چین میں کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے پوری دنیا اس
بیماری سے خوف زدہ ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے اب تک چین میں سینکڑوں افراد
مرگئے ہیں اور ہزاروں افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ ہندوستان میں بھی چین
سے آئے تین افراد میں اس بیماری کے پائے جانے کی تصدیق ہوچکی ہے، جبکہ دیگر
مشکوک مریض ہسپتالوں میں خاص نگرانی میں ہیں۔ ہندوستان نے چینی افراد کے
لئے الیکٹرونک ویزے بند کردئے ہیں۔ چین سے واپس آنے والے ہندوستانی لوگوں
کا بھی خاص طبی معاینہ کیا جارہا ہے۔ اس بیماری کے متعلق کہا جارہا ہے کہ
یہ اُن جانوروں سے پھیل رہی ہے جو اسلامی شریعت کے مطابق حرام جانوروں کے
زمرے میں آتے ہیں، یعنی ان کا کھانا حرام ہے اور وہ چین میں کھائے جاتے
ہیں۔ یہ بات صحیح بھی ہوسکتی ہے، مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں کہ ایک
عرصہ سے چین میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، حالانکہ نہ صرف اسلام
بلکہ دنیا کے تمام ہی مذاہب میں ظلم کرنے سے باز رہنے کی تعلیمات موجود
ہیں، نیز دنیاوی قوانین بھی اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ کسی پر ظلم نہ کیا
جائے لیکن کچھ عناصر طاقت کے نشہ میں چور کمزوروں پر ظلم کیا کرتے ہیں۔ اس
کی ایک مثال چین کی حکومت کا لمبے عرصہ سے چینی ایغور مسلمانوں پر ظلم کرنا
ہے۔ یہ بیماری چین کے مظلوم مسلمانوں کی بددعا کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے۔
حال ہی میں جرمن کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک بیان بھی آیا ہے کہ چینی
ایغور مسلمان پر مظالم کافی بڑھ گئے ہیں۔ نیز 2018 میں اقوام متحدہ کی
انسانی حقوق کمیٹی نے جنیوا میں ہونے والے اجلاس کے دوران پوری دنیا کو
بتایا تھا کہ چین میں 10 لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو ایک بہت بڑے خفیہ
حراستی کیمپ نما مقام پر بند کررکھا ہے اور انہیں کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ
اختیار کیا جاتاہے کہ جیسے وہ ملک دشمن ہوں۔ نیز چینی حکام نے ایک جامع
مسجد کو صرف اس لیے مسمار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا کہ اس کے گنبد اور
مینار مشرقی طرز پر بنے ہوئے تھے، جس کے خلاف ہزاروں مسلمان مسجد کے باہر
دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔ گزشتہ سال بھی چین سرخیوں میں تھا جب اس نے اپنی
تنگ نظری کے تحت مسلمانوں کو قرآن کریم اور جانماز حکومتی اداروں کے پاس
جمع کرانے کا ظالمانہ حکم جاری کیا تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ چین اپنے ظالمانہ
کردار کو دنیا کے سامنے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ مسلم ممالک اور
حقوق کے نام سے بنی تنظیمیں بھی اپنے سیاسی مفاد اور ذاتی منفعت کے لئے
چینی حکام سے بات تک نہیں کرتیں، بلکہ بعض مسلم ممالک کے ضمیر فروش
حکمرانوں نے چند ماہ قبل زمینی حقائق کے برخلاف یہ بیان جاری کیا تھا کہ
چین میں سب کچھ صحیح ہے اور مسلمانوں پر کوئی ظلم نہیں ہورہا ہے۔
چین کی ظالمانہ پالیسی کو پوری دنیا حتی کہ چین کے باشندے بھی کبھی نہیں
بھول سکتے۔ 3 اور 4 جون 1989 کو رونما ہونے والے اُس واقعہ کے عینی شاہدین
آج بھی دنیا میں موجود ہیں جب چین کی حکومت کے خلاف بیجنگ شہر کے مشہور چوک
پر طلبہ نے مظاہرہ کیا تھا،جو اُن کا قانونی حق تھا، تو چین کی فوج نے
حکومت کے اشارہ پر بندوقوں اور ٹینکوں کے ذریعہ پُرامن مظاہرہ کرنے والے
اپنے ہی ملک کے ہزاروں طلبہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ تائیوان اور تبت
پر ابھی تک ناجائز قبضہ چین کے ظالم ہونے کی کھلی دلیل ہے۔ اسی طرح چین
ہندوستان کے ”اکسائی چن“ پر قبضہ کیے ہوئے ہے اور اپنی ہٹ دھرمی دکھاکر
وقتاً فوقتاً سرحد پر کشیدگی پھیلاتا رہتا ہے۔ مسلمانوں پر تو چین کے مظالم
کی ایک طویل داستان ہے، جس کی خبریں وہ دو ہزار کیلومیٹر پر محیط دیوار چین
کے باہر جانے سے روک دیتا تھا، مگر سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے
زمانہ میں چین کی طرف سے مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی خبریں وقتاً فوقتاً
سامنے آتی رہتی ہیں۔ سینکڑوں سال کی تاریخ شاہد ہے کہ چین نے ہمیشہ
مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ آئیے چین میں مظلوم مسلمانوں کے
