رامائن ہندوستان کا مہابیانیہ (Metanarative) ہے۔
جو ہندوستان کی اجتماعی (Collectively) تہذیبی اور مذہبی روح کی نمائندگی
کرتا ہے۔ سناتن دھر م کی تبلیغ و تشہیر کے لیے رشیوں اور منیوں نے سنسکرت
زبان کو اپنایا۔ وید،رامائن اور مہابھارت جیسے مقدّس صحائف سنسکرت زبان میں
ہی لکھے گئے لیکن کوئی بھی مذہب زبان کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
مذہبی کتابیں بہت جلد زبان کے حصار سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس کا ترجمہ
دنیا کے مختلف زبانوں میں ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تلسی داس نے رام چرت
مانس کی تخلیق اودھی زبان میں تقریباً 1574میں کی۔ جس میں بھوج پوری اور
برج کی بولی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اس کو قلم بند کرنے میں تلسی داس کو دو
سال سات مہینے اور چھبیس دن لگے۔ شمالی ہندوستان میں رام چرت مانس کونہایت
عقیدت آگیں نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ گھر گھر میں رام چرت مانس کا پاٹھ
(تلاوت) ہوتا ہے اور دشہرہ کے خاص موقع پر جگہ جگہ رام لیلا منعقد ہوتی
ہیں۔
ہندوستانی ادبیات میں دو رزمیہ صحائف ہیں۔ایک رامائن اور دوسرا مہابھارت
ہے۔ان کی ابدی(Eternal) جمالیاتی(Aesthetic)، قدریاتی(Axiological)،
علمیاتی(Epestimological) ، وجودیاتی (Existential)،
عرفانیاتی(Ontological) ،قدسیاتی(Sacred Most) اور الوہیاتی(Divine Most)
معنویت اور قدر و قیمت ہے۔ بالمیکی رامائن سناتن دھرم کا پہلا رزمیہ صحیفہ
ہے۔ جو مہابھارت سے قبل دوسری یا تیسری صدی میں وجود میں آ چکا تھا۔اس
صحیفہ میں بھگوان شری رام چندر جی کے حالات زندگی کا بیان طویل ترین نظمیہ
پیرائے میں کیا گیا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبودکے لیے رام نے سرزمین ہندوستان
میں مثال(آدرش) قائم کرنے کے لیے اوتار لیا۔ رام مریادا پرشوتم تھے۔ دشرتھ
اور کوشلیہ کے فرمابردار بیٹے تھے۔ رام بھرت، شتروگھن اور لکشمن کے شفیق
بھائی تھے۔ رام سیتا کے محبت شعار خاوند تھے۔ رام اجودھیا کے فرض شناس تھے۔
رام جری سپہ سالار تھے ۔رام بے گناہ اور مظالم کے دوست تھے۔ رام رحم وکرم
کرنے والے تھے اوررام انصاف پسند، غریب پرور اور ایثار و قربانی کی زندہ
مثال تھے۔ رام رامائن کے مثالی کردار ہیں۔ انھوں نے عوام کے لئے ایک روشن
مثال قائم کی ہے کہ بیٹوں کو فرمابردا ر، بھائیوں کا باہم برادرانہ پیار و
یگانگت ،میاں بیوی کے درمیان محبت،وفا او رایثار و قربانی کا جذبہ ،بادشاہ
کو انصاف پسند، غریب پرور ، رحم و کرم نواز ہونا ناگزیر ہے۔ رام نے جو آدرش
رامائن میں پیش کئے ہیں وہ صرف کسی ایک خاص فرقہ یا قوم تک محدود نہیں ہیں
بلکہ وہ آ فاقی اور عالمگیرکردار کا امین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کے تمام
زبانوں میں رام کی عظمت کا اعطراف ہوا ہے۔بالمیکی نے سب سے پہلے بھگوان شری
رام چندر جی کے حالات زندگی کا بیان عوامی سنسکرت زبان میں نظم کے پیرائے
میں کیا ہے۔بالمیکی کے مطابق(بال کانڈ سرگ ۴) رامائن میں چوبیس ہزار(۲۴۰۰۰)
اشلوک تخلیق کیے۔ جو پانچ سو سرگوں میں تقسیم تھے لیکن موجودہ دورمیں
رامائن کے تین طرح کے متون مروج ہیں۔ اودیچیہ،دکشنالیہ اور پراچیہ(گونڈئی)۔
ان تینوں متنوں میں خاصہ فرق ہے۔ ان میں سے کسی بھی متن میں نہ تو چوبیس
ہزار اشلوک ہیں اورنہ ہی پانچ سو سرگ ہیں۔ بالمیکی رامائن سات ابواب میں
منقسم ہے۔ جو حسب ذیل ہیں:
۱۔ بال کانڈ :
بال کانڈ کو آدی کانڈ بھی کہتے ہیں۔ اس باب میں ستی کا موہ، شیوپاروتی کا
مکالمہ، رام کی پیدائش، منی وشوامتر کے قربان گاہ کی حفاظت کرنا، دھنش کا
ٹوٹنا اور سیتا رام کی شادی وغیرہ کا بیان ملتا ہے۔
۲۔اجودھیا کانڈ :
اس باب میں راجیابھشیک کی تیاری،سیتا رام کا مکالمہ، دشرتھ کا انتقال،بھرت
اور کیکئی کا مکالمہ اور بھرت کا چترکوٹ سے اجودھیا واپس پہنچنے کا بیان
بالمیکی نے کیا ہے۔
۳۔ ارنیہ کانڈ :
اس باب میں جینت کی بدی،سیتا اور انوسیا ملن، رام لکشمن اور سیتا کا پنچوٹی
میں رہنا، کھردوشن قتل ،ماریچ قتل، سیتا ہرن اور شبری پر رحم و کرم کا بیان
ملتا ہے۔
۴۔ کشکندھا کانڈ :
اس باب میں بالمیکی نے رام ہنومان کا ملن، بالی قتل،رام اور لکشمن کا
سیتاکو جنگل میں ڈھونڈھنااور ہنومان و جامونت کے مکالمہ کا بیان کیا ہے۔
۵۔ سندر کانڈ :
اس باب میں ہنومان کا لنکا میں داخل ہونا،سیتا اور ہنومان کا مکالمہ، رام
کا مع افواج لنکا میں جانا اور وبھیشن کے نجات وغیرہ کا بیان ملتا ہے۔
۶۔ لنکا کانڈ:
