|
یہ کہانی ہمارے ایک جاننے والے صاحب کی ہے جو کہ ایک کامیاب بزنس مین تھے
تعلیمی میدان میں بھی کچھ خاص پڑھے لکھے نہ تھے ان کا خاندان بھی تھوڑا
قدامت پرست تھا ۔ اور وہاں تعلیم وغیرہ کا رجحان بہت زیادہ نہ تھا مگر یہ
صاحب اس بات کے خواہشمند تھے کہ ان کے بچے ان ہی کی تعلیمی کمزوری کو پورا
کریں اور خوب تعلیم حاصل کریں-
پیسے کی ریل پیل کے سبب انہوں نے اپنے بچے کی تعلیم کے لیے ایک اچھے اور
بڑے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیا داخلہ کرواتے وقت جب اسکول کی جانب سے بچے
کے پیدائش کے سرٹیفیکیٹ اور ب فارم کی مانگ کی گئی تو اس موقع پر انہوں نے
اسکول کو بھاری ڈونیشن دے کر ان کا منہ بند کروا دیا ۔ سوچا اب کون جا کر
سرکاری دفتروں کے دھکے کھائے اور بچے کا داخلہ کروا دیا ۔یہ عمل انہوں نے
اپنے چھوٹے بچوں کے داخلے کے وقت بھی کیا-
ان کا یہ ماننا تھا کہ پاکستان میں ہر کام پیسے سے ہو سکتا ہے اور جب ان کے
پاس پیسہ ہے تو ان کو سرکاری کلرکوں کی منت سماجت کرنے کی کیا ضرورت ہے-
رفتہ رفتہ ان کا بچہ جب نویں جماعت میں پہنچا تو اسکول والوں نے ان سے ایک
بار پھر ب فارم کی مانگ کی-
|
|
اس بار بھی کاروباری مصروفیات کے سبب وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ان کی
بیگم بھی ان ہی کی طرح ایک کم تعلیم یافتہ خاتون تھیں اس لیے کسی سرکاری
دفتر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا-
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بچے کے بورڈ کے فارم کی آخری تاریخ آن پہنچی-
آخری تاریخ کے گزر جانے کے بعد جب ان کے بچے کا نویں کا بورڈ کا فارم ب
فارم نہ ہونے کے سبب جب جمع نہ ہو سکا تو ان کو ہوش آیا اور وہ بھاگتے
دوڑتے نادرہ کے دفتر پہنچے جن سے ب فارم کا تقاضا کیا-
اس موقع پر نادرہ والوں نے جب ان کے شناختی کارڈ کو دیکھا تو پتہ چلا کہ ان
کے شناختی کارڈ کے مطابق تو ان کی ازدواجی حالت اب تک غیر شادی شدہ ہے-
انہوں نے اس کو تبدیل کروانے کی زحمت ہی نہیں کی اور اب ان کو خود کو شادی
شدہ ثابت کرنےکے لیے کمپیوٹرائزڈ نکاح نامے کی ضرورت ہے ۔ ان کا نکاح نامہ
بھی رجسٹرار کی جانب سے جو ملا تھا گھر کے کاٹھ کباڑ میں کہیں گم ہو چکا
تھا بہت تلاش بسیار کے بعد اس نکاح نامے کو تلاش کیا گیا اور پھر اس کو لے
کر نادرہ کے دفتر حاضر ہو کر کمپیوٹرائزڈ کروایا گیا اور اس کی بنیاد پر
انہوں نے خود کو شادی شدہ ثابت کیا-
مگر ب فارم کے حصول میں اب بھی بہت ساری رکاوٹیں موجود تھیں اور وقت پر لگا
کر اڑتا جا رہا تھا انہوں نے ماضی کی طرح اب بھی رشوت دینے کی کوشش کی مگر
نادرہ کے نظام کے سبب ان کی رشوت بھی ان کے کاموں کے نیچے پہیے لگانے میں
ناکام ثابت ہوئی-
اب مرحلہ تھا ان کی بیگم کے شناختی کارڈ کا کیوں کہ گھر یلو خاتون قرار دیے
جانے کے سبب ان کا شناختی کارڈ بنانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی- خیر
نکاح نامے اور ان کی بیگم کے والد کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر بیگم کا
شناختی کارڈ بنوانے کے لیے بھی دے دیا گیا مگر ان تمام کاموں میں ان صاحب
کا تقریباً ایک مہینہ صرف ہو گیا-
|
|
اس دوران ان صاحب نے بچوں کے کمپیوٹرائزڈ پیدائش کے سرٹیفیکیٹ بھی بنوا لیے-
ایک مہینے بعد جب میاں بیوی دونوں کے شناختی کارڈ ملے تب جا کر ب فارم بننے
کی کاروائی کا آغاز ہوا جس میں مزيد پندرہ دن لگ گئے-
ان تمام کوششوں میں ان صاحب کے کاروبار کا بھی بہت نقصان ہوا کیوں کہ وہ
اپنا کاروبار چھوڑ کر دفتروں کے دھکے کھاتے رہے اور جب پندرہ دن بعد ب فارم
ان کے ہاتھ آیا تو ان پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کے بچے کے داخلے کا وقت گزر
چکا ہے اور وہ اپنے پیسے کے زور پر داخلہ نہیں کروا سکتے ہیں کیوں کہ اگلے
دن سے بچے کے بورڈ کے امتحان شروع ہو چکے تھے-
یہ کہانی صرف ایک انسان کی نہیں ہے ہم میں سے بہت سارے لوگوں کی ہے جو کہ
اہم کاغذات وقت پر بنانے کے بجائے ان کو ٹالتے رہتے ہیں اور وقت پر بھاری
نقصان اٹھاتے ہیں کیا آپ بھی تو ان میں سے ایک نہیں؟
|