مریض عشق

ہر سال 14فروری کوویلنٹائن ڈے غیر مسلم ممالک کے ساتھ ہمارے وطن عزیزپاکستان جو مسلمانوں کے لیے خالصتاً بنایا گیا تھا میں بھی بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کیا ہے ؟اور اس کی ابتدا کس طرح ہوئی؟ اس کے متعلق کوئی مستند اور حتمی روایات تو موجود نہیںلیکن سب سے زیادہ مشہورو معروف ایک غیر مستند داستان پائی جاتی ہے کہ اس دن کا آغاز رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے ہوا جسے ہماری نوجوان نسل’ ’محبت کا دیوتا‘‘ کہتی ہے۔اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے اواخر میں رومانوی بادشاہ کلاڈیس ثانی کے زیر حکومت رہتا تھا، کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے اس پادری کو جیل میں بند کردیا، وہاں جیلرکی لڑکی سے اس کی شناسائی ہوگئی اور وہ اس کے عشق میں مبتلا ہوگیا، یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت کوقبول کرلیا ، وہ لڑکی ایک سرخ گلاب لے کر اس پادری کی زیارت کے لیے آتی تھی اور پھر دونوں خلوت میںاپنے تن من دھڑسے باہمی ملاقاتیں کرتے تھے۔

جب اس معاملے کا باشاہ کو پتا چلا تو اس نے پھانسی دینے کا حکم صادر کردیا۔یہ حکم سن کر پادری ویلنٹائن نے اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا کہ اس کا وقت آخر اس کی محبوبہ کے ساتھ ہو،چنانچہ اس نے ایک کارڈ اپنی معشوقہ کے نام تحریر کیا جس کہ آخر میں’’مخلص ویلنٹائن کی طرف سے‘‘ لکھا۔ اس کے بعد پادری ویلنٹائن کواس کے جرم کی پاداش میںپھانسی دے دی گئی۔

محبت کرنے والوں نے ’’شہید محبت‘‘ یعنی ویلنٹائن ڈے کے نام سے اس پادری کے ناپاک عزائم کو لے کر14فروری کو ایک تہوار کی شکل دے دی جو صدیوں سے مغرب میںشادی شدہ اور غیر شادی شدہ لوگوں کے درمیان منایا جاتا ہے جس میں محبت کرنے والے جوڑے ایک دوسرے سے گلاب ، کارڈاور تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔مشرق والے اس سے نا آشنا رہے لیکن بے غیرتی پر مبنی فلموں، ڈراموں کے فروغ سے ویلنٹائن ڈے منانے کی روایت پوری دنیا میںنابجھنے والی آگ کی طرح پھیل گئی جووقت کے ساتھ مزید بھڑکتی جارہی ہے اور نوجوان نسل کو مریض عشق بنا رکھا ہے۔

بدقسمتی ہماری ینگ جنریشن کی یہ ہے کہ یہ اتنی آزاد خیا ل ہوچکی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں منایا جانے والا کوئی بھی تہوار یا کوئی بھی کام ہو اسے بغیر تصدیق کئے فوراً پورے جنون کے ساتھ نقل کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔اس روشن خیال طبقے کو ان کا تہوار منانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔
لیکن حضور ؐ کا ارشادگرامی تو اس کے برعکس ہے: ’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے‘‘۔(ابوداؤد)

مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ انسان سے شرم وحیا اور غیرت چھین کرجنسی لذت وتسکین میں اسے حیوانوں کے برابر لاکھڑا کیا جائے تاکہ ماں، بہن اور بیٹی یا بیوی کے درمیان مقدس رشتوں کی جو دیواریں کھڑی ہیں ان کو گرادیا جائے’’یہی وجہ ہے کہ آج یورپ میںان کی ینگ جنریشن بغیر نکاح کے کئی کئی بچوں کے ماںباپ بنے ہوئے ہیں‘‘۔

انہی سازشوں کی ایک کڑی ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ہے ۔ جتنی بے حیائی ،بے راہ روی، نظر بازی،فون پہ شہوانی خیالات اور جنسی انارکی کا اجتماعی مظاہرہ اس دن کیا جاتا ہے جس سے مرد وعورت کے درمیان شرم وحیا کادامن چاک ہوجاتا ہے۔ اس دن کے عام ہونے سے بھڑکتی ہوئی جنسی آگ کو بجھانے کے لیے بچوںاور بچیوں کو اغوا کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ عشق کے چکر اور اپنے آشنا کے ساتھ بھاگنے والی لڑکیوں کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

پھولوں اور کارڈ کے تبادلہ کے بعد اگلا قدم محبت کی سیڑھی چڑھنے والی عورتوں کا اپنی عزت و عصمت گنوا بیٹھنا ہے جس کا احساس انہیں بعد میں ہوتا ہے ۔اظہار محبت کی یہ آزادی اکثر وبیشتر صنف نازک کی پامالی کا باعث بن جاتی ہے۔

قرآن کریم ان لوگوں کے بارے یہ کہتا ہے کہ: بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں برائی پھیل جائے ا ن کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔(القرآن)

اس حقیقت کے بعد عیاں ہو جاتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے تو فحاشی اور بے حیائی کا دن ہے اس طرح کے تہواروں کا پروان چڑھنااسلامی معاشرے میں تباہی وبربادی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیںلہٰذااسے کسی صورت بھی ایک صالح معاشرہ اختیار نہیں کرسکتا۔نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل کو ان خرافات کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا جارہالیکن ہمارا معاشرہ جس کو ایک اسلامی معاشرہ تصور کیا جاتا ہے اس میں اس قسم کا تہوار منانا ایک لمحہ فکریہ ہے۔

یادرکھیے! نوجوان ملک وملت کی امید اور آبرو ہوا کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی تربیت جس طرح کی ہوگی، یہ اپنی زندگی میں اعمال بھی ویسے کریںگے۔

اب بھی پانی سر کے اوپر سے نہیں گزراان کی تربیت کرلیںاگر ان کی تربیت نہ کی گئی تو معاشرے میں ایسا بگاڑ اور انارکی پھیلے گی جسے کنٹرول نہ کیا جاسکے گا۔

والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ اس دن کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے تاکہ نوجوان نسل مستقبل میں معاشرے کے لیے مفید بن سکے۔کسی بھی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا فرد واحد کا کام نہیں اس کے لیے پوری چین کی ضرورت ہے۔ ہمیںچاہیے کہ اپنی ثقافت اور نسل نو کو بچانے کے لیے فرقہ پرستی اور سیاسی مفاد کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر اس ناسور کا خاتمہ کریں ۔غیر مسلموں کی اس سازش کو ناکام بناکر اسلام کی اقدار کو اپنائیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Mudassar Subhani
About the Author: Mudassar Subhani Read More Articles by Mudassar Subhani: 16 Articles with 14080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.