حالات سے آگاہی حاصل کریں۔
مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے چین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک
مشرقی ترکستان کا علاقہ، جس کی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان، کرغستان،
تاجکستان، افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور تبت سے ملتی ہیں۔ اس صوبہ کو
اب سنکیانگ یا شنجیانگ (Xinjiang) کہتے ہیں، جس پر عرصہئ دراز تک مسلمانوں
کی حکومت رہی ہے اور چین نے اس علاقہ پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ اس علاقہ
میں ترکی النسل مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد رہتی ہے۔ اس صوبہ کا
دارالحکومت ارومچی ہے، جبکہ کاشغر سب سے بڑا شہر ہے۔ دوسرے وہ مسلمان ہیں
جو مشرقی ترکستان کے علاوہ چین کے دیگر مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں،
جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ مجموعی طور پر پورے چین میں تقریباً دس
کروڑ مسلمان رہتے ہیں، حالانکہ چین کی حکومت تین کروڑ بتاتی ہے جو خلاف
حقیقت ہے۔ اگر غیر سرکاری اعداد وشمار کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو چین میں
موجود مسلمانوں کی تعداد مصر کی آبادی سے بھی زیادہ ہوگی جو تمام عرب ممالک
میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔
آج سے تقریباً 1400 سال قبل 29 ہجری میں چین میں اسلام کا پیغام اُس وقت
پہنچا جب تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کا
پیغام پہنچانے کی غرض سے ایک وفد چین ارسال کیا تھا۔ اس کے بعد بھی وفود
بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا۔ نیز اس دوران مسلمانوں نے تجارت کی غرض سے بھی
چین کے سفر کیے۔ اس طرح چین کے بعض علاقوں میں لوگوں نے دین اسلام کو
ابتداء اسلام سے ہی قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ بعد میں چین کے بیشتر علاقوں
میں دین اسلام کو ماننے والے موجود ہوگئے۔ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) جس پر
چین نے آج تک قبضہ کررکھا ہے، کو اموی خلیفہ ولید بن مالکؒ کے دور میں
قتیبہ بن مسلم الباہلیؒ نے 93۔94ھ میں فتح کیا تھا۔ ترکستان کے معنی ترکوں
کی سرزمین کے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ترکستان کو مغربی ومشرقی ترکستان میں
تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی ترکستان وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس پر سوویت
یونین (روس) نے قبضہ کرلیا تھا، جو 1991 میں آزاد کردیا گیا۔ جبکہ مشرقی
ترکستان ابھی تک چین کے قبضہ میں ہے۔ اس علاقہ پر 18 ویں صدی کے وسط میں
چنگ سلطنت نے قبضہ کرلیا تھا اور ”سنکیانگ“ یعنی نئے صوبہ کا نام دیا تھا۔
اس علاقہ میں آباد ایغور ترک کی آبادی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے، حالانکہ
1948 میں ان کی آبادی خطے کی آبادی کا 98 فیصد تھی۔ یہ صوبہ چین کا سب سے
بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے۔ اس علاقہ میں پیٹرول،
کوئلے اور یورینیم کے ذخائر ہونے کی وجہ سے چین کی اقتصادی اور عسکری حالت
کافی حد تک اس علاقہ پر منحصر ہے۔
مشرقی ترکستان (جو اِس وقت چین کے قبضہ میں ہے) میں طویل عرصہ تک مسلمانوں
کی حکومت رہنے کی وجہ سے اس علاقہ کی بڑی تعداد مسلمان ہے، لیکن 1644 میں
مانچو خاندان کے قبضہ کے بعد سے مسلمانوں کے حالات خراب ہوگئے۔ 1648 میں
پہلی مرتبہ اس علاقہ کے باشندوں نے مذہبی آزادی کا مطالبہ کیا جو قانونی
طور پر اُن کا حق تھا، جس کی بنا پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔
1760 میں چین نے مشرقی ترکستان پر قبضہ کرکے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا۔
متعدد مرتبہ مسلمانوں نے اس علاقہ کو حاصل کیا، 1875 میں چین کے ظالموں نے
بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کرکے پھر قبضہ کرلیا۔ 1931 میں مسلم خواتین
پر مظالم کی وجہ سے ایک بار پھر چین کی حکومت کے خلاف مسلمانوں نے حق کی
آواز بلند کی جو آہستہ آہستہ پورے علاقہ میں پھیل گئی، اور 12 نومبر 1933
کو اس علاقہ کو مسلمانوں نے حاصل کرلیا۔ لیکن چین نے روس کی مدد سے 15 اگست
1937 کو ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرکے اس علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ 1944