اس باب میں سمندر پر پُل باندھنا، انگد اور راون کا مکالمہ،لکشمن اور
میگھناد جنگ،لکشمن کا بے ہوش ہونا، کمبھکرن کا قتل،میگھناد قتل، راون قتل
اور سیتا کے اگنی پریکشا دینے کا بیان بالمیکی نے نظمیہ رنگ و آہنگ میں
نہایت افسانوی آب و تاب کے ساتھ کیا ہے۔
۷۔ اُتّر کانڈ:
اس باب میں بھرت اور ہنومان کا ملن، بھرت ملاپ، رام کاراجیہ بھشیک، رام کا
عوام کو نصیحت دینا، گرُن و بھشنڈی کا مکالمہ اور کاک بھشنڈی و لومش کے
مکالمہ کا بیان کیا گیا ہے۔
تحقیقی نقطۂ نظر سے یہ سوالات نہایت اہم اور معانی خیز ہیں۔کیا بالمیکی
رامائن قدیم رامائن ہے ؟ مزید براں بالمیکی رامائن کیسے وجود میں آئی؟
بالمیکی رامائن قدیم رامائن نہیں ہے۔ بالمیکی رامائن سے قبل’’
ـــمہارامائن‘‘ نام کاایک عظیم اور ضخیم رزمیہ صحیفہ ست جگ میں موجود تھا۔
جس کو بھگوان شنکر نے سوایمبھو منونتر سے قبل ست جگ میں اپنی اہلیہ پاروتی
کو سنایا تھا۔جس وقت بھگوان شنکر رام کتھا پاروتی کو سنا رہے تھے اس وقت
کاک بھشنڈی بھی کیلاش پربت پرموجودتھے۔ انھوں نے بھگوان شنکر کو پاروتی سے
رام کتھا کہتے ہوئے سنا۔ پھر کاک بھشنڈی نے گرُن کو رام کتھا سنائی۔ اس مہا
رامائن میں تین لاکھ پچاس ہزار اشلوک تھے۔ جو سات ابواب میں تقسیم تھے لیکن
موجودہ دور میں یہ مہارامائن اب دستیاب نہیں ہے۔بالمیکی رامائن کے وجود میں
آنے کے ضمن میں رامائن کے بال کانڈ میں ایک کہانی درج ہے کہ تمسا کے دکن
میں ایک آشرم میں رہنے والے بالمیکی نارد سے رام کتھا کا خلاصہ سن کر اور
بعد میں اشلوک کی ایجاد کرکے برہما کے کہنے پر رام کتھا نظم کرتے ہیں اور
اپنی اس تخلیق کو لو اور کُش کو سکھلاتے ہیں۔ــ یہ دونوں رامائن کی کہانی
کو مختلف جگہوں پر گاتے پھرتے ہیں۔اسی رام کہانی کو اجودھیا کے راج محل میں
رام اور اُن کے بھائیوں کو سناتے ہیں۔ اتّر کانڈ کے مطابق سیتا بالمیکی کے
آشرم میں لو اور کُش کو پیدا کرتی ہیں۔ وہ بالمیکی سے رامائن سن کر رام کے
قربان گاہ (یگیہ کی جگہ) پر سناتے ہیں۔ رامائن سن کر رام سیتا کو بُلواتے
ہیں اور بالمیکی سیتا کو لے کر اجودھیا کے راج محل میں سیتا کے پاک دامنی
کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
سنسکرت زبان میں وید ویاس نے مہابھارت کے بن پرب میں راموپاکھیان،کالی داس
نے رگھوونش، بھوبھوتی نے اُتّر رام چرت، چھیمیندر نے رامائن منجری،
چندبردائی نے پرتھوی راج راسو،کیشو داس نے رام چندرکااور رام پارشو نے شری
رام پنچ شتی کی تخلیق کی۔ ہندوستانی زبانوں میں رنگ ناتھ کی رنگ ناتھ
رامائن تیلگو زبان میں،ثرلا داس نے اتکل (اُڑیا)زبان میں،گوروگووند سنگھ کی
پنجابی زبان میں رامائن، ایک ناتھ نے مراٹھی زبان میں بھاوارتھ
رامائن،رامانجم ایشوتچھن نے ملیالم زبان میں ادھیاتم رامائن، تمل میں کمبن
نے کمبن رامائن، کُمار بالمیکی نے کنّڑ زبان میں توروے رامائن ،بھانوبھگت
نے نیپالی زبان میں ادھیاتم رامائن،گردھر نے گجراتی زبان میں گردھر
رامائن،کشمیری زبان میں دواکر پرکاش بھٹّ کی کشمیری رامائن ، کرتی واس
اوجھا نے کرتی واس رامائن بنگالی زبان میں اور اسمیا زبان میں مادھوکندلی
نے مادھو کندلی رامائن کی تخلیق کی ہے۔
فارسی زبان میں پہلا ترجمہ اکبرِ اعظم کے حکم سے ایک دیندار مسلمان
عبدالقادر بدایونی نے 1589 میں نثر میں کیا تھا۔ اس کے بعد شہنشاہ جہاں گیر
کے عہد حکومت میں رامائن کے دو اہم تراجم فارسی زبان میں منظوم ہوئے۔ ایک
ملا سعد اﷲ مسیح کیرانوی نے کیا تھا، جس میں اشلوک کی تعداد 5407 ہے اور
دوسرترجمہ ا گردھر داس نے کیا تھا، جس میں اشلوک کی تعداد 5900ہے۔اس کے
علاوہ فارسی زبان میں گوپال نے 1645، چندر امن بیدل نے ایک رام کتھا 1685
اور دوسری رام تکھا ’’نگارستانِ رام‘‘ کے نام سے1693 میں شائع کی تھی۔ جس
میں اشلوک کی تعداد 4906ہے۔ امر سنگھ نے 1705میں ’’امر پرکاش‘‘ کے نام سے
رام کتھا شائع کی تھی۔ امانت رائے لالپوری نے فارسی زبان میں عظیم رام کتھا
کی تخلیق کی تھی۔ اس صحیفہ کو ترجمہ کرنے میں مترجم کو پچیس برس لگ گئے۔ اس
عظیم صحیفہ میں چالیس ہزار اشلوک ہیں۔ 1735میں محمد شاہ رنگیلے کے عہد میں
پنڈت سمیر چند نے رام کتھا فارسی زبان میں تخلیق کی۔ اس عظیم صحیفہ کو رضا
لائبریری رام پور نے تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ فارسی زبان
میں رامائن لکھنے والوں میں رام داس مصر،جگن کشور حسن فیروزابادی، منشی
بانکے لال زار، مکھن لال ظفر، دیوی داس، ہری ولبھ سیٹھ، رام مہادیو ولی،
منشی پرمیشوری ہائے، منسی ہری لال رسوا، موہن سنگھ، آنند دھن خوش اور جئے
کشن عشرت وغیرہ خاص طور سے ہیں۔
