یہاں جھبوں و اماموں کو بدلتے دیکھا!!

 پچھلے تین مہینوں سے ملک بھر میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ جنگ آزادی سے کم نہیں ہیں، جنگ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جس مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد اپنے حق کے لئے، اپنے دستور کی بقاء کے لئے سڑکوں پر اترنے کا فیصلہ کیا ہے، دستور کو بچانے کی خاطر بلا کسی اختلاف کے، بلا کسی سیاسی و مذہبی قائد کی قیادت لئے اپنے آپ میں جذبہ لئے میدان کار میں کود پڑا ہے۔ عام لوگوں نے اس تحریک کو خاص اس لئے بنالیا ہے کہ وہ اس تحریک کو مسلمانوں کی تحریک نہیں مان رہے ہیں نہ ہی اس جدوجہد کو دین سے جوڑ رہے ہیں بلکہ اس لڑائی کو خالص اپنے ملک اور اپنے وجود کو بچانے کے لئے لڑرہے ہیں۔ ملک کی ساری عوام ایک طرف ہے، ملک کے علماء، ادبا، شعراء، مزدور، خواتین، بچے، طلباء ہر خاص و عام اس لڑائی کے علمبردار ہیں اور سب کا ایک ہی ماننا ہے کہ جب تک ملک سے سی اے اے اور ین آر سی جیسے قوانین کو ختم نہیں کرتے اس وقت تک اس لڑائی کو لڑتے رہینگے۔ مرد اور عورتیں تو الگ ہیں اب تو اس لڑائی میں ہجڑے بھی شامل ہوچکے ہیں اور مودی سرکار کو ہائے ہائے کےنعروں سے کوسنے کے لئے کمربستہ ہوچکے ہیں ۔ اب بات کرتے ہیں اس دارالعلوم کی جس کے مہتمم اور ترجمان نے مشترکہ طور پر یہ بیان دیا ہے کہ وزیر داخلہ نے وعدہ کیا ہے کہ اس قانون کو ملک میں نافذنہیں کیا جائے گا۔ اس لئے شاہین باغ کی خواتین اپنے احتجاج کو ختم کریں، مولانا نعمانی نے اپنا بیان اس طرح سے دیا ہے جیسا کہ ملک بھر میں یہ تحریک ان علماء کے کہنے سے شروع ہوئی تھی خاص کر ہندوستان کے مسلمان دارالعلوم دیوبند کی اتباع کرتے ہیں۔ حالانکہ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کے بارے میں جب سنتےہیں کہ اس دارالعلوم نے اپنے اندر بہادروں و مجاہدوں کو پیدا کیا تھا اوراسی دارالعلوم سے نکلنے والے ہزاروں طلباء نے جنگ آزادی میں اپنا رول ادا کرتے ہوئے تاریخ کے صفحات پر اپنا نام درج کیا تھا۔ اسی دارالعلوم دیوبند کی گرج سے اندراگاندھی سے لے کر واجپائی و من موہن سنگھ کی حکومتیں خوف کھاتی تھیں ۔ لیکن آج یہ کیا ہوا؟ حکومت کی سختیاں بھی علماء پر نہیں گزریں اس سے پہلے ہی وہ ہتھیار ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں، جیسے ہی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم نعمانی صاحب اور ترجمان مولانا عبدالخالق مدراسی کی جانب سے ملک میں احتجاجات ختم کرنے کی اپیل ہوئی تو مانو کہ ملک میں گودی مولویوں میں یہ لوگ بھی شامل ہوگئے ۔ ایک طرف گودی میڈیا بوال مچارہی ہے تو دوسری جانب گودی مولویوں کی وجہ سے ملک و ملت کی ساخت پر خطروں کے بادل منڈلارہے ہیں ۔ ملک کی آزادی سے قبل یقیناً علماء کا اہم رول رہا ہے لیکن ملک کی آزادی کے بعد حکومتوں میں چاپلوسی کے معاملات میں بھی علماء کارول اہم رہا ہے۔ کل تک تو چچا بھتیجے کی جانب سے بی جے پی کی تائید ہورہی تھی اب دارالعلوم دیوبند کے قدآور علماء بھی سنگھ پریوار کی بولی بولنے لگے ہیں تو یہ قابل تشویش بات ہے۔
کسی شاعر کا مشہور شعر ہے۔
رنگ گرگٹ کا بدلنے کا سنا تھا ہم نے
یہاں جھبوں و اماموں کو بدلتے دیکھا

اس شعرکی طرح ہی آج ہمارے کچھ علماء راتوں رات رنگ بدل رہے ہیں ۔ غورطلب بات یہ بھی ہے کہ جب انسان میں حرس، خواہشات، عہدوں کی لالچ جاگ جاتی ہے تو وہ اپنے ضمیر کو طاق پر رکھ کر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اترجاتاہے اور یہی کام دیوبند کے مہتمم صاحب کررہے ہیں۔ جہاں خیر ہووہاں شربھی ہوتا ہے، جہاں بشر ہو وہاں شیطان بھی پایا جاتاہے ۔بالکل دارالعلوم سے جہاں ولی صفت سجاد نعمانی جیسی شخصیات نکلے ہیں وہیں غلام رسول وستانوی، عبدالخالق مدراسی اور ابوالقاسم نعمانی جیسے لوگ ہیں ۔ ان حالات میں ہم اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ ملک میں جاری جدوجہد نہ تو ملی لڑائی ہے نہ ہی دیوبند کی جنگ بلکہ یہ ہندوستانیوں کی جنگ ہے اس جنگ کو پہلے سے زیادہ زوردے کر لڑی جائے۔ فاسق حکومتوں کی تائید میں جو جہلاء بیانات دے رہے ہیں اسے نظر انداز کیا جائے۔ بخیلوں، منافقوں اور غداروں کی رائے کو خارج کریں اور ملک کی جمہوریت کو بچانے کے لئے جو بہتر ہوسکے وہ کریں ۔ دستور نہ مودی کا ہے نہ دستور کو بچانے بھارتی مسلمان مولویوں کے ہیں۔۔۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.