ڈھلتے ہوئے سورج کو زرا دیکھ ( پہلا حصہ )

عالم اسلام کی پستی اور زبوں حال کو دیکھکر ہمارے
ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر مسلمان کیوں زبوں
حالی اور انحطاط کاشکار ہیں۔
آخر عالم اسلام علوم و فنون میں دوسری اقوام سے کیوں پیچھے دکھائی دیتا ہے ۔
یہ جواب جاننے کیلئے ہمیں تاریخ کے اوراق کو پلٹنا پڑےگا۔

***ڈھلتے ہوئے سورج کو زرا دیکھ *** ( پہلا حصہ) تحریر :محمد منورسعید
عالم اسلام کی پستی اور زبوں حال کو دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر مسلمان کیوں زبوں حالی اور انحطاط کاشکار ہیں۔
آخر عالم اسلام علوم و فنون میں دوسری اقوام سے کیوں پیچھے دکھائی دیتا ہے ۔
یہ جواب جاننے کیلئے ہمیں تاریخ کے اوراق کو پلٹنا پڑےگا۔
قرون اولی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم یوتا یے کہ پانچویں صدی عیسوی میں سلطنت روما کے زوال کےبعد یورپ میں پاپائیت کا راج قائم ہوا۔
اس تاریک دور میں سلطنت روما کے تمام علمی فنی سرمائے اور اثاثوں کو پامال کیاگیا اور صرف نام نہاد مذہبی علوم ہی کو فروغ دیا گیا ۔
تاریخ کو مسخ کرکے عیسائی راہبوں اور ولیوں کی سچی جھوٹی داستانیں قلم بند کی گئیں ۔ مادی ترقی کے لحاظ سے یہ کافی ترقی یافتہ تھے ۔
معاشی تجارتی اور فن تعمیر کے لحاظ سے یہ خطہ عرب سے بہت اگے تھا مگر اخلاقیات اور معاشرتی لحاظ سے یہ بد ترین پستی اور تباہ حالی کا شکار تھے ۔
اسکو Dark age of Europe بھی کہا جاتا ہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں چار سو اسلام کانور پھیلا تو دیکھتے ہی دیکھتے دو سو سال میں مسلمانوں کی سلطنت ایشیا افریقہ یورپ تک وسیع ہوتی چلی گئی۔
خلافت راشدہ کے بعد اموی سلطنت اور پھر خلافت عباسیہ مسلمانوں کے زریں اور روشن ادوار ہیں ۔
ان ادوار میں مسلمانوں نے نہ صرف فوجی فروحاصل کیں بلکہ سائنسی معاشرتی اور معاشی علوم وفنون میں بھی لاتعداد کامیابیاں حاصل کیں ۔
یہاں یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ اگر ریاست میں استحکام ہو،سیاسی اور انتظامی معاملات پر اسکی گرفت مضبوط ہوتو اس کے زیرسایہ افراد کی ذہنی فکری و تعمیری سوچ نموپاتی ہے ،تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں ۔قومیں افراد سے بنتی ہیں۔لہذا جب اجتماعی طور پر نظر ڈآلیں تو ایسی قومیں ہر سطح پر سربلند اور ترقی کرتی دکھائی دیں گی۔
مسلمانوں نے سائنسی اور علمی میدان میں ایک ہزار سالہ انقلابی دور گزارا ہے۔ ان ادور خلافت میں ریاست کے زیر سایہ میں علم و عمل کے دو بنیادی مراکز دکھائی دیتے ہیں ۔
بغداد اور اندلس ۔
بغداد جو عرب ایشیا افریقہ تک پھیلا تھا ،جہاں علم و فضل کا گہوارا تھا۔ وہیں اندلس جو پرتگال یورپ اور آئبیٹریا تک محیط تھا وہ بھی کسی لحاظ سے پیچھے نہ تھا۔
اندلس میں علمی و فکری اِرتقاء مشرق کے اِسلامی ممالک کی بنسبت تاخیر سے شروع ہوا۔
اس تاخیر کا بڑا سبب سلطنت کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔
مگر جب وہاں سیاسی استحکام نصیب ہوا ۔یہاں کےمسلمانوں کو صحیح معنوں میں آزادئ اَفکار نصیب ہوئی اور اُنہوں نے علومِ عقلیہ پر کھل کر تجربات و تحقیقات شروع کیں تو انھوں نے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جو موجودہ دور کی سائنسی اور علمی ترقی کیلے کی بنیاد بنے ۔
اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے سائنسی طریقِ کار کو فروغ دیا ۔
Astronomy ،Mathematics ،Medical science
Astrology ,Chemistry ,Botany ,Geography,
History, lofic, Philosophy .
اور بے شمار صنعتی علوم و فنون ہماری روز مرّہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے ۔
لوگ علم کو برائے علم حاصل کرتے تھے نہ کہ برائے معاش۔
اندلس میں لاکھوں کتب خانے تھے
یونیورسٹی اسکول علمی درسگاہیں بے شمار تھیں ۔
مرد وزن تعلیم و تحقیق میں مگن تھےجبکہ حکمران انکی سرپرستی کرتے تھے ۔
اندلس میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد عیسائیپادریوں نے مسلمانوں کی تمام لائبریریاں جلادیں، کتب خانے برباد کردیے ۔علما فضلاء کا قتل عام کردیا۔
جوکہ در اصل مسلمانوں کی سوچ و فکر کا قتل تھا ۔
یہ انکی تباہ کاریوں کا آغاز ثابت ہوا۔
اس دور سے کچھ بیشتر ہلاکو خان کی زیر قیادت منگول
افواج نے خلافت عباسیہ کے دار الحکومت بغداد کا محاصرہ کرکے شہر فتح کر لیا اور عباسی حکمران مستعصم باللہ کو قتل کر دیا۔
شہر میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور کتب خانوں کو نذر آتش اور دریا برد کر دیا گیا۔
اس شکست کے ساتھ ہی امت مسلمہ کے عروج کا دور اول ختم ہو گیا۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہلاکو خان مسلمانوں کا وہ بدترین دشمن دکھائی دیتا ہے کہ جس نے نہ صرف مسلمانوں کی سیاسی برتری اور حکومت کو ختم کیا بلکہ علمی ورثہ تباہ کرکے مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے من حیث القوم علمی و فکری سوچ سے محروم کردیا۔
بعض ماہرین کے خیال میں مغربی تہذیب صرف اسی وجہ سے پھل پھول سکی کہ منگولوں نے اس وقت کی برتر مسلم تہذیب کو تباہ کر کے مغرب کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا۔
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا،​
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام،​

(جاری ہے )


 

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50336 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.