رامائن اپنی آفاقیت(universality)کے باعث قومی سراحد کی شکست و ریخت کرتا
ہے اور اپنی عالم گیر معنویت و اہمیت کے سبب دنیا کے مختلف زبانوں میں
وقتاً فوقتاً ترجمہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔بیرون ممالک میں بھی رامائن کے
ترجمہ خوب ہوئے۔ مثلاً تھائی لینڈ کی رامائن رام کین یعنی رام کیرتی،
کمبوڈیا کی رامائن رام کیر، ملیشیا کی رامائن حکایت شری راما، جاوا کی
رامائن کاک ون، چین کی رامائن کان سنہوی اور تبّت کی کھیتانی رامائن بہت
مشہور ہیں۔
سناتن دھرم کا زیادہ تر تبلیغی ادب اردو زبان میں ہے۔ یہ ذخیرہ اتنا بڑا ہے
کہ ہندو مذہب سے متعلق ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں اُردو میں
ہندو مذہب کا سرمایہ اگر سب سے زیادہ بھی نہیں ہے تو کسی سے کم بھی نہیں ہے
بلکہ بیش تر زبانوں سے زیادہ ہے۔ اس وسیع اور بیکراں ادب کو نظرانداز نہیں
کیا جا سکتا ہے۔ تمام زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی رامائن کے بے بہا
تراجم ہوئے۔ اُردو کا مزاج ہمیشہ سے ہی سیکولر رہا ہے اور مذہبی رواداری اس
کے خمیر میں داخل ہے۔ ہندو شعرا و ادباء کے شانہ بشانہ مسلم ادباء و شعرا
نے بھی رام کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ جنھوں نے اردو زبان میں
نظم،غزل،مثنوی،رباعی،ناول اور ڈرامہ کی ہیت میں رامائن نظم کی ہے۔ ہماری
تحقیق کے مطابق اردو زبان میں تقریباً ڈیڑھ سو رامائن اب تک شائع ہو چکی
ہیں۔ اردو زبان کی پہلی رامائن گنگا بشن نے 1766میں تحریر کی تھی۔ یہ
مخطوطہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس
رامائن کو راجا بنارس نے 1852 میں شائع کرایا تھا۔ رامائن کا دوسرا ترجمہ
لکھپت رائے مانکپوری نے 1863 میں شائع کیا۔ یہ رام کتھا ایک سو پچاس صفحات
پر مبنی ہے۔ منشی جگناتھ لال خوشتر نے 1850 میں رامائن کی تخلیق کی تھی اور
اسے سب سے پہلے اودھ کے نواب واجد علی شاہ کو پیش کیا تھا۔ اس رام کتھا کو
منشی نول کشور نے لکھنؤ سے 1864 میں شائع کیا تھا۔ نے شائع کی ہے۔ منشی
شنکر دیال فرحت نے رامائن1764میں منشی نول کشور لکھنؤ نے طبع کی ہے۔ اس رام
کتھا کی اہمیت اورعظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کو منشی
نول کشور لکھنؤ نے اس رامائن کے سترہ ایڈیشن شائع کیے ہیں۔منشی رام سہائے
تمنا نے مختصر اور عظیم دس رام کتھائیں اردو زبان میں تحریر کی ہیں۔ اردو
میں رامائن نظم کرنے والوں میں خاص طور پر شنکر دیال فرحتؔ،دوارکاپرساد
اُفقؔ،بانکے بہاری لال بہار ،جوالا پرساد برقؔ، سورج نرائن مہرؔ،جگنّاتھ
خوشتر،ہری نرائن شرما ساحرؔ،پنڈت سدرشن،سورج پرساد تصوّر ،بنواری لال
شعلہ،بابو لال نبودی،شری سکھ دیو لال، پنڈت لچھمی دتّ، شیو پرساد
راحلؔ،منشی رگھوبر دیال،بابو رام سہائی کپور،شیو برت لال ورمنؔ، پنڈت رادھے
شیام، نانک چند نانکؔ،بیدی لال چند لال، ستیہ پال بھاردواج، ہیرا لال
موریا، شیو ناتھ رائے تسکینؔ،پنڈت میلا رام وفاؔ ،منشی جگنّاتھ اطہرؔ، رگھو
نندن سنگھ ساحرؔ دھلوی اور منشی رام سہائے تمنّاؔ کے دوش بدوش معاصر ادب کے
نمائندہ ادباء و شعرا میں جناب مہدی نظمی،طالب الہ آبادی،نفیس خلیلی، رند
رحمانی، محمد امتیاز الدین خاں اور صفدر آہؔ وغیرہ کے نام قابلِ ذکر و
فکرہیں۔ اس کے علاوہ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں رامائن کے معتبر
، مستند اور موقر تراجم کی بنیاد پر آج کل نئے شعری فوق متن(Meta Text) کے
تصوّر کے زیرِ اثر ہند و پاک میں نت نئے شعری تجربات ہو رہے ہیں اور یہ
نظمیہ فوق متون اُردو ادب میں نئی کنواری برف توڑنے اور نئی زمین کو
ڈھونڈھنے کے مترادف ہے۔ اس سے کلاسیکی رامائنی ادب کی بیکراں ادبی و شعری
مقبولیت اور محبوبیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بزرگ اور افضل نامور
شعرا میں پنڈت برج نرائن چکبست ، سرور جہان آبادی،فراقؔ گورکھپوری سے یہ
سلسلہ عمیق حنفی، راج نرائن رازؔ، کُمار پاشی، بمل کرشن اشک اورکرشن موہن
سے ہوتا ہو ستیہ پال آنند اور صلاح ادین پرویز تک مسلسل قائم ہے۔
رانی کیکئی کی خواہش تھی کہ اُس کا بیٹا بھرت اجودھیا کی راج گدّی پر نشین
ہو اور رام چودہ برس کا بنواس بھوگیں۔ مہدی نظمی نے رانی کیکئی کی تصویر
کتنی خوبصورتی کے ساتھ کھینچی ہے۔ رانی کیکئی کا راجہ دشرتھ سے ور مانگنا،
رام کی فرمابرداری اور راجہ دشرتھ کا بے ہوش ہو کر گرنا بہت ہی کامیابی کے
ساتھ پیش کیا ہے۔
اک روز ہنس کے کیکئی بولی کہ اے حضور
Cہر شخص یاد رکھتا ہے اپنا وچن ضرور
Iتھا آپ کا یہ قول کہ اے شاہِ نیک خوں
;پوری کریں گے آپ مری اک آرزو
