ابن بطوطہ

خودی کی کھوج

ابنِ بطوطہ، ایک نادان اور سہما ہوا انسان جو اپنے خیال کو حقیقت میں بدلنے نکلا تھا، مگر وہ یہ کہاں جانتا تھا کے وہ جس راستے کے حصول کی تپش دل میں لئے چل رہا ہے اُس کی کوئی منزلِ مقصود ہی نہیں۔ مگر وہ کہاں ماننے کو تیار تھا اُس نے اپنی منزل دیکھ رکھی تھی اور ہر حال میں اپنی منزل کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے والا وہ عدنہ سوچ کا مالک زندگی کی کالی پرچھائیوں کو پیٹھ دکھا کر اس کوہِ طور کی روشنی کے جانب بڑھ گیا جہاں کبھی حضرت موسیٰ کو آگہ کی روشنی نظر آئی تھی لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہ نور الہی کی تجلیاں تھی، ویسے ئی اُسے شاید اپنے ضمیر کی مُنور روشنی نے یقین دلایا کے وہ خود کو کھو چکا ہے اور اُسے اب اپنی اشد ضرورت ہے (ویسے بھی کوئی اپنے بنا مکمل کیسے ہو سکتا ہے) اُسے اب اپنے جیسے ایک ہم خیال ساتھی کی ضرورت تھی جو اُسے اپنے ئی روپ میں میسر ہو سکتا تھا،

خُود کلامی ایک ایسا نُقطہ نظر ہے جو آپ کو آپ تک کا راستہ دکھاتی ہے، لہذا وہ باذریعہ خُود کلامی اپنی منزل کی جانب چل پڑا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ سمجھ چکا تھا اسے اپنے اندر تک کا سفر طئے کرنا ہے جس کا راستہ کٹہن بہت ہے مگر ہار تو اس کے وجود سے نسبت رکھتی ہی نہ تھی لہٰذا "ابن بطوطہ" نے خودی کی کھوج کی ٹھان لی (تو اپنی خودی کھو چکا ہے، کھوئی ہوئی شئے کی جستجو کر)
وہ جُنونِ عِشق میں اپنی وجودِ ہستی کو ڈھونڈنے نِکلا ہوا ابنِ بطوطہ اپنے قلبِ مومِن کی چاہت میں راہ در بدر اپنے ہی وِجدان کی گلیوں میں بھٹکتا ہوا اُس راہ پر چل رہا تھا جس کی کوئی حقیقی مثال تھی ہی نہیں، مگر جب کسی کو اپنے وِجدان کی بھنک لگ جاتی ہے تو وہ کمال درجے کا حوصلہ اور جنون اپنے سینے میں رکھتا ہے
صحرائے سمندر پے چلتے چلتے کبھی اِدھر دیکھتا کبھی اُدھر اپنی سوچوں میں گم رُکسار کے بل چل رہا تھا مگر نا امیدی اداسی اور مایوسی کے سوا کچھ درکار نہیں تھا ہوتا بھی کیسے ابن بطوطہ ایک ایسے لاحاصل وِجدان کے حصول کی زد میں تھا جس نُقطہ نظر کی کوئی وجودِ ہستی عالَم حقیقت میں نُمایاں تھی ہی نہیں سوا ایک خیال کے اس کا حقیقت بن پانا اس کے لئے تقریبًہ ناممکن تھا

تھی کسی شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا..!!

مگر ابن بطوطہ کو اپنے جیسے ایک شخص کی تلاش تھی اور اس نے خود کو انتخاب کر لیا ایک خیال جِس کی حالِ وقت میں کوئی حقیقت نہیں تھی اُس حقیقت کے پیچھے ایک در حقیقت مر مٹ جانے کو تیار تھی کیوں کے وہ جانتا تھی اس حقیقت کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ایسی حقیقت کو بھلا کیسے کوئی حقیقت سمجھے

یوں نہیں ملتا کوچہؑ، گُلِ گُلِستاں میں
پہلے گُل بننا پڑتا ہے گُلِستان کے مُقابل

اپنی ہستی مٹانی پڑتی ہے تبھی جا کر بندا کہیں خُود سے آشنا ہوتا ہے منصور حلاج نے من کی مے کو جلا کر بھسم کیا تھا تبھی جا کر انلحق کی صدا سے منسُوخ ہوئے تھے جو اہلِ نظر کی نظر میں ایک کُفر ہے ظُلم ہے

اندھیری رات کا آخری پھر ختم ہونے کو تھا اور سورج اپنا نورانی چہرے کی کرنو سے دنیا کو روشن کرنے کے لئے تیار تھا مگر ابنِ بطوطہ کے اندر کسی روشنی کی کوئی اُمید نہیں تھی وو بھی دیارِ دل کے دِئے کو جلانا چاہتا تھا مگر طوفان برپا ہو تو دِیا جلایا جائے کیسے؟
من مست مگن ابنِ بطوطہ سپنوں کے ویران صحراوؑں پی چل رہا تھا جہاں اس کی ذہین کے سوچ کے علاوہ کوئی شور نہیں تھا وہ کم عقل دل تک کا سفر اپنی عدنا سوچ کے سہارے طئے کرنا چاہتا تھا مگر دل تک کا سفر طے کرنا کاش آسان ہوتا دل کا سفر طئے کرنا مطلب اپنی روح کو پہنچنا روح کو پہنچنا مطلب خود کو حاصل کرنا اور جس نے خود کو پہچان لیا سمجھو خدا کو پہچان لیا (مٙنْ عٙرٙفٙہْ نٙفْسٙہْ فٙقٙدْ عٙرٙفٙہْ رٙبّٰہْ)

