#ValentinesDay2020: ’اللہ پاک نے لاکھوں میں ایک دی ہے میری بیوی‘

image


ملتان کے رہائشی مختار احمد کے پاس روزگار کا ذریعہ صرف ایک رکشہ ہے اور رہنے کے لیے ایک کمرہ جس کی چھت دو سال قبل گر گئی تھی۔ اس برس بھی ان کی سردیوں کی راتیں کھلے آسمان تلے ایک چارپائی پر گزریں۔ بارش ہوتی تو پلاسٹک کی چادر اوڑھ لیتے تھے۔

لیکن ان مشکل حالات کا سامنا کرنے والے مختار احمد اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کی بیگم شاہین اختر بھی ان کے ساتھ ہیں۔ 12 برس قبل پے در پے صدموں سے وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھیں۔ مختار احمد نے نہ تو تب ان کو تنہا چھوڑا اور نہ اب چھوڑتے ہیں۔ وہ رکشے میں بھی انھیں ساتھ لے کر کام پر نکلتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں شاہین ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔

’یہ نا ممکنات میں سے ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ آپ سورج سے کہیں کہ ادھر سے نہیں ادھر سے نکل آئے، یہ میرے بغیر نہیں رہ سکتیں۔‘

وہ دونوں قہوے کے ساتھ سوکھی روٹی کا ناشتہ کر کے صبح گھر سے نکلتے ہیں۔ دن کے وقت کسی ہوٹل سے ایک ہی پلیٹ خرید کر دونوں کھانا کھا لیتے ہیں۔ مختار پہلے ان کو کھلاتے ہیں، پھر خود کھاتے ہیں۔ جوں ہی ضرورت کے مطابق پیسے بن جائیں، وہ گھر واپس لوٹ آتے ہیں۔

صوفیا کے شہر ملتان کے دامن میں واقع غازی آباد کے علاقے میں جہاں ان کا کمرہ ہے وہ ایک کشادہ حویلی ہے۔ اس کے تین کمروں میں سے ایک کو گوالے استعمال کرتے ہیں جنھوں نے صحن میں بھینسیں پال رکھی ہیں جبکہ دوسرے کمرے میں کسی کا گودام ہے۔

دور سے ان کی کھٹیا بھینسوں میں گھری نظر آتی ہے۔ پاؤں چارپائی سے زمین پر رکھیں تو گوبر میں پڑتا ہے۔ کوئی ایسی جگہ میسر نہیں جہاں وہ کپڑے اتار کر نہا سکیں۔ کپڑے اور ضرورت کی چند اشیا انھوں نے ایک بکسے میں ڈال کر دوسری چارپائی کے نیچے رکھی ہیں۔

بنا چھت کے کمرے کے اندر جو سامان پڑا ہے وہ موسم کی سختیوں کی نظر ہو چکا ہے مگر یہاں رہنے کا انھیں یہ فائدہ ہے کہ کرایہ نہیں دینا پڑتا۔ رہائش کے بدلے وہ مالک کے موٹر سائیکل ٹھیک کر دیتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے 60 سالہ مختار احمد موٹر مکینک ہیں۔

صرف 12 برس قبل تک کراچی میں ان کی ذاتی ورکشاپ تھی۔ انھوں نے کرائے پر گھر لے رکھا تھا اور نشبتاً آسان زندگی گزار رہے تھے۔

پھر شاہین اختر کا مسلسل نویں مرتبہ حمل ضائع ہوا۔ مختار احمد کو وہ دن بھی یاد ہے۔

’اب کی بار تو جو بچہ ضائع ہوا وہ پورے دنوں کا ہوا، پہلے تو چھ ماہ پر ہو جاتا تھا، اس دفعہ نو ماہ چار دن کا ہوا۔‘

اس کے بعد شاہین اختر سُدھ بدھ کھو بیٹھیں۔

’ہم کراچی میں ہی تھے جب یہ ایک دفعہ ڈر گئی تھیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی حالت بگڑتی گئی۔ یہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگیں۔ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی۔‘
 

image


بعد میں معلوم ہوا کہ انھیں شیزوفرینیا کا مرض لاحق ہے۔

اس وقت بھی مختار احمد کراچی کے اچھے ہسپتالوں سے ان کا علاج کروا رہے تھے۔ ڈاکٹر انھیں بتاتے تھے کہ ان کی اہلیہ کی بیضہ دانی میں نقص تھا جس کی وجہ سے بچہ نہیں بن پاتا تھا۔