Eدشرتھ یہ بولے اپنا سخن یاد ہے مجھے
Eجو تم کو دے چکا وہ وچن یاد ہے مجھے
Iچرنوں کو چھو کے کیکئی بولی بہ احترام
Kمیں چاہتی ہوں آپ سے اے شاہِ نیک نام
Oجنگل میں گھر سے رام کو بے آس بھیج دیں
Cچودہ برس کے واسطے بن واس بھیج دیں
Kیہ آرزو ہے میری کہ اے شاہِ خاص و عام
Aمیرا پسر بھرت کرے شاہی بجائے رام
Eجاتے ہیں بن کو رام زمانہ ہے سوگوار
Eہے بوڑھا باپ دردِ جدائی سے بے قرار
Cکہتی ہے رو کے ساری رعایا نہ جائیے
?چودہ برس کو جانبِ صحرا نہ جائیے
رام رامائن کے مرکزی کردار ہیں۔ اُردو شاعری میں نہ صرف رام کی عظمت،
علویت،قدسیت اور الوہیت کا بھرپور اعطراف کیا گیا ہے بلکہ ان سے متعلق
دوسرے کرداروں کے احساسا ت ، جذبات ،اخلاقیات،محسوسات ،جمالیات اور اوصاف
کی بھرپور شعری ترجمانی کی گئی ہے۔ رام کے بنواس جانے کی خبر جب سیتا کو
ہوتی ہے تو وہ گھبرا جاتی ہے اور رام کے پاس پہنچ کر اپنا درد بیان کرتی
ہے۔ اس ضمن میں رگھونندن سنگھ ساحرؔ دہلوی لکھتے ہیں :
رام کے بن جانے کا جب علم سیتا کو ہوا
Gچہرۂ روشن وفورِ غم سے پھیکا پڑ گیا
Gرام کو کرکے مخاطب اس طرح اُس نے کہا
Iآپ کے ہمراہ میں بن کی کروں گی یاترا
Uآپ جائیں گے جہاں میں بھی وہیں پر جاؤں گی
ورنہ گھُل گھُل کر فراقِ دید میں مر جاؤں گی
فرما بردار رام چودہ برس کے بن باس کے لئے اپنی اہلیہ سیتا اور شفیق بھائی
لکشمن کے ساتھ جنگل کو رخصت ہوتے ہیں۔ دشرتھ سے اجازت لینے کے بعد رام اپنی
ماں کوشلیا کے پاس رخصتی مانگنے جاتے ہیں۔ رام کا ماں سے والہانہ محبّت اور
ماں کا بیٹے سے جدائی کا منظر جذبات نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔رخصتی کے وقت
رام اور کوشلیا کے مکالمہ کی تصویر پنڈت برج نرائن چکبستؔ نے اپنی نظم’’
رامائن کا ایک سین‘‘ میں بڑے ہی والہانہ انداز سے پیش کیا ہے۔ اس کی شعری
معنویت، سوز و گداز اور ا لمیہ تاثر انگیزی کو ملاحظہ کیجئے۔
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
?راہِ وفا کی منزل اوّل ہوئی تمام
Eمنظور تھا جو ماں کی زیارت کا انظام
Gدامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام
Cاظہار بے کسی سے ستم ہو گا اور بھی
Iدیکھا ہمیں اُداس تو غم ہو گا اور بھی
Cدل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
?خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال
Qدیکھا تو ایک در میں بیٹھی ہے وہ خستہ حال
Eسکتا سا ہو گیا ہے یہ ہے شدّتِ ملال
Cتن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
?گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے
Iرو کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں
Iمیں جانتی ہوں جس لیے آئے ہو تم یہاں
Iسب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
Qلیکن میں اپنے منھ سے ہرگز نہ کہوں گی ہاں
Sکس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں
Cجوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں
Kسن کر زباں سے ماں کے یہ فریاد درد خیز
Mاس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
Oعالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہو ں اشک ریز
Aلیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
Iسوچا یہی کہ جان سے بے کس گزر نہ جائے
Oناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے
( رام،سیتا اور لکشمن جنگل جنگل گھومتے ہیں۔ راستے میں انھیں ایک پتھّر کی
چٹّان ملتی ہے۔ رام کے پیر جیسے ہی اس پتھّر کی چٹّان پر پڑتے ہیں۔ وہ
چٹّان ایک خوبصورت عورت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوتم رشی کی بیوی اہلیہ بہت
خوبصورت تھی، راجہ اندر کو جب اس کا علم ہوا، تو اس نے اہلیہ کو دیکھا اور
اس پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ گوتم رشی کا بھیش بدل کر ان کی کُٹیا میں جاتا ہے۔
رشی روز صبح گنگا نہانے جاتے تھے۔ واپس آکر دیکھا کہ اندر روپ بدل کر کُٹیا
سے نکل رہا ہے۔ انھوں نے اہلیہ کو بد دعا دی اور اُسے پتھّر کی چٹّان بنا
دیا۔طالبؔ الہ آبادی نے اہلیہ پر رام کی بیکراں شانِ رحمانی ، شانِ رحیمی
اور شانِ کریمی کا کیمیا اثر جذبات انگیز منظر نامہ نہایت فنّی چابک دستی
سے پیش کیا ہے۔
اہلیہ پری تھی بڑی سندر تھی
Aبَری عیب سے تھی گنوں سے بھری تھی
7بڑی دلربا تھی بڑی باوفا تھی
Cوہ سیوا میں رہتی تھی ہر دم پتی کی
9کسی نے کہا راجہ اندر سے جاکر
7اہلیہ سے کوئی نہیں آج سندر
?یہ سن کے کہا راجہ اندر نے اچّھا
=کروں گا میں جلدی اہلیہ پر قبضہ
7رشی روز جاتے تھے گنگا نہانے
9جہاں مُرغ بولا چلے تڑکے تڑکے
?ابھی رات آدھی تھی بارہ بجے تھے
?رشی لیکن آواز پر اُٹھ کے بیٹھے
;رشی جی اِدھر چل پڑے سوئے گنگا
Cاُدھر راجہ اندر نے بھیس اپنا بدلا
Aرشی کی صدا میں پکارا ہے جو در پر
?اہلیہ یہ سمجھی کہ لوٹ آئے شوہر
Aکھلا در تو اندر ہوا گھر میں داخل
?جو دیکھا پری کو تو ٹھنڈا ہوا دل
7مگر ناگہاں ایک بجلی سی چمکی
;نہ معلوم کیوں لوٹ آئے رشی جی
Aجو گوتم نے دونوں کو دیکھا اکٹھّا
Gہوا اُن کی آنکھوں میں عالم اندھیرا
Cرشی جی نے جو دیں بد دعائیں تڑپ کر
9اہلیہ ہوئی بس اُسی وقت پتھّر
=گورو سے یہ سن کر ہوئے رام مضطر
Aقدم رکھ دیے اپنے پتھّر پہ بڑھ کر
=جہاں پر وہ چٹّان اب تک پڑی تھی
;اہلیہ وہیں ہاتھ جوڑے کھڑی تھی
Gجس عالم میں اُس وقت شوہر تھا اُس کا
?اُسی لوک میں بس اہلیہ کو بھیجا
\ راون کی بہن سوپرنکھا جنگل میں رام سیتا اور لکشمن کو دیکھتی ہے تو وہ
رام پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ رام سوپرنکھا سے کہتے ہیں کہ میں تو شادی شدہ
ہوں تم لکشمن سے شادی کر لو۔ لکشمن کے منہ کرنے پر وہ سیتا پر حملہ کر دیتی
ہے، رام سوپرنکھا کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آخر میں رام لکشمن سے کہتے
ہیں کہ اس کے ناک اور کان کاٹ لو۔ سوپرنکھا اپنے بھائی کھردوشن کے پاس جاتی
ہے ۔ کھردوشن اور رام لکشمن میں جنگ ہوتی ہے۔ جس میں کھردوشن مارے جاتے
ہیں۔ اس کے بعد سوپرنکھا راون کے دربار میں فریاد کرتی ہے۔اس ضمن میں پنڈت
رادھے شیام نے نہایت دل آویز انداز میں کیفیات نگاری کی ہے۔
کھردوشن کا ہوا رن میں کام تمام
Aشوپرنکھا کوپھر کہاں پل بھر وشرام
Aپڑے تیرے آرام پر اور جام پر خاک
9تیرے جیتے جی میری کٹ گئی ناک
]بھائی دو لڑکے رام لکھن اس دنڈک بن میں آئے ہیں
Uاور سنگ میں ایک سیتا نامی سُکماری لائے ہیں
Uبانکے اور لڑاکے ہیں گویا شمشیر انھیں کی ہے
]یوں پنچوٹی میں رہتے ہیں جیسے جاگیر انھیں کی ہے
]ناگاہ اُدھر میں نکل گئی اُ س ناری سے ملنا چاہا
aاُس سمئے نگوڑے لچھمن نے مجھ سے کچھ چھل کرنا چاہا
[تب میں نے تیرا نام لیا سنتے ہی اُس نے دی گالی
Wپھر میرے کان کتر ڈالے اور میری ناک کاٹ ڈالے
Uمیری ناک گئی سو گئی اب اپنی ناک سنبھالو تم
_جگ میں جب اونچی ناک نہیں تو نکٹا نام دھرا لو تم
]میرا تو دم اب ناک میں ہے ناکارے تیری دُہائی ہے
Wمیں جتنی رسوا ہوتی ہوں وہ سب تیری رسوائی ہے
r راون اپنے ماما ماریچ کی مدد لیتا ہے۔ ماریچ ایک خوبصورت سونے کے ہرن کا
بھیس بنا کر رام، سیتا اور لکشمن کے سامنے چوکڑی بھرنے لگتا ہے۔سیتا رام سے
سونے کے ہرن کو پکڑ لانے کے لیے کہتی ہے۔ رام ہرن پکڑنے کے لیے جاتے ہیں۔
سیتااور رام کے مکالمہ کو طالب الہ آبادی نے بڑی شاعرانہ اور فنکارانہ
لطافت کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔
مرگ نینی نے جس سمئے دیکھا مرگ کی اور
Iاسی سمئے رگھوناتھ سے بولی ہیں کر جور
Gرگھوکل بھوشن دکھ ہرن میرے جیون پران
Cداسی کی ونتی سنو دین بندھو بھگوان
Wمرگ ایسا دیکھا نہ سنا جیسا یہ سگھڑ سلونا ہے
[دیکھو تو سر سے پاؤں تلک سارا سونا ہی سونا ہے
]ہے ناتھ کھال لاؤ اس کی تو کُٹیا کا سنگار ہوگی
]سونے کے مرگ کی مرگ چھالا کیا ادبھت یادگار ہوگی
\ رام کے واپس نہ آنے پرسیتا گھبرا جاتی ہیں۔ سیتا لکشمن کو رام کی مدد کے
لیے بھیجتی ہیں۔ لکشمن سیتا کو کُٹیا کے اندر رہنے کی ہدایت کرتے ہیں اور
ایک لکیر دروازہ پر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک آپ اس کھینچی ہوئی
لکیر کے اندر رہیں گی آپ حفاظت سے رہیں گی اور لکشمن اپنے بھائی رام کو
تلاشنے نکلتے ہیں۔ اسی درمیان راون جوگی کا بھیس بدل کر سیتا کی کُٹیا کے
سامنے آتا ہے اور بھیک مانگتا ہے۔ راون سیتا کو لکشمن ریکھا کے باہر آکر
بھیک دینے کو کہتا ہے۔ اس سلسلے میں طالبؔ الہ آباد ی لکشمن ریکھا کی مان
مریادا اور راون کی فریب دہی کی شاعرانہ نشاندہی کرتے ہیں۔
سیتا کی آنکھوں نے دیکھا ایک بوڑھا جوگی آتا ہے
Wآواز اسی جوگی کی ہے وہ ہی جوگی کچھ گاتا ہے
Uہے مائی مجھکو بھکشا دے مرتبہ ہے اعلیٰ تیرا
Uبھگوان تجھے جیتا رکھے ہو سدا بول بالا تیرا
]یہ سوچ کے جوگی بول اُٹھا ریکھا کے باہر آ مائی
Wجوگی بابا لیتے نہیں اس طرح بندھی بھکشا مائی
_سیتا نے کہا چھما کرئیے میں ریکھا چھوڑ نہیں سکتی
]یہ آن ہے میرے دیور کی میں اس کو توڑ نہیں سکتی
Wریکھا کے باہر آتے ہی اُس جوگی نے بانا بدلا
Wراون راون ہو گیا وہیں وہ ٹھاٹھ فقیرانہ بدلا
„ جنگل میں رام ماریچ کو تیر مارتے ہیں۔ تیر لگتے ہی سونے کا ہرن ماریچ بن
