وہ ایک یتیم بچہ تھا لیکن اتنا خوش قسمت کہ نبی أخرالزماں
ﷺ نے اسے شہادت کی بشارت دی حالانکہ کسی معرکے میں شہید نہیں ہوئے اس یتیم
کو اس کے چچا نے اس کی پرورش کی تھی جب وہ بچہ جوان ہوا تو چچا نے اونٹ
بکریاں اور دو غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی تھی اس نے اسلام کے
متعلق کچھ سنا تو دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا کہ میں کالی کملی والے پر
ایمان لاکر مسلمان ہو جاؤں لیکن وہ ابھی چھوٹا تھا چچا سے اس قدر ڈرتا تھا
کہ اظہار اسلام نہ کرسکا جب حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
فتح مکہ مکرمہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا مجھے برسوں جس وقت کا
انتظار تھا وہ آگیاہے اسے انتظار کرتے کرتے کئی برس گزر گئے چچاجان میری
خواہش تھی کہ آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہو میں اور آپ مسلمان ہو
جائیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آرہا ہے میں اپنی عمر پر زیادہ
اعتماد نہیں کرسکتا مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہوجاؤں چچا نے جواب دیا
دیکھ اگر تو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا دین قبول کرنا چاہتا ہے
تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ
رہنے دوں گا اس نے جواب دیا چچاجان میں مسلمان ضرور ہوں گا اور محمد صلی اﷲ
علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی اتباع قبول کروں گا شرک اور بت پرستی سے بیزار
ہوچکا ہوں اب آپ کا جو منشاء ہے کریں اور جو کچھ میرے قبضہ میں مال و زر
وغیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز
یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے اس لئے, میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں
کرسکتا اس نے یہ کہہ کر ان کے دئیے کپڑے بھی لوٹا دیے اور ایک پھٹی پرانی
چادر اوڑھ لی پھر وہ اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں مومن اور
توحیدپرست ہوگیا ہوں مجھے اجازت دیں میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ
واصحابہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں ستر پوشی کے لئے کپڑوں کی ضرورت
ہے مہربانی کرکے کچھ دے دیجیے ماں کے پاس ایک کمبل تھا انہوں نے وہی کمبل
بیٹے کو دے دیا اس نے کمبل پھاڑا آدھے کا تہبند بنالیا آدھا اوپر کرلیا اور
مدینہ منورہ کو روانہ ہوگیا علی الصبح مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ
وسلم میں پہنچ گیا اور مسجد سے ٹیک لگا کر انتظار میں بیٹھ گیا حضور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم جب مسجد میں آئے اسے دیکھ کر پوچھا کون
ہو؟ تو اس نے کہا میرا نام عبدالعز'ی ہے فقیر و مسافر ہوں طالب ہدایت ہو کر
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے در پر آپہنچا ہوں حضور نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا آج سے تمہارا نام عبداﷲ ہے ذوالبجادین
لقب ہے تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں ہی رہا کرو یوں عبداﷲ رضی اﷲ
عنہ اصحاب صفہ میں شامل ہوگئے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
سے قرآن پاک سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق وشوق اور خوشی و نشاط سے پڑھا
کرتیایک دفعہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ لوگ تو نفل
نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کررہا ہے کہ
دوسروں کو کوفت اور ان کی قرآت میں مزاحمت ہوتی ہے حضور نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا عمر رضی اﷲ عنہ اسے کچھ نہ کہو یہ تو اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے لئے سب کچھ چھوڑ
چھاڑ کر آیا ہے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے انہیں دعا دیتے ہوئے
فرمایا الٰہی میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے عرض
کی یاسیدی یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم میں تو شہادت کا طالب
ہوں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا جب اﷲ تعالیٰ
کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہوگے ۔
تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ اسے شدید بخار نے آلیا اور وہ اسی کیفیت میں
انتقال کرگئے حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداﷲ
رضی اﷲ عنہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے رات کا وقت تھا پہلے وہ حضرت سیدنا
بلال رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ میں اترے اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ
اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ ان کی میت کو لحد میں اتار رہے تھے
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم بھی ان کی قبر میں اترے اور
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے
فرما رہے تھے اپنے بھائی کو میرے قریب کرو حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
واصحابہ وسلم نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ مبارک سے رکھیں اور پھر دعا
فرمائی اے اﷲ میں ان سے راضی ہوں تو بھی ان سے راضی ہوجا حضرت ابن مسعود
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کاش اس قبر میں میں دفن کیا جاتا۔
|