’میں مرد سے عورت بن گیا خدمت کرنے والی‘
اس کے بعد بھی شاہین اختر کا علاج جاری رہا۔ ابتدائی دنوں میں تو وہ مکمل طور پر بستر آ گئیں لیکن انھیں مکمل طور پر مختار احمد کا سہارا تھا اور وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ تمام دن گھر پر رہ کر اپنی اہلیہ کا خیال رکھتے تھے۔

’ان کو دوا دینا، کنگھی کرنا، سرمہ لگانا پھر کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور اس درمیان اگر کوئی موٹر سائیکل وغیرہ کا کام آ جاتا تو وہ بھی نمٹانا۔ میں تو یوں سمجھیں مرد سے عورت بن گیا خدمت کرنے والی۔‘

مختار احمد کی شاہین اختر سے وابستگی اور ایسی محبت یکطرفہ نہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’یہ مجھ سے اتنا پیار کرتی تھیں کہ میں جب بھی رات کو کام سے واپس آتا، کبھی ایک بجے، کبھی دو بجے، مجھے دروازہ کھٹکانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یہ دروازے سے لگ کر کھڑی ہوتی تھیں۔‘

’پھر بس پیار ہی پیار ہو گیا‘
ان کی شادی سنہ 1984 میں ملتان میں ہوئی اور چار روز بعد ہی مختار شاہین اختر کو لے کر کراچی آ گئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں ’شادی سے پہلے ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں تھا لیکن یہ اتنی اچھی تھیں۔ یہ میری مانتی تھیں، میں ان کی مانتا تھا اور پھر بس پیار ہی پیار ہو گیا۔‘

شاہین اختر اپنی بیماری کے باوجود اگر کچھ یاد رکھتی ہیں تو وہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ مختار احمد نے کھانا کھایا یا نہیں۔ انھیں اس بات کی بھی فکر رہتی ہے کہ مختار احمد کے پاس پہننے کو اچھے کپڑے کیوں نہیں۔

بیماری کے زیرِ اثر اگر کسی وقت خود کلامی بھی کر رہی ہوں اور مختار احمد انھیں مخاطب کریں تو ان کی بات سنتی بھی ہیں اور مانتی بھی ہیں۔

شاہین اختر کی بیماری کے بعد یہ جوڑا کراچی میں زیادہ عرصہ نہیں رہ پایا۔ مختار احمد کی والدہ انھیں واپس ملتان بلانے پر بضد تھیں۔ 12 سال قبل ایک روز وہ اہلیہ کو ساتھ لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ ملتان چلے آئے۔

’روٹی کھانے کو نہیں ملتی تھی۔۔۔سو جاتے تھے‘
ملتان میں واپس آ کر بھی انھیں زیادہ کام کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ اپنی کچھ جمع پونجی سے انھوں نے آبائی گھر میں اپنا حصہ بیچا جس کے انھیں چھ لاکھ ملے۔

اس پیسے سے آئندہ چھ برس میں نے گزارا کیا، ان کا علاج بھی کرواتا رہا، گھر کا کرایہ اور خرچ بھی چلتا رہا۔‘

چھ سال قبل جب وہ پیسہ ختم ہو گیا تو مختار احمد اور شاہین اختر سڑک پر آ گئے۔
 

image


وہ بتاتے ہیں ’شروع میں مشکلات تو ہوئیں، کبھی کبھار کوئی ایسا دن بھی آ جاتا تھا کہ روٹی کھانے کو نہیں ملتی تھی، تو پھر سو جاتے تھے۔‘

انھی دنوں گزر بسر کے لیے مختار احمد نے وہ کمرہ ڈھونڈھا جس کے باہر وہ ان دنوں رہایش پذیر ہیں۔ گزر بسر کرنے کے لیے انھوں نے چاولوں کی ریڑھی لگائی۔