میں اس علاقہ کی آزادی کے لیے ایک بار پھر آواز بلند کی گئی مگر چین نے روس
کے تعاون سے اس تحریک کو کچل دیا۔ 1946 میں ”مسعود صبری“ کی سرپرستی میں
جزوی آزادی دی گئی مگر 1949 میں اس علاقہ پر چین نے مسلمانوں سے لمبی جنگ
کے بعد پھر قبضہ کرلیا۔ بعض علاقوں میں مسلسل بیس روز تک جنگ چلی۔ 1949 میں
چین پر کمونیسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چین خاص کر مشرقی
ترکستان میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان کے دینی
اداروں کو بند کردیا گیا۔ مساجد فوج کی رہائش گاہ بنا دی گئیں۔ ان کی
علاقائی زبان کو ختم کرکے چینی زبان اُن پر تھوپ دی گئی۔ شادی وغیرہ سے
متعلق تمام مذہبی رسومات پر پابندی عائد کردی گئی۔ کمیونسٹوں کا ایک ہی ہدف
رہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بند کیا جائے، حالانکہ قرآن کریم
انسانوں کی ہدایت کے لیے ہی نازل کیا گیا ہے۔ چین کے مسلسل مظالم کے باوجود
اس علاقہ کے مسلمان اپنی حد تک اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے
رہے ہیں۔ 1966 میں جب مسلمانوں نے کاشغر شہر میں عید الاضحی کی نماز پڑھنے
کی کوشش کی تو چین کی فوج نے اعتراض کیا اور گولیاں برساکر ہزاروں مسلمانوں
کو شہید کردیا۔ جس کے بعد پورے صوبہ میں انقلاب برپا ہوا، اور چین کی فوج
نے حسب روایت مسلمانوں کا قتل عام کیا، جس میں تقریباً 75 ہزار مسلمان شہید
ہوئے۔
غرضیکہ چین نے مسلمانوں کی کثیر آبادی والے علاقہ ”مشرقی ترکستان“ پر
ناجائز قبضہ کرکے پیٹرول، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر کو اپنے قبضہ میں کر
رکھا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً وہاں کے مسلمانوں پر مظالم ڈھاتا رہتا ہے۔
مسلمانوں کی اجتماعیت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ لاکھوں افراد کو اب تک قتل
کیا جاچکا ہے۔ اس وقت چین میں بڑی تعداد لا مذہب کی ہے، یعنی وہ کہتے ہیں
کہ بلّی، کتے اور بندر کی طرح انسان کی پیدائش کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے،
یعنی جو چاہے جس پر ظلم کرے، جو چاہے جس کا مال چرائے، جس کو چاہے نا حق
قتل کردے، مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اس لیے اس کی کوئی پکڑ
نہیں ہوگی۔ حالانکہ عقل سے بھی سوچنا چاہئے کہ ہمارا ایک چھوٹا سا کام بھی
کسی مقصد کے بغیر نہیں ہوتا ہے، نیز گھر، خاندان، صوبہ اور ملک کے نظام کو
چلانے کے لیے ایک طاقت درکار ہوتی ہے۔ تو دنیاکا اتنا بڑا نظام خود بخود
کیسے چل سکتا ہے؟ سورج کا اپنے وقت پر طلوع ہونا اور غروب ہونا، کروڑہا
کروڑ ستاروں کا نکلنا، دنیا کے تین چوتھائی حصہ میں پانی کا ہونا، ہواؤں کا
چلنا کسی طاقت کے بغیر کیسے وجود میں آگئے؟ زمین کے اندر طرح طرح کے ذخائر
کہاں سے آگئے؟ زمین میں پیداوار کی صلاحیت کہاں سے پیدا ہوگئی؟ حضرت انسان
کیسے اور کیوں پیدا ہوگئے؟ حضرت انسان مر کیوں جاتے ہیں؟ روح یعنی جان کس
چیز کانام ہے؟ یہ کونسی چیز ہے کہ جس کے جسم سے نکلنے کے بعد آنکھ دیکھ
نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر چل نہیں
سکتے۔۔۔ نیز جب دنیا کی ہر ہر چیز کا فنا ہونا یعنی ختم ہونا ہم اپنی
آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو دنیا بھی تو ایک دن ختم ہونی چاہئے، دنیا کے ختم
ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے نظام کے چلنے چلانے کا آخر
کوئی تو مقصد ہونا چاہئے۔ اور اتنا بڑا نظام خود بخود کیسے اور کیوں چل
سکتا ہے؟ خالق، مالک ورازق کائنات کا ارشاد ہے: بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر
اپنا لیا ہے۔ اُن کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہیں آپ ان کوڈرائیں
یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اللہ نے اُن کے دلوں پر اور ان کے
کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ اور اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے، اور اُن کے
لیے زبردست عذاب ہے۔ (سورۃ البقرۃ 6 و 7) مسلمانوں کو ناامید نہیں ہونا
چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، ہاں اپنی ذات سے شریعت اسلامیہ پر
عمل کرتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں آباد مسلمانوں کو اپنی خصوصی دعاؤں
میں یاد رکھیں۔
|