لفظ "محبت" سنتے ہی ایک پر کیف' پر سکون اور دلفریب احساس
پیدا ہوتا ہے اور ذہن و دل اس بات پہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ جہاں محبت ہے
وہاں ہر چیز امان میں ہے۔ زندگی میں محبت کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا ہے
اور جس کے پاس یہ ہو تو تصور یہی کیا جاتا ہے کہ اس کی زندگی میں پھر کس
چیز کی کمی ہے۔ گویا محبت کا لفظ خوبصورت احساسات کا مجموعہ ہے۔
ہم اپنے اردگرد بہت سی رومانوی کہانیوں کو پنپتے دیکھتے ہیں بلکہ اب تو ہر
دوسرا شخص اس کہانی کو جیتا نظر آتا ہے۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس سے
انکار یقینا// انسانی فطرت سے انکار ہے۔ جب میں نے محبت کے وجود کو تسلیم
کر لیا اور اس کی اہمیت بھی بیان کر دی تو پھر میری تحریر کا عنوان کیوں ہے
"آؤ ڈھونڈیں محبت". اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ محبت کی اتنی کہانیاں ہوتے ہوۓ
محبت ناپید ہے۔
محبت صبر اور سکون ہے اور یہ دونوں جزبے %99 کسی بھی شخص کی طبیعت میں مشکل
سے ہی پاۓ جاتے ہیں یعنی معاشرے میں صبر و سکون کی بے حد کمی ہے۔ معاشرے
میں بہت سے لوگ اس بات کے دعویدار ہوتے ہیں کہ ان کی محبت کی عظمت کا کوئ
مقابلہ نہیں۔ اگر محبت ہے تو سکون کیوں نہیں؟ اگر محبت ہے تو صبر کیوں
نہیں؟آئیے دیکھتے ہیں ایسا کیوں نہیں۔۔۔
مشاہدے نے یہ واضح کیا ہے کہ اردگرد محبت کی کہانیاں الزام تراشی سے لے کر
قتل و غارت پر اختتام پزیر ہوتی ہیں۔ ذرا ٹھہریں اور سوچیں کہ کیا الزام
تراشی اور قتل و غارت محبت کے برابر آ سکتے ہیں؟ پھر یہ بھی دیکھنے میں آتا
ہے کہ محبت میں کمزوریاں پکڑی جاتی ہیں۔ آواز ریکارڈ کرنا، وڈیو بنانا
وغیرہ وغیرہ تاکہ ضرورت پڑنے پر بدلہ لیا جا سکے یا محبوب کو مٹھی میں قید
رکھا جا سکے۔ یہ ساری حرکات و سکنات کیا کسی محبت سے سرشار آدمی کی ہو سکتی
ہیں؟
کچھ خواتین کے نزدیک ان کے جزبات اتنے بامعانی ہوتے ہیں کہ وہ کسی کا گھر
خراب کرنے تک آ جاتی ہیں اور وہ اس وقت تک پیچھا کرتی رہتی ہیں جب تک مرد
اندھا ہو کے کوئ انتہائ قدم نہیں اٹھا لیتا یعنی اپنی شریک حیات کو طلاق
نہیں دے دیتا اور انہیں اپنا نیا شریک حیات نہیں بنا لیتا۔ کس قدر افسوسناک
عمل ہے کہ کسی قبرستان پہ خوابوں کا محل تعمیر کرنے کو عظیم محبت کا درجہ
دیا جاۓ۔
ایک وقت میں دس سے محبت کا وعدہ کرنا، جزبات کے ساتھ انتہائ سنجیدہ کھیل
کھیلنا۔۔۔مجھے کوئ شخص ایسا نظر نہیں آتا جو محبت کر کے یا پا کے خوش
ہے۔۔۔بہت کم۔ سب سسکیاں لیتے اور روتے دکھائ دیتے ہیں۔ اگر ایک فریق سنجیدہ
ہو بھی تو دوسرا محض کھلاڑی ہوتا ہے۔
اتنی کہانیوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جزبات کے طوفان کو محبت
اور عشق تصور کیا جاتا ہے۔ جو جتنا پاگل ہو کر دکھاۓ گا اس کو اتنی ہی محبت
ہے۔۔۔یہاں تک کہ جو خود سوزی کرے گا محبت اس نے جی تھی۔ اکثر محبت کو محبت
ملتی بھی نہیں۔ محبت کا سامنا اکثر نفرت یا کھیل سے ہو جاتا ہے اور یہ ایک
تکلیف دہ عمل بن جاتا ہے۔
اب جو میں لکھنے جا رہی ہوں یہ محض خوبصورت الفاظ کا چناؤ یا بیان کو مضبوط
کرنے کے لیے جملے نہیں ہیں۔ یہ اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں۔ یہ غور طلب جملے
ہیں۔۔۔
جو وسیع القلب نہیں اس کو محبت نہیں، جو اعلی ظرف نہیں اسے محبت نہیں، جس
کا صبر بے حد نہیں اسے محبت نہیں، جس کا جگر کڑا نہیں اسے محبت نہیں، جو
اپنے اندر سمندر نہیں اسے محبت نہیں۔ یہ آخری جملہ سمجھنے سے تعلق رکھتا
ہے۔ محبت کرنی ہے تو سمندر بننا ضروری ہے جو ہر تکلیف و رنج کو اپنے اندر
سمو لے اور حقیقت کو قبول کرنا سیکھے، ثابت قدم رہے اور جدائ کی صورت میں
رہائی کو عذاب نہ بناۓ۔ کسی کو قید رکھنا اور زبردستی اپنے پاس رکھنا نفرت
کے علاوہ کچھ دے نہیں پاتا۔
اوپر بیان کی گئی خوبیاں کیا نظر آتی ہیں کہیں؟انتہائ کم بلکہ نہ ہونے کے
برابر۔ محبت اور خلوص کسی شخص میں ملتا نہیں کہنے کو ہر کوئ مبتلاۓ مرض عشق
ہے۔ ہر شخص دوسرے سے خائف ہے کہ وہ اسے دھوکا دے گا اور اس کا دل دکھاۓ گا۔
ہمارے اردگرد پنپتی زیادہ تر رومانوی کہانیاں محض جزبات کا لین دین ہیں۔
بہت سے لوگ محبت کے تجربے سے گزرنے کے لیے محبت کرتے ہیں
*They fall in love with the idea of falling in love. They actually want
to feel how it feels*
اب آپ اپنی نظروں سے دیکھیں۔ سواۓ چند ایک کے کیا کسی محبت کی کہانی میں
محبت ہے؟تو پھر میں کیوں نہ کہوں "آؤ ڈھونڈیں محبت".....
|