’اس وقت بھی یہ (شاہین اختر) میرے ساتھ رہتی تھیں، چاہے گرمی ہو یا سردی۔ بس کبھی جب تھک جاتی تھیں تو وہیں کسی سے سٹول پکڑ کر انھیں بٹھا دیتا تھا۔‘

’اللہ پاک نے لاکھوں میں ایک دی ہے میری بیوی‘
مختار احمد کی والدہ اور دوست رشتہ داروں نے ان پر دوسری شادی کے لیے دباؤ بھی ڈالنا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ انھیں یاد ہے کہ وہ کئی کئی ماہ ملتان اسی لیے نہیں آتے تھے کہ ان سے دوسری شادی کی بات کی جائے گی۔

’بس جو لوگ ان سے حسد کرتے تھے وہ مجھے مشورہ دیتے تھے کہ میں دوسری شادی کر لوں لیکن اللہ پاک نے لاکھوں میں ایک دی ہے میری بیوی۔‘

’جب کبھی بچہ ضائع ہوتا تھا نا اور ڈاکٹر انھیں بیہوشی کا ٹیکہ لگاتے تھے اور یہ جب ہوش میں آتی تھیں تو وہ کہتے تھے بڑے میاں آؤ آؤ، تماری لڑکی کو ہوش آ گیا ہے۔ یہ اپنی عمر سے 20 سال چھوٹی لگتی ہیں۔‘

چھ برس انتہائی کسمپرسی میں گزرنے کے باوجود بھی نہ تو مختار احمد کی ہمت کم ہوئی ہے اور نہ معمول بدلا ہے۔ وہ شاہین اختر کو اکیلا نہیں چھوڑتے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی اہلیہ کو بیماری کی حالت میں رکشے میں بیٹھا دیکھ کر بہت سے لوگ اس میں نہیں بیٹھتے۔

اس سے ان کا نقصان بھی ہوتا ہے مگر وہ کہتے ہیں انھیں زیادہ کی لالچ نہیں۔ ’بس اگر 300 روپے ضرورت ہے اور 400 روپے بن جائیں تو گھر چلے جاتے ہیں۔‘

یہ ان کی فطرتِ ثانیہ ہے کہ بڑی سے بڑی مشکل کو بھی امید سے مخمور ایسے لہجے میں بیان کرتے ہیں کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں۔

’یہ خوش نہیں رہیں گی تو ہم کیسے خوش رہیں گے‘
مختار احمد کہتے ہیں ’کم زیادہ، اچھے برے دن تو آتے رہتے ہیں مگر ایسا نہیں کہ ذرا سا بُرا وقت آیا اور بیوی کو چھوڑ دیا۔' رکشہ انھوں نے تین ماہ قبل ہی خریدا ہے اور وہ پر امید ہیں کہ جلد اتنے پیسے بنا لیں گے کہ کمرے کی چھت ڈال سکیں۔

’بس کوشش ہے کہ ذرا سا بہتر ہو جائے، چھت ڈل گئی تو یہ ذرا بہتر محسوس کریں گی۔ اگر یہ خوش نہیں رہیں گی تو ہم کیسے خوش رہیں گے۔ آخر کو یہ ہمسفر ہیں میری۔‘

ساتھ ہی ساتھ ان کو شاہین اختر کے علاج کی بھی فکر ہے۔ کچھ عرصہ علاج بند رہنے کے بعد اب دوبارہ کچھ صاحبِ حیثیت لوگوں کی مدد سے دوبارہ ان کا علاج شروع کیا تھا۔

لیکن انھں لگتا ہے کہ شیزوفرینیا کی علامات کو قابو میں رکھنے کے لیے وہ جو دوا لے رہی ہیں اس کے منفی اثرات بھی ہو رہے ہیں۔

’ان کے ہاتھ پیر کانپنے شروع ہو گئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ اللہ نہ کرے معاملہ فالج کی طرف نہ چلا جائے۔‘

وہ دونوں خلوت میں ایک دوسرے کو آج بھی گانے سناتے ہیں اور جہاں موقع ملے تھوڑا جھومر بھی ڈال لیتے ہیں۔ پیالے سے شاہین اختر کو چائے پلاتے ہوئے مختار احمد نے کہا ’ہم گاڑی کے دو پہیے ہیں سو چلے جا رہے ہیں۔‘


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: