ہمارا مستقبل میڈیا کے دباؤ میں ہے‎

جس نہج پر ہمارے ملک کے حالات چل رہے ہیں دانشور اور خاص طور پر محب وطن طبقہ یہ سوچ سوچ کے پریشان ہے کہ ہماری نمائندہ نسل کا عنقریب بنے گا کیا؟ چونکہ ہم مسلم ہیں اس لئے ہمارے عادات و اطوار اور رسم و رواج باقی ماندہ قوموں سے اعلی اور مثالی ہونا ہی ہماری پہچان ہے ہمارے اسلاف شرم و حیا کے نہ صرف پیکر تهے بلکہ ہمارے والدین ان کی پیروی میں پیش پیش رہے لیکن اب ہماری نوزائیدہ نسل کو وہ ماحول اور نگہداشت میسر نہیں رہی جو ہمارے والدین نے ہمیں دی یعنی کہ وہی تعلیم و تربیت اور نگہداشت ہم اپنی نئ پروان چڑهنے والی نسل کو فراہم کرنے میں بری طرح سے ناکام ہیں آخر کیوں ؟ یہاں پہ بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ الیکٹرانک میڈیا بهی ہے جس پہ ہماری فیملیز ڈرامے یا پلیز ، مارننگ شوز اور ٹاک شوز بڑی دلچسپی سے دیکهتی ہیں گهر کے کام کاج کے دوران اور بعد میں سب سے زیادہ ٹائم بچوں اور گهریلوں عورتوں کا ٹی وی ڈراموں اور مارننگ شوز میں ہی خرچ ہوتا ہے لہذا لازمی طور پر جس ماحول میں انسان رہے گا اسی ماحول کے اثرات انسان کی شخصیت سے منعکس ہوں گے آج کل الیکٹرانک میڈیا کے اثرات ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری نوزائیدہ نسل خاص طور پر ٹین ایجر اور سن بلوغت کو پہنچنے والے کمسن بچے ڈراموں اور فلموں میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں اور یقین مانیے نجی چینلز کے ڈرامے ایسے پروان چڑهتے ہوئے بچوں کے مائنڈ سیٹ اپ کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں نجی چینلز میں جتنی بهی سیریل کا مشاہدہ کرلیں سبهی میں ایک چیز مشترک ہوگی یعنی لو اسٹوری ( ایسی کہانیاں نو آموز نسل پر کیا اثرات مرتب کریں گی ذرا سا سوچنے کی زحمت گوارہ کیجئے پلیز) اور پهر ان ڈراموں میں لڑکوں اور لڑکیوں میں دوستی کا کلچر پروان چڑھایا جارہا ہے ماں اپنی بیٹی سے پوچهتی ہے عائشہ بیٹا کیا تم محسن کے ساته سیریس ہو اور بیٹی جواب دیتی ہے نہیں ماما ہم صرف دوست ہیں (اب آپ خود ہی سوچیں کہ نئ نسل کے لئے یہ ڈرامے مخلوط دوستی کے لئے کیسے راہ ہموار کر رہے ہیں اور مغربی ماحول کو پروان چڑها رہے ہیں سن بلوغت کو پہنچنے والے بچے تو کبهی بهی مخلوط دوستی کو معیوب نہیں سمجهیں گے بلکہ اپنے معاشرے کا حصہ سمجهیں گے)- یہ تو صرف ایک پہلو ہے نجی چینلز کے ڈراموں کا ایسے منفی رجحانات کی بهر مار ہے ڈراموں میں ،کبهی اپنے بچوں کی اصلاح کی غرض سے ان سیریلز کا مشاہدہ کریں تو سارے منفی پہلو جو کہ بڑهتے بچوں کے لئے زہر ہلاہل ہیں اجاگر ہو جائیں گے-
> > > شروعات میں ہمارے ڈراموں میں اعلی اقدار اور شرم و حیا کا بڑا حسن دیکهنے کو ملتا تها عام مزدور لوگوں کا رہن سہن اور ان کے مسائل ڈروں اور سیریلز میں واضح کئے جاتے تهے ہمارے مختلف علاقوں اور صوبوں کی ثقافت کو اجاگر کیا جاتا تها لیکن یہ سب اب ڈراموں میں ناپید ہے آپ مشاہدہ کرلیں ان سیریلز میں لگژری گهر ،لگژری گاڑیاں اور لگژری لائف سٹائل ہی دکهایا جارہا ہے جو کہ صرف اور صرف ایلیٹ کلاس کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ عام آدمی کے لئے اس میں کچه بهی نہیں تو نتیجتا عام آدمی اسی لگژری لائف سے انسپائر ہوکر اسے حاصل کرنے لئے غلط قدم اٹهائے گا ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس طرح کی ڈهیروں خامیوں سے مزین ہے اور لگام ڈالنے والا کوئی نہیں- ہماری نمائندہ نسل تو کیا ٹهیک ٹهاک بزرگ لوگ بهی دانش کی موت پر اس طرح سے آنسو بہارہے ہیں گویا ان کا اپنا سگا بیٹا مرگیا ہو ہمارے لوگوں کی سوچ اتنی سطحی ہوچکی ہے کہ کجا ہم کشمیر میں ہونے والے مظالم پر آنسو بہائیں اور آواز بلند کریں ہم تو ایک نجی چینل کے فرضی کردار پر آنسو بہارہے ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں انسان بهوک و افلاک اور غربت سے زندہ درگور ہورہے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ان کی خبر گیری کرنے کی بجائے ہم بڑے رحمدل بن رہے ہیں اور فرضی انسانوں کی موت پر آنسو بہا کر سمجه رہے ہیں کہ ہم نے انسانیت کا صحیح حق ادا کردیا ہے کردیا اگر اسی طرح ہم رحمدلی سے کام لینا شروع کردیں اور سمجهیں کہ ہمارا حق ادا ہوگیا تو پهر ہمارا ملک تو حقیقی رحمدل اور اچهے لوگوں سے خالی ہوجائے گا اور تقریبا سبهی افسانوی اور فلمی لوگ بن جائیں گے جبکہ ایک ملک یا معاشرے کو چلانے یا فعال رکهنے کے لئے حقیقت پسند ہونے کے ساته ساته انسان کا با عمل ہونا نہایت ضروری ہے فقدان کی صورت میں سوائے ملک و معاشرے میں بگاڑ اور تنزلی کے کچه بهی ہاتھ نہیں آئے گا اور جس حد تک ہمارا معاشرہ دانش کی موت سے انسپائر ہے اسی حد بگاڑ بهی ہماری نسل میں سرائیت کر چکا ہے اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے آمین
> > > واسلام

Ghulam Mustafa Hazik
About the Author: Ghulam Mustafa Hazik Read More Articles by Ghulam Mustafa Hazik: 12 Articles with 8293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.