ہمارے ملک پاکستان میں آئے دن اخباروں میں یہ خبر آتی
رہتی ہے کہ ٹریفک حادثے میں اتنے افراد جاں بحق اور اتنے زخمی۔ دوسری طرف
کوئی وائرس عام ہو جائے تو بچے، بوڑھے، بڑے سب بیمار پڑ جاتے ہیں اور صرف
یہی نہیں بجلی کی بات کی جائے تو کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں صرف لوڈشیڈنگ
نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بجلی جانے کا معمول رہتا ہے اور لوگوں کے کئی
کام اس وجہ سے رک جاتے ہیں اور ایک طرف اردگرد کے شور شرابوں سے کئی لوگ
بلڈ پریشر کے مریض ہوگئے ہیں یا نفسیاتی ہوگئے ہے آخر یہ سب چیزیں ،
پریشانیاں پاکستان میں ہی کیوں ہیں کہیں اور کیوں نہیں؟ لوگ آخر بیرون ملک
جانا کیوں پسند کرتے ہیں؟ وہاں کا ماحول ان کو ذہنی سکون کیوں دیتا ہے؟
کہیں ہم میں تو خرابی نہیں؟ کیا ان سب چیزوں کے ذمہ دار خود ہیں؟ یا اس کی
ذمہ دار صرف حکومت ہے اور اسی کو ہونا چاہئے؟ کیا کہیں کسی کتاب یا کسی جگہ
پر یہ بات مہر کی طرح لکھ دی گئی ہے کہ تام پریشانیوں کی ذمہ دار صرف حکومت
ہی ہوگی اور باقی بسنے والی عوام نہیں۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، گٹر کا بہنا
، گندا پانی اور پھر ان میں پیدا ہونے والے مچھر اور نت نئے جراثیم اگر ہم
سب کو بیمار نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ کیا آپ کبھی غور نہیں کرتے
کہ راستے یا گاڑی میں جب آپ کچھ کھاتے ہوئے جارہے ہوتے ہیں تو ختم ہونے کو
بعد اس چیز کو وہی سے باہر پھنک دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی
حکومت صحیح نہیں ہے۔ کیا گھروں سے باہر پانی ڈالنا اور سڑک کو گیلا کردینا
اور پھر آنے جانے والے مسافروں کے لئے پریشانی کا سبب بننا کیا یہ سب ہم
نہیں کرتے؟ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ ہماری حکومت تو کچھ اچھا کام کرہی نہیں
سکتی اور پھر اسی گندے پانی کے اوپر سے کچھ موٹر بائیکز اور رکشے میں سوار
ڈرائیور بغیر کسی کا لحاظ کیئے تیزی سے نکل جاتے ہیں۔ اور لوگوں کے اوپر اس
گندے پانی کی چھینٹیں اڑتی ہوئی آتی ہیں۔ تو کیا اس کام میں ذرا بھی کوئی
نیکی شامل ہے؟ رکشے میں سوار ڈرائیور، گاڑی پر سوار لوگ، موٹر سائیکل پر
سفر کرنے والے افراد اکثر رونگ سائیڈ (wrong side) پر جانا شروع کردیتے ہیں
تاکہ منزل تک جلدی پہنچ سکیں مگر الٹا دیر ہی ہوتی ہے کیونکہ سامنے سے آنے
والی گاڑیوں سے ٹکراو جو ہونے لگتا ہے اور پھر اسی میں کسی ایک کی غلطی کی
وجہ سے کسی کے پیارے کی جان چلی جاتی ہے۔ ٹریفک سگنل کو بھی کبھی کبھی
توڑنا شاید ہم اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں۔ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ پتا نہیں
پاکستان کبھی اچھے ملک کی حیثیت سے جانا جائے گا بھی یا نہیں۔ بات کریں
بجلی کی تو بجلی چوری کرنے میں شاید ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ کنڈا لگا لینا
اور پھر اس سے بل میں بچت ہونا شاید بہت نیکی اور فائدے کا کام ہے۔ بہت سے
لوگوں کو میری باتیں بری لگ رہی ہونگی مگر حقیقت یہی ہے اور ہم اپنی انہی
حرکتوں کی وجہ سے آج سب سے پیچھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کو اچھی
نگاہوں سے نہ دیکھا جاتا ہے اور نہ سمجھا جاتا ہے۔ اب بات ہوگی ماحول میں
موجود شور شرابے کی ۔ تو اب بات یہاں پر لاوڈ اسپیکر کی ہے۔ گھروں میں چلتا
ہوا لاوڈ اسپیکر اب چاہے وہ کسی بھی حوالے سے ہو یا کسی بھی ایوینٹ کی وجہ
سے ہو میں یہاں گہرائی میں نہیں جانا چاہوں گی یا باہر لگے ہوئے لاوڈ
اسپیکر ہی کیوں نہ ہو، پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ ساتھ رہنے والے اشخاص اور
گھر پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بندہ نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو یہ تو نہیں
پتا ہوتا کہ وہ نماز میں پڑھ کیا رہا ہے البتہ باہر سے آنے والے شور کی
آواز اسکےکانوں میں گونج رہی ہوتی ہے اور چونکہ زبان عادی ہوجاتی ہے اس
لیئے بندہ نماز پڑھے چلا جا رہا ہوتا ہے مگر نماز میں پڑھا جانے والا کلام
کم اور باہر سے آنے والا شور ذیادہ سمجھ میں آرہا ہوتا ہے ۔ اگر کوئی اسکول،
کالج، یونیورسٹی یا کوئی کتاب پڑھ کر علم حاصل کررہا ہو جو ایک بہترین
عبادت ہے تو اس شور کی وجہ سے بندہ وہ بھی اچھی طرح پڑھنے اور توجہ کے ساتھ
حاصل کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ چوری، ڈکیتی ، لوڈشیڈنگ، بیماریاں، ٹریفک
حادثات کیا ان سب کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں؟ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن پر ہم
قابو پالیں تو آدھی پریشانیاں ہماری کم ہوجائیں کیونکہ باقی تو اللہ کے حکم
سے ہی ہوتا ہے مگر زندگی میں آدھی پریشانیاں ہم میں موجود برائیوں سے ہی
جنم لیتی ہیں۔ ہم سب انسان ہیں۔ ہمارا دین اسلام ہمیں چوری، ڈکیتی کی نہیں
بلکہ محنت کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ گند پھلانے کی نہیں بلکہ پاکیزگی کی دعوت
دیتا ہے کیونکہ اگر دنیا کے وہ ممالک جہاں یہ پریشانیاں کم سے کم ہیں تو اس
کا مطلب برائی ہمارے اندر ہے۔ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے۔
"خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت
بدلنے کا۔"
اب ہمیں چاہیئے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے کہ ہم اپنی سوچ اور اعمال میں
بہتری لانے کی کوشش کریں کیونکہ مکمل اور نیک انسان تو کوئی شخص بھی نہیں
ہوتا سب کے اندر کوئی نہ کوئی برائی موجود ہوتی ہے مگر بہت سی برائیوں پر
ہم قابو پانے کی کوشش کرسکتے ہیں کیونکہ سوچ بدلے گی تو بدلے گا پاکستان۔
تحریر: افراح عمران۔
|