑان کی ضرورت پیش آئی تو یہ میری طرح چاہ کر بھی نہ اُڑ پائیں گے۔۔۔ اُس دِن مُجھے اصل خواہش کے معنی معلوم ہوئے۔۔۔ خواہش وہ نہیں جو پوری ہو جائے میاں۔۔ خواہشیں تو وہ ہیں جنکو پورا کرنے میں زندگیاں بیت جائیں، بلکل ایسے ہی جیسے میں اپنی اس صنفِ نازک کی ادھُوری خواہش دل میں لیے جیے جا رہا ہوں۔۔خواہش تو یہ ہے کہ کھانا اُسکے ساتھ کھایا جائے، یہ کیسی بیہودہ خواہش کہ کھانا کھا کے اُسکی منظر کشی کی جائے ۔۔۔۔ یہ کیسی خواہش کے کسی کے گھر میں کھانا کھانے کے بعد کھڑکی ڈھونڈی جائے خواہش تو یہ ہے کہ کسی کے گھر جا کر کھانے سے پہلے اسکو ڈھونڈا جائے۔۔ اس دن یہ خواہش تمام خواہشوں پر جیت لے گئی۔۔۔

اُس دِن کے بعد نہ وہ موسم حسیں ہوا، نہ وہ کھڑکی دوبارہ کھلی ، نہ وہ عادت رہی باقی۔۔۔
اور ہاں وہ چھت پر دوبارہ آئی یا نہیں اسکی مجھے کوئی خبر نہیں۔۔۔۔۔
 

Muhammad Bilal Anjum
About the Author: Muhammad Bilal Anjum Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.