ہم جس خطے میں ایک آزاد زندگی گذار رہے ہیں۔یہ ہمارا ہے
اس ملک میں رہتے ہوئے ہمیں ہمارا وجود قید نہیں لگتا۔ہمیں یہ محسوس نہیں
ہوتا کہ ہم کسی ظالم و جابر بادشاہ کے قید میں ہیں۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ
ہماری آزادی ہے۔۔۔۔
آج ہم میں سے بہت سے لوگ آزاد ہوتے ہوئے بھی خود کو آزاد تصور نہیں کرتے۔جب
کے قائداعظم محمد علی جناح کے بدولت ہمیں یہ آزادی ملے ہوئے 71 برس بیت چکے
ہیں ۔شاید ہم تو آزاد ہیں پر ہمارا وجوف آزاد نہیں ہے،تعلیم حاصل کرنا مرد
اور عورت دونوں پر دینی اعتبار سے فرض ہے،لیکن آج بھی اس جدید دور میں بہت
سے لوگ ایسے ہے جو عورتوں کو بامشکل میٹرک انٹر سے زیادہ تعلیم نہیں
دلواتے،جبکہ بعض گھروں میں کسی بھی قسم کی کوئی تنگی نہیں ہوتی،مالی اعتبار
سے بھی اُن کے گھروں کے اخراجات اچھی طرح چل رہے ہوتے ہیں۔مگر وہ اپنی گھر
کی عورتوں کو تعلم کے زیور سے نہ آشنا کئے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالانکہ ایک کامیاب گھر ایک عورت کے دم سے چل رہا ہوتا ہے۔عورت ہی ہوتی ہے
جو ایک چھوٹے سے مکان کو گھر کی صورت میں تبدیل کر دیتی ہے،مگر ذھن کی
خرابی اس حد تک بڑھ گئ ہے کہ کچی میں رہنے والے کچھ لوگ آج کے دور میں
دقیانوسی سی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اُن کے ذھن اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کے
اُنھیں آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے،کہ کوئی لڑکی اگر کالج جائیگی تو وہ لازمی
کسی بُرے فعل میں پھس جائیگی یہ تعلیم کو چھوڑ کر دوسرے غلط کاموں میں ملوث
ہوجائیگی جو معاشرتی اعتبار سے دُرست نہ ہو۔حالانکہ کے والدین کو اُن غیر
پُر سکون کانوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے،جن آوازوں کی وجہ سے اُن کے بچوں
کا مستقبل تابناک ہوجائے۔بلکہ اُنھیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کے جو دن
آج اگر اچھا نہیں تو کل کا آنے والا دن انشاء اللہ اچھا ہوگا۔وقت کی گھڑیاں
ان کے کانٹوں کی مدد سے وقت کو بدل دیتی ہے۔تو کیوں نہ اپنے اقدام سے اپنے
بچوں کا مستقبل بدلے ہم سب۔ہمارے بچوں کا مستقبل ایک معاشرے کے لئے اہمیت
کا حامل ہے۔۔۔۔۔۔
سنی سنائی باتوں پر نہ جائے اپنی سوچ کو بدلیں کیونکہ ہمارے پاکستان کو ایک
مثبت سوچ کی ضرورت ہے جو ایک ترقی یافتہ ملک کی تکمیل پائے۔۔۔۔****** |