جاتا ہے۔ راون سیتا کو رتھ پر بٹھا کر پنچوٹی سے آسمان کی جانب اُڑا کرلے
جاتا ہے۔جٹایو سیتا کو آہ و جاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جٹایو راون سے سیتا
کو چھوڑنے کے لیے کہتا ہے۔ جٹایو ناکام ہوکر راون سے جنگ کرتا ہے اور بد
حواس ہو کر گر جاتا ہے۔رام اور لکشمن سیتا کی جدائی میں در در بھٹکتے رہتے
ہیں۔ راستے میں ان کی ملاقات جٹایو سے ہوتی ہے۔جو راون کے حملہ سے گھائل
اور خون سے شرابور تھا۔ جٹایو رام کو بتاتے ہیں کہ لنکا کا راجہ راو ن سیتا
کو اُٹھا لے گیا ہے۔بھوکے پیاسے رام اور لکشمن سیتا کے غم میں در بدر تلاش
کرتے رہتے ہیں۔ راستے میں انھیں دلت شبری کی کُٹیا ملتی ہے۔ دلت شبری رام
سے بے پناہ والہانہ عقیدت رکھتی ہے ۔ رام اور لکشمن کو کھانے کے لیے وہ بیر
لاتی ہے اور چکھ چکھ کر بیر اپنے پربھو رام کو کھانے کے لیے دیتی ہے۔ پربھو
رام شبری کے جوٹھے بیر کو بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں۔ وہ لکشمن سے بھی بیر
کھانے کے لیے کہتے ہیں۔ لکشمن بیر کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ شبری کے
جوٹھے بیر کھلانے کی تصویر طالبؔ الہ آبا دی نے اپنی مایۂ ناز شعر ی تصنیف
’’سیتا رام‘‘ میں بڑے جذبات آفریں رنگ و آ ہنگ میں پیش کیا ہے۔ جو قابلِ
دید ہے۔
سُندر پتّوں کے آسن پر اپنے پربھو کو بٹھلاتی ہے
_میہمانی کے کچھ بیروں کو ڈلیا میں بھر کر لاتی ہے
iپریمکا کا سچّا پریم دیکھ رگھوناتھ جی ہاتھ بڑھاتے ہیں
_جھوٹے بیروں کو بیر بیر خوش ہو کر بھوگ لگاتے ہیں
aلکشمن تم نے کھایا ہی نہیں دیکھو تو کیسا میٹھا ہے
_پاتال سے لے کر سورگ تلک جو ہے وہ اس سے پھیکا ہے
ö سیتا کو ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے رام اور لکشمن کی ملاقات کشکندھا کے راجہ
سگریو سے ہوتی ہے۔ جہاں ان لوگوں کو ہنومان اور جامونت ملتے ہیں۔ سگریو
اپنے بھائی بالی کی شکایت رام سے کرتا ہے کہ اس نے اس کی بیوی کو اس سے
چھین لیا ہے۔ اس کے بعد رام بالی کا قتل کر دیتے ہیں۔ ہنومان سیتا کی تلاش
میں سمندر پار کرکے لنکا پہنچتے ہیں جہاں پر ان کی ملاقات سیتا سے ہوتی ہے
اور رام کی انگوٹھی سیتا کو دیتے ہیں۔ جسے پاکر سیتا کو قلبی اور روحانی
راحت محسوس ہوتی ہے۔ سیتا بدلے میں اپنی چوڑی بھگوان رام کو بھجواتی
ہیں۔سیتا کا ہنومان کو دیکھ کر گھبرانا، ہنومان کا سیتا کو رام کاپیغام
دینا اور سیتا کو ہنومان کے انگوٹھی دینے کی تصویرپنڈت رادھے شیام اس طرح
کھینچی ہے۔
بجرنگ بلی نے جب دیکھا ماتا تو مجھ سے ڈرتی ہیں
aپیچھے کو ہٹتی جاتی ہیں کچھ بات چیت نہیں کرتی ہیں
_تب کہا انھوں نے ہے ماتا اپنے دین و ایماں کی قسم
aکرُنا ندھان کا دوت ہوں میں مجھکو اپنی جاں کی قسم
]پیارے کی پیاری مندری یہ لایا ہوں بطور نشانی کے
gہاں اچھّے ہیں دونوں بھائی جیون دھارن ہیں بن پانی کے
¢ ہنومان کا اشوک واٹکا میں پھل کھانا، پیڑوں کو درہم برہم کرنا، راون کے
دربار میں ہنومان کے آنے کی خبراور ہنومان کا لنکا میں آگ لگانے کا منظر
طالبؔ الہ آ بادی بڑی انسانی بصیرت اور فنّی چابک دستی سے کرتے ہیں ۔
اب توہنومان باغ میں آئے
7پھل پہ پھل توڑ توڑ کر کھائے
5ڈالیوں پر اچک کے کھاتے تھے
3پیڑ سے پیڑ پر وہ جاتے تھے
3جب کہ اچھے کُمار مارا گیا
5تھا جو راون کا لاڈلا بیٹا
/باغ میں میگھناد تب آیا
5ساتھ تھی اس کے اک بڑی سینا
1سب کو ہنومان نے حلال کیا
1خون سے پرتھوی کو لال کیا
1وہ دیا میگھناد کو مُکّا
5بس وہیں اس کو آ گئی مرچھا
5کہا راون نے خوب ہنس ہنس کر
;کیوں بے بندر تو آ گیا پھنسکر
7دونوں میں دیر تک ہوئی تکرار
5کہا راون نے سب سے آخر کار
3اب کرو بس سزا یہ تم اس کی
3مثلِ مشعل جلاؤ دُم اس کی
7چیتھڑے خوب دُم میں کس کس کر
1تیل مٹّی میں ڈال کر اوپر
7آگ لوگوں نے جس گھڑی دے دی
7آئی اُ س وقت زور سے آندھی
1اب چلے کود کود کر ہنومان
5آگ کا شہر میں اُٹھا طوفان
5چھت سے چھت پر کود جاتے تھے
7آگ ہر گھر میں وہ لگاتے تھے
7ہو گئے خاک جل کے لاکھوں گھر
3سارے لنکا میں مچ گیا محشر
r اسی طرح پنڈت رادھے شیام نے ہنومان کا اشوک واٹکا میں درختوں کو پامال
کرنا، پھل کا توڑنا ،پھل کا کھانااور اندرجیت و ہنومان کا مکالمہ بہت ہی
خوبصورتی کے ساتھ نظمیہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔
جس ڈال پر دیا ہاتھ وہ ڈالی پھر پامال ہوئی
Yکچّے توڑے پھل ڈالے ہی باٹکا ساری بے حال ہوئی
]برکشوں کو پکڑ ہلاتے تھے کلکار مار کر دھاتے تھے
cجب ایک کا ناش بناش کریں پُن اور کو جائے ہلاتے تھے
]بھر گیا پیٹ اور بھوک مٹی اُتپات مچایا ہنومت نے
]وِدھونش باٹکا کر ڈالی برکشوں کو بہایا ہنومت نے