مگر خود کو، خدا کو حاصل کرنے کے لئے خود کی ہی وجود ہستی خاک کے سپرد کرنی پڑتی ہے،
لا موجود اللہ ھُو، خود پرستی اور نفس پرستی ہی دراصل بُت پرستی ہے اور اسی کو ترک کرنے کے بعد کہیں خُدا پرستی کی منزل شروع ہوتی ہے خُدا کو حاصل کرنے کے لئے قلبِ مومن کو حاصل کرنا ضروری ہے اور قلبِ مومن کو حاصل کرنے کے لئے نفس کا مرنا ضروری ہے

کتنی عجیب بات ہے نا کبھی کبھی بندا خود کو ڈھونڈنے نکلتا ہے اور خود کا ہی وجود کھو بیٹھتا ہے، ابنِ بطوطہ بھی اپنی ہستی کھو رہا تھا

پوری رات خود سے جھگڑتے لڑتے ہوئے رات کے پچھلے پھر بجھتی آنکھوں میں کہیں وہ خوابوں کی دنیا میں جا پہنچا ایک ایسی دنیا جو اس نے کھبی نہیں دیکھی تھی جہاں زمیں، زمیں نہیں آسمان تھا اور گلاب کے پودے نہیں پیڑ تھے، بہت عرصے کے بعد اس نے اُس کو دیکھا جو روزِ ازل سے اس کے اندر موجود تھا قلبِ مومن جو ایک املتاس کے پیڑ کے ساۓ تھلے بیٹھا تھا ایک دم ابنِ بطوطہ نے اپنے ہواس کھو دئے ہوں جیسے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا کرے اپنے سامنے روئے یا ہنسے جیسے دنیا ایک پل میں ہی بادل گئی ہو اسے یقین نہیں آ رہا تھا یقین آتا بھی کیسے اتنی شدت اور مدت کے بعد خود کی کہیں تجلی دیکھ رہا تھا خود کی کیا خدا کی تجلی دیکھ رہا تھا ابن بطوطہ،

ہاں وہ کل جہاں کا مالک جس نے جمادات، معدنیات، مجردات، فلکیات، عنصریات، انسان ذات، یہاں تک کے نباتات و حیوانات بنائے وہ طہتُصراہ وراہ اُلْوراہ ذات جس کے قبضے میں عالَم عرواه کی جان ہے خود خُدا قرآن مجید میں فرماتے ہیں
مٙنْ عٙرٙفٙہْ نٙفْسٙہْ فٙقٙدْ عٙرٙفٙہْ رٙبّٰہْ
جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے خُدا کو جان لیا۔۔۔

ایسے ئی بنا حرکت عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے وقت کی گھڑی رک گئی ہو پانی جم گیا ہو ہواؤں نے رخ موڑ لیا ہو اور ابن بطوطہ کی دھڑکنوں نے جیسے دھڑکنا چھوڑ دیا ہو کے اچانک ایک آواز سنائی دی کے آخر ڈھونڈھ لیا مجھے ابن بطوطہ اچانک چونکہ اور اپنے آپ کو سمبھالتے ہوے بولنے لگا اے قلبِ مومن آپ کہاں رہ گئے ہیں مجھے چھوڑ کے کہاں چلے گئے ہو مجھے سے اتنے خفا کیوں ہو مجھے آپ کی ضرورت ہے میرا وجود آپ کی سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتا مجھے تنہا مت کرو وہ بول ہی رہا تھا کے اپنے اندر بیٹھے اس قلبِ مومن کی آواز کڑک پڑی کے کتنے عرصے سے میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا تھا مگر تم نے میری ضرورت محسوس نہیں کی کرتے بھی کیسے دُنیاں داری سے فرصت ہی کہاں اپنے آپ سے ملنے کا وقت ہی درکار کہاں وقت کیا دل ہی درکار نہیں، اب تمھیں میری ضرورت ہے مگر سُن لو مجھے اب کسی کی ضرورت نہیں رہی قلبِ مومن جیسے اسے احساس دلا رہا تھا

تلخ حقیقت تو یہ ہے کے آپ ہی حقیقت ہو باقی سب جھوٹ ہے مکاری ہے آپ ہو تو دنیا داری ہے مگر اِس دُنوی حقیقت سے ایک اور بھی حقیقت ہے وہ ہے آپ کی دنیا جہاں صرف آپ اور آپ کے خیالات رہتے ہیں اور در حقیقت دُنیا یہ ہے جب کبھی بھی خود کو پریشان پاؤ تو خود سے مشورہ کر لیا کرو نتائج اچھے حاصل ہونگے

کتنی ویرانی ہے میرے اندر
کس قدر تیری کمی ہے مجھ میں

ابنِ بطوطہ بھی اندر سے ویران و تنہا ہو گیا تھا، کیوں کے اصل ویرانی دل کی ویرانی ہے کیوں کے صرف آپ ہی ہو جو ہمیشہ اپنے قدم بہ قدم ساتھ رہتے ہو شرط یہ ہے کے خود کے ساتھ تعلق مضبوط ہو تو، باقی سب تو آرضی ہے دنیاداری ہے خاکی ہے اور یہی لمحہٙ فِقریہ ہے کے ہم خود کو کیوں میسر نہیں

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں

صدیاں بیت جاتی ہیں گویا خود کا ملنا ممکن نہیں بن پاتا، اگرچہ مل بھی لیا تو قلبِ مومن ابنِ بطوطہ سے ناراض تھا

تحریر: عبدُالجٙبّار لاڑک

Abdul Jabbar Larik
About the Author: Abdul Jabbar Larik Read More Articles by Abdul Jabbar Larik: 4 Articles with 3754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.