کیا یہ ممکن نہیں؟

ہم سفر کے دوران جب بھی کوئی غلطی کرتے ہیں تو ہمیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے کبھی پیسوں کی صورت میں، کبھی گاڑی کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں تو کبھی خود کو چوٹ وغیرہ کی صورت میں. لیکن ہم میں ایک خامی ہے کہ ہم غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور غلطی پر غلطی کرتے رہتے ہیں حالانکہ اگر ان ہی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے تو ہم اپنے آپ کو اپنے معاشرے کو سدھار سکتے ہیں. روڈ پر سفر کے دوران ہمیں اوور سپیڈ، سیٹ بیلٹ کے بغیر ڈرائیو کرنے پر، دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون استعمال کرنے،اوور لوڈنگ، بغیر ہیلمٹ اور بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے لیکن مجال ہے ہم ٹس سے مس ہوتے ہوں ہم نے لائسنس تک نہیں بنوانا، ہیلمٹ نہیں خریدنا اور خرید بھی لیا تو سیف گارڈ کے ساتھ لٹکا لینا ہے پہننا نہیں. ہمیں عادت ہے ہم سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ موٹروے پولیس کو دیکھ کر پہنتے ہیں نہ کہ اپنی حفاظت کے لیے. مطلب یہ نکلا کہ ہم میں شعور کی کمی ہے کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بچوں کے نصاب سے ایکسٹرا مضامین نکال کر نصاب میں روڈز کے متعلق بک یا مضامین شامل کردیں جنہیں بچے پڑھیں اور پیپر دے کر پاس ہوں اور جو پاس ہوجائے اسے میٹرک کی سند کے ساتھ یا ایف اے کی سند کے ساتھ ہی ڈرائیونگ لائسنس ایشو کردیا جائے وہ بچے جو باقاعدہ امتحان دے کر پاس ہوں گے یقینا'' وہ سفر کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے حادثات میں کمی ہوگی. اگر یہ ممکن نہیں ہے تو اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ موٹروے پولیس کی گاڑی کو تھوڑا اور جدید کر دیا جائے اور اس میں ایک کمپیوٹر اور پرنٹر کی سہولت بھی فراہم کردی جائے تاکہ جس بندے کا لائسنس نہ ہو اس کو جرمانہ کرنے کی بجائے اس کا آن دی سپوٹ لرننگ لائسنس بنایا جائے گاڑی تو وہ آل ریڈی چلا رہا ہے اس سے تو وہ باز آنے سے رہا کم از کم آپ اسے ٹیکس کے دائرہ کار میں ہی لے آئیں اور اس کو لائسنس ایشو کردیں تاکہ آئندہ اسے لائسنس کی وجہ سے پرابلم نہ ہو. اسی طرح ہیلمٹ کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے موقع پر ہی بائیکرز کو ہیلمٹ دے کر اسے نصیحت کردی جائے کہ آئندہ ایسا کرنے پر اس کی بائیک تھانہ میں بند کردی جائے گی تو اس مسئلہ کو بھی سلجھایا جاسکتا ہے. اگر موٹروے پولیس کی گاڑیوں کو اپ گریٹ کرنے میں پرابلم ہوتو مختلف جگہوں پر مووی بنانے والی چیک پوسٹس پر یہ کام آسانی سے کیا جاسکتا ہے. لیکن آپ ایسا کیوں کریں گے ایسا کرنے سے تو آپ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے محروم ہوجائیں گے یہ جو روزانہ کروڑوں روپے آپ روڈذ وائلیشن کی مد میں اکٹھا کرتے ہیں وہ کہاں سے آئے گا) جی ہاں کروڑوں روپے ابھی چند دن پہلے میرے ایک صحافی بھائی نے ایک چینل پر خبر نشر کی تھی کہ ملتان روڈ پر صرف ایک بیٹ پر موٹروے پولیس نے چھ گھنٹے میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ جرمانوں کی مد میں اکٹھا کیا ہے پورے پاکستان کا آپ خود حساب لگا سکتے ہیں ( اور جو ہزاروں روپے کمیشن بنتی ہے اس کا کیا ہوگا. آپ نے جرمانوں کے ریٹ بڑھا دیے لیکن بہتری کا نہیں سوچا آپ نے کبھی سوچا ہے لوگ لائسنس کیوں نہیں بنواتے؟

وہ اس لیے حضور کہ لائسنس بنوانا کوئی آسان کام نہیں میرا ایک دوست جو دس سال سے ڈرائیونگ کررہا ہے اسے اپنے لائسنس کو کمپیوٹرائز کروانا تھا کئی چکر لگانے کے بعد بھی اسے پانچ ہزار روپیہ رشوت دے کر لائسنس بنوانا پڑا یہ تو اس کا حال ہے جو دس سال سے مزدا، ٹیوٹا اور کار چلا رہا ہے اور جب کوئی میرے جیسا نیا بندہ لائسنس بنوانے کے لیے جائے گا جو صرف بائیک چلاتا ہے تو اس کے لیے ایسے ایسے قاعدے قانون اور ٹیسٹ بنائے ہوئے ہیں کہ وہ زندگی بھر لائسنس کے قابل نہیں ہوسکتا. اوپر سے ہربندے کو لائسنس کے حصول کے لیے ڈسٹرکٹ میں جانا پڑتا ہے جو الگ مسئلہ ہے حضور ہر سٹی میں ہر تحصیل میں گورنمنٹ کے ذمہ دار لوگ موجود ہیں) تحصیل کی سطح پر بھی کاؤنٹر بنا دیے جائیں تو بہت بہتری ہوسکتی ہے(جن کے ذمہ یہ کام لگا کر حکومت کے خزانے کو فائدہ اور عوام کو خجل خواری سے بچا کر دعائیں لی جاسکتی ہیں.

Yaseen Yas
About the Author: Yaseen Yas Read More Articles by Yaseen Yas: 3 Articles with 2048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.