aمیں اندرجیت کہلاتا ہوں کیا نام تونے سن پایا نہیں
mبیریوں کو کر ودھونش دیوؤں کیوں تم کو ہوش کچھ آیا نہیں
eتو مچھر ہے مم درشٹی میں بل تجھے دکھا کر کیا لوں گا
aجب دیو راج کو جیت چکا تو تم کو پھر کیا سمجھوں گا
eیدی دیکھنا بل میرا چاہتا ہے تو راون کو بھی بلوا لے
[باپ اور بیٹا مل کر دونوں بل بکرم میرا ازما لے
_میں سیوک ہوں رگھورائی کا کیا نہیں جانتانام میرا
]پربھو کرپا سے ہننا تم کو کیول ہے ادنا کام میرا
h اس کے بعد ہنومان جی سمندر پار کرکے بھگوان رام کے پاس جاتے ہیں۔ ماتا
سیتا کا پیغام رام کو دیتے ہیں۔ رام لکشمن، ہنومان،سگریو،جامونت اور انگد
وغیرہ کی مدد سے پُل باندھتے ہیں اور فوج لے کر لنکا پہنچتے ہیں۔ وبھیشن
اپنے بھائی راون کو بہت سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ ناکام رہتا ہے۔
راون وبھیشن کو بے عزّت کرکے دربار سے نکال دیتا ہے۔ وبھیشن رام کے پاس
پہنچتاہے۔ رام اس کی بڑی عزّت کرتے ہیں اور اسے اونچا مرتبہ دیتے ہیں۔ لنکا
فتح کے بعد وبھیشن کو لنکا کا راجہ بنا دیتے ہیں۔ راون کا بیٹا میگھناد بڑا
بہادر تھا۔ میگھناد اور لکشمن کی جنگ ہوتی ہے۔ جس میں لکشمن بے ہوش ہو جاتے
ہیں۔ رام بھائی کے غم میں آہ و جاری کرتے ہیں۔ فریاد کرتے ہیں۔ بید راج کے
کہنے پر ہنومان کشکندھا پہاڑ پر جاتے ہیں۔ وہ بوٹی کو پہچان نہیں پاتے ہیں
تو پوراپہاڑ ہی اُٹھا لاتے ہیں اور لکشمن کو دوبارہ زندگی نصیب ہوتی ہے۔ اس
ضمن میں طالب الہ آبادی فرماتے ہیں۔
بوٹی لانے کو جب چلے ہنومان
9تب اُٹھا دشمنوں میں اک طوفان
1کالنومی کو بھیجا راون نے
1جاکے جنگل میں راستہ روکے
5بن میں ہنومان جس گھڑی آئے
7پیا س سے تھے بہت وہ مرجھائے
5بوٹیوں سے بھرا تھا وہ پربت
3پتّیوں سے لدا تھا وہ پربت
1بوٹی ہنومان نے نہ پہچانی
/تب تو چٹّان ہی پڑی لانی
3لائے اس شان سے جو وہ بوٹی
/ہوئے چنگے ترنت لچھمن جی
دھیرے دھیرے اس عظیم جنگ میں کنبھکر ن جیسا بہادر اور راون کے سارے دلاور
بیٹے مارے جاتے ہیں۔ مندودری اپنے شوہر راون کو آخری وقت تک سمجھانے کی
کوشش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سیتا رام کو واپس کر دے لیکن راون انتہائی
مغرور ، ضدّی، سرکش اور ظالم تھااور وہ خود کو انتہائی انانیت کے باعث
ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا۔ اس کے مزاج میں انتہائی درجہ کا اضطراب اوتحرُّک
تھا۔ اس کا ہرانانیت بھرا عمل جوشِ تحرُّک، جوشِ تموّج اور جوشِ تلاطم سے
بھرا ہوا تھا۔ جس کے باعث اس کے تمام شر آگیں اعمال عدمِ توازُن اور گناہ
کی جانب مرکوز ہو جاتے تھے۔ وہ اپنی دُنیاوی دولت (سونے کی لنکا) پر بیحد
نازاں اور فخرکُناں تھااور روحانی دولت سے مالامال رام کو انتہائی حقارت سے
دیکھتا تھا۔ رامائن میں رام اور راون کے جنگ کی عکاّسی نہایت جمالیاتی اور
اقداری آن بان شان سے کی گئی ہے اور یہ بنیادی طور پر نیکی اور بدی کا ابدی
رزمیہ ہے۔ رامائن میں میدانِ دین(دھرم کشیتر) کی فتح اورانانیت آگیں اور شر
آگیں عمل کے میدان(کرم کشیتر) کے شکست کی ترجمانی کی گئی ہے۔ اس لیے غلط
اور منفی ذہنی رویہ اور منفی عوامل کی وجہ سے راون کو شکستِ فاش نصیب ہوئی۔
یہ ایک طرح سے بنیادی انسانی اور روحانی اقدار کی غیر انسانی ،شیطانی اور
ابلیسی عناصر اور اقدار پر فتح کی علامت ہے۔ رامائن بنیادی طور پر میدانِ
دین اور شیطانی میدانِ عمل کے درمیان رزم کا فنّی اور جمالیاتی آئینہ خانہ
ہے۔ رام کے ساتھ جتنے بھی معاون کردار ہیں۔ وہ تمام اچھّائی، سچّائی اور
بھلائی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ سب تمثیلی کردار ہیں لیکن یہ جیتے جاگتے
کردار ہیں۔ وہ نظر یاتی کٹھپتلی نہیں ہیں۔ یہی بالمیکی کا عظیم تر
انسانیاتی اور حسنیاتی کارنامہ ہے۔ اس کے برعکس راون کے ساتھ جتنے بھی
معاون کردار ہیں، وہ بھی منفی جذبات و احساسات کے نمائندہ تو ہیں لیکن وہ
بھی جیتے جاگتے کردار نظر آتے ہیں۔ ان کی نفسیاتی ترجمانی رامائن میں نہایت
ہی زندہ اور دھڑکتے ہوئے انداز میں نظر آتی ہے۔ رام کے معاون کردار صداقت
پرور ہیں۔اس کے بر عکس راون کے معاون کردار ہوش اور صداقت سے بے نیاز ،
ابلیسی اور غیر متحرک کردار ہیں۔ گو بذات خود راون نہایت اضطرابی اور حرکی
قوت اور طاقت کا نمائندہ ہے لیکن اُس میں آدرشی معراج کی طرف بلند پروازی
کا ذرا سا شائبا بھی نہیں ملتا ہے۔ اس کے بر عکس رام، ہنومان، سیتا اور
لکشمن میں صعودی اور عمودی کیفیت ملتی ہے۔ جو ان کو آدرشی بلندی کے معراج
کی طرف مسلسل بلند پروازی کے لیے مائل کرتی ہے۔ اسی لئے تمام عینی کردار ہر
عہد میں اعلیٰ ترین انسانی اور روحانی اقدار کی روشن علامت رہے ہیں اور وہ
ہر زمانے میں قابلِ تقلید رہے ہیں۔رامائن بنیادی طور پر ظلمت پسند صفت، قوت
اور ملکہ کی ترجمانی سے آگے بڑھ کر حرکت پسند، قوت ،طاقت اور ملکہ کی بھی
عکّاسی کرتی ہے لیکن ان دونوں منفی قوتوں کی جہت زمینی اور اُفقی
سطح(Horizental Plane) پر ہوتی ہے اور قدرتی طور پر وہ سچ کے بجائے جھوٹ ،
نیکی کے بجائے بدی، حسن کے بجائے بد صورتی، توازُن کے بجائے عدمِ توازُن کی
طرف فطری طور پر راغب ہوتے ہیں۔ ان دونوں کے بر خلاف روشن، فَروزاں اور
منّور صداقت پسند صفت، قوت اورملکہ کی بھرپور طور پر عینی نمائندگی کی گئی
ہے۔ جو قدرتی طور پر صعودی سطح(Vertical Plane) پرمائلِ پرواز ہوتے ہیں۔
صداقت کے علمبرداررام اورانانیت اور شر کے نمائندہ راون کے درمیان جنگ و
پیکار کی مصوّری نہائت حقیقت آفریں رنگ و آہنگ میں پنڈت رادھے شیام نے کی
ہے ۔جو اُردو اسلوب میں ہندوی روح کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔
ایک ہی بان سے راون کے دس مستک کٹتے جاتے ہیں
_پر اُسی ایک چھن کے اندر پھر ویسے ہی دکھلاتے ہیں
aانتریامی ہیں ودت تمہیں نابھی میں امرت ہے راون کے
iاس لئے پربھاؤ نہ کرتے ہیں اُس کھیل پر بان جناردن کے
cوہ استر شستر چھوڑتا رہا پربھو ان کو کاٹ گراتے رہے
gکھیلتے رہے خود لیلیٰ دھر کھل کو بھی کھیل کھلاتے رہے
eانت میں دیو گن بول اُٹھے اس کھل کا نام مٹاؤ پربھو
eدیو کا تراس مٹاؤ پربھو دھرتی کا بھار گھٹاؤ پربھو
]رام نے اسی چھن ایک بان مارا اُر میں دشکندھر کے
Uپرتھوی پر لوٹنے لگے اُس مہابیر بھٹ نشچر کے
_لنکا میں ہاہاکار مچا دیوؤں میں جئے جئے کار ہوا
]جئے ہوئی رام رگھورائی کی وہ مہا ادھم سنہار ہوا
\ لنکا فتح کرنے کے بعد رام، لکشمن اور سیتا اپنے تمام رفیقوں اوراحباب کے
ساتھ اجودھیا واپس لوٹتے ہیں۔رام کے کہنے پر چودہ برس تک بھرت نے رام کی
کھڑاؤ گدّی پر رکھ کر اجودھیا پر راج کیا۔ رام کے اجودھیا واپس آنے پر رام
کا راجیابھشیک ہوتا ہے۔ رام اجودھیا کی گدّی پر بیٹھتے ہیں اور حکومت کرتے
ہیں۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد بیکراں وفا، ایثار اور فرض کی مثالی دیوی سیتا پر
ایک دھوبی کے بیجاالزام لگانے پر رام اُس زمانے کے رسم رواج کے مطابق انھیں
جنگل میں چھوڑ آنے کے لیے لکشمن کو بھیجتے ہیں ۔ جہاں جنگل میں سیتا
بالمیکی کی کُٹیا میں پناہ لیتی ہیں اور وہیں پر لو اور کُش پیدا ہوتے ہیں۔
رام اشومیدھ یگیہ کرتے ہیں۔ یگیہ کے دوران گھوڑا چھوڑا جاتا ہے۔ لو اور کُش
رام کے گھوڑے کو پکڑ لیتے ہیں۔ جہاں لکشمن اور لوکُش سے جنگ ہوتی ہے۔ جنگ
کے دوران سیتا لکشمن کو دیکھتی ہیں۔ وہ دونوں راج کُماروں کو لکشمن سے
ملواتی ہیں۔ سیتا اور لوکُش اجودھیا لائے جاتے ہیں۔ پھر سیتا کو اپنی پاک
دامنی کا شبوت پیش کرنے کے لیے اگنی پریکشا دینی پڑتی ہے۔ سیتا جی اگنی
پریکشاسے کامیاب گزرنے کے بعد ناری لجّا اور سمّان کے باعث دھرتی میں
سماجاتی ہیں۔ بعد میں رام لو کو کُشواتی اور کُش کو شراوستی کا راجہ بنا
دیتے ہیں۔
رامائن دنیا کے عظیم رزمیہ(Epic)ادب میں ایک خصوصی معنویت، قدر و قیمت اور
آفاقی اہمیت کا امین ہے۔رام میدانِ دین کے علمبردار ہیں۔ انھوں نے تمام
انسانی اور روحانی اقدار کا بھرپور تحفظ کیا اور وہ بنیادی طور پر میدانِ
دین کے مرکزی کردار تھے اور ان کا حریف راون انانیت زدہ میدانِ عمل کا
نمائندہ تھا۔ یہ دونوں رامائن کے مرکزی تمثیلی اور علامتی کردار ہیں۔
رامائن میں زندگی اور زندگی کی تمام قدروں کو سیاح اور سفید رنگ و آہنگ میں
دیکھا گیا ہے۔ رام بنیادی طور پر صداقت، خیر اور حسن کے نقیب ہیں یا دوسرے
لفظوں میں صداقت، ہوش و آگہی اور روحانی سرمدی،نشاط و انبساط کی روشن
فروزاں اور منوّر تمثیل ہیں۔ راون ان کے بر خلاف شر (برائی) کی تمثیل ہے۔
وہ زندگی کے تمام منفی اقدار کا ترجمان ہے۔رام اور راون کی جنگ در حقیقت
انسانی اور روحانی دولت اور ابلیسی،شیطانی اور دنیاوی دولت کے جنگ کی
نمائندہ ہے۔ بالآخر انسانی اور روحانی دولت کی جیت ہوتی ہے۔ جو در حقیقت
صداقت اور خیر کی جیت ہے۔ آخر میں اُردو کے عظیم ترین شاعر علامہ اقبالؔ کے
ان اشعار پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
لب ریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند
سب فلسفی ہیں خطّۂ مغرب کے رام ہند
یہ ہندیوں کے فکرِ فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند
اعجاز اُس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند |