|
’میں نے ایک دن پولیس اہلکاروں کو ایک لاش دریا میں پھینکتے دیکھا، میں
ششدر رہ گیا، اس دن میں نے خود سے کہا کہ آج سے میں ان لاوارث لاشوں کا
وارث ہوں اور میں ان کی مناسب تدفین کروں گا۔‘
یہ کہنا ہے محمد شریف کا جو گذشتہ 28 برس سے اپنے بیٹے کی یاد میں اپنا
وعدہ نبھا رہے ہیں۔ انڈیا میں سنہ 1992 میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں
ان کا بیٹا ہلاک ہو گیا تھا اور اس کی لاش کبھی نہیں مل سکی تھی۔
شمالی انڈیا کے شہر ایودھیا میں چاچا (انکل) شریف کے نام سے جانے جانے والے
شحض نے اپنے مشن کے بارے میں بی بی سی سے بات کی۔
|
|
تدفین اور آخری رسومات
انھیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ انھوں نے کتنی لاشوں کی تدفین یا آخری رسومات
ادا کی ہے۔ ایودھیا ضلعی انتظامیہ کے سربراہ انوج کمار جھا نے بی بی سی کو
بتایا کہ ان کے پاس شریف کو دی جانے والی لاوارث لاشوں کا مکمل ریکارڈ نہیں
ہے۔
ہمارا اندازہ ہے کہ ہم انھیں تقریباً 2500 لاشیں دے چکے ہیں۔ شریف کے اہل
خانہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے 5500 سے زائد افراد کی آخری رسومات ادا کی ہیں،
لیکن ہندوستانی میڈیا نے ان اعداد و شمار کو 25000 تک پہنچا دیا ہے۔
متعدد وجوہات کی بنا پر لاوارث لاشوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ ان میں سڑک اور
ریل حادثات کا شکار ہونے والے یا گھر سے دور مرنے والے افراد، حجاج، تارکین
وطن اور بوڑھے افراد جنھیں ان کے بچوں نے چھوڑ دیا ہوتا ہے، شامل ہوتے ہیں۔
بعض اوقات چند غریب مریض بھی شامل ہوتے ہیں جو ہسپتال میں مر جاتے ہیں اور
ان کی آخری رسومات ادا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
حکام غیر سرکاری تنظیموں اور شریف جیسے رضاکاروں کی مدد سے ان لاوارث لاشوں
کی تدفین کرتے ہیں، لیکن یہ عام طور پر ایک بے لوث خدمت ہے۔ سویلین اعزاز
کی فہرست میں چاچا شریف کا نام آنے کے بعد ان کا یہ قابل ذکر کام منظر عام
پر آیا۔
انھیں ایک ممتاز قومی ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے۔ لیکن چاچا شریف کے لیے
ایوارڈ ایک مشکل سفر کی انتہا ہے۔
|
|
لاپتہ بیٹا
چاچا شریف نے اپنی ماں کو پیدائش کے وقت ہی کھو دیا تھا، ان کی پرورش ان کے
دادا دادی نے کی جو انھیں تعلیم نہیں دلا سکتے ہیں۔
انھوں نے بہت چھوٹی عمر میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا اور سائیکلوں کو
ٹھیک کرنے کا طریقہ سیکھا، لیکن ذاتی صدمہ برداشت کرنے کے بعد پچاس کی
دہائی کے اوائل میں وہ ایک سماجی کارکن بن گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے بیٹے کے غائب ہونے کے بعد میں نے پاگلوں کی طرح ایک
ماہ تک ہر جگہ اس کی تلاش کی۔‘
|
|
ہندو مسلم فسادات
محمد شریف کے 25 سالہ بیٹے محمد رئیس کی ہلاکت سنہ 1992 میں ہونے والے ہندو
مسلم فسادات کے دوران ہوئی تھی۔ ان فسادات نے پورے انڈیا اور ریاست ایودھیا
کو جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
’پولیس نے مجھے بتایا کہ اس کا جسم گل گیا تھا۔ ہم نے اس کی لاش نہیں دیکھی۔
ہمیں صرف اس کے کپڑے ملے تھے۔‘
ہندو انتہا پرستوں جن کی سربراہی موجودہ حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بانی
ممبران نے کی تھی، نے دسمبر 1992 میں ایودھیا میں سولہویں صدی کی ایک مسجد
کو توڑ ڈالا تھا۔ اس واقعے نے شمالی ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے
درمیان فسادات کی لہر کو جنم دیا جس میں سینکڑوں بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے
تھے۔
|
|
میرے بیٹے کو کس نے مارا؟
آج بھی شریف کو یہ علم نہیں ہے کہ ان کے بیٹے کو کہاں، کیسے اور کس نے قتل
کیا تھا۔
80 سالہ محمد شریف کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ شاید دیگر لاشوں کی طرح میرے
بیٹے کی لاش بھی کسی دریا میں پھینک دی گئی ہو۔‘
ان دنوں انڈیا کے بیشتر اضلاع میں مردہ خانوں کی سہولت نہیں ہوا کرتی تھی
اور لاوارث لاشوں کو جلدی سے ٹھکانے لگانے کا عمومی رواج تھا۔
ان لاشوں کی تدفین ایک ترجیحی طریقہ تھا، لیکن شمالی انڈیا میں کچھ جگہوں
پر وہ پیسہ، وقت اور محنت بچانے کے لیے لاوارث انسانی باقیات کو ندیوں میں
پھینک دیتے تھے۔
محمد شریف کہتے ہیں کہ ’میں ایک ماہ تک اپنے بیٹے کی تلاش کرتا رہا۔ وہ
مجھے کہیں نہیں ملا۔ یہاں تک کہ میں قریبی شہر سلطان پور بھی اس کی تلاش کے
لیے گیا تھا۔‘
شریف کے خاندان کو شبہ ہے کہ رئیس کی لاش کو پچاس کلومیٹر دور گومتی ندی
میں پھینک دیا گیا تھا۔
رئیس کی اچانک موت سے اس کے والدین کو دلی صدمہ پہنچا اور اس کی والدہ
ڈپریشن کا شکار ہو گئیں جو آج تک برقرار ہے۔ اس خاندان کی تکلیف اس لیے بھی
زیادہ بڑھی کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی مناسب طور پر تدفین نہیں کر سکے تھے۔
|
|
عزم و حوصلہ
محمد شریف کے لیے جذباتی صدمے کا وقت ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ انھوں نے اپنے
غم کو بھولنے کا حل، مرنے والوں کی باعزت تدفین میں نکالا۔
ان کا کہنا ہے کہ’میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ضلع میں کسی نامعلوم لاش کو ندی
میں پھینکنے نہیں دوں گا۔‘
انھوں نے پولیس کو اپنی اس خواہش کے بارے میں بتایا کہ وہ اس کام کا بیڑہ
اٹھانا چاہتے ہیں جو کوئی بھی دوسرا نہیں کرنا چاہتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب پہلی مرتبہ پولیس نے مجھے کال کی تو میرا دل زور زور
سے دھڑک رہا تھا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد پولیس نے مجھ سے نعش لے جانے کا کہا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس شخص کی گردن کٹ گئی تھی۔‘
جلد ہی ان پر اس کام کا بوجھ بڑھنا شروع ہو گیا اور یہاں تک کہ انھوں نے
مردہ افراد کی نقل و حمل کے لیے چار پہیوں والی گاڑی بھی خرید لی۔
|
|
’یہ پاگل ہو گیا ہے‘
ان کے اس نئے جنون کے باعث ان کے خاندان والوں، دوستوں اور محلے داروں نے
انھیں برا بھلا کہا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت میرے خاندان میں کوئی بھی خوش نہیں تھا، وہ مجھے
کہتے تھے تم پاگل ہو گئے ہو۔‘
انڈیا کے معاشرے میں صرف نچلی ذات کے ہندو افراد کو تاریخی طور پر تدفین
اور آخری رسومات ادا کرنے کے کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ محمد شریف ایک
مسلمان ہیں اس لیے انھیں معاشرتی بائیکاٹ سے بھی دوچار ہونا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ مجھ سے ڈرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ مجھ
سے جسمانی رابطہ کریں گے تو وہ جراثیم سے متاثر ہوں گے۔‘
پھر بھی شریف اپنے عزم پر قائم رہے اور انھوں نے لاوارث افراد کی خاطر
خاندانی شادیوں، تہواروں اور یہاں تک کہ دعائیہ تقریبات سے لاتعلقی اختیار
کر لی تھی۔
اس کام نے انھیں سکون اور راحت بخشی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کام نے مجھے
میرے بیٹے کی موت کا صدمہ بھولنے میں مدد کی۔‘
کسی بھی لاوارث لاش کی آخری رسومات ادا کرتے وقت وہ اکثر اپنے بیٹے کو یاد
کرتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا ہوں، اسے یاد کرتا ہوں۔‘
|
|
مردے کو نہلانا اور آخری رسومات ادا کرنا
وہ عام طور پر مردہ شخص کی تدفین سے پہلے نہلاتے ہیں۔ اگر انھیں یہ معلوم
ہو جائے کہ مردہ شخص مسلمان ہے تو وہ جسم کو کپڑے کی چادر میں لپیٹ کر ان
کی نماز جنازہ بھی پڑھتے ہیں۔
اگر لاش کسی ہندو کی ہو تو وہ اسے اپنے گھر سے چار کلومیٹر دور شمشان گھاٹ
لے جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب بھی مجھے کسی لاوارث لاش کے حوالے سے پولیس سے کال آتی
ہے تو میں فوراً سب کچھ چھوڑ کر وہاں چلا جاتا ہوں۔‘
|
|
موت کے بعد لاوارث قرار دینا
عام طور پر انھیں کسی فرد کی لاش موت کے کئی دنوں یا ہفتوں بعد ملتی ہے۔
پولیس اہلکار اس شخص کی شناخت کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں لیکن اگر پھر بھی
کوئی اس کا دعویدار نہیں ہوتا تو پھر لاش کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ بعض
اوقات گلنے سڑنے کے باعث اس کی حالت انتہائی بری ہوتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’بعض اوقات پولیس اہلکار میرے ساتھ قبرستان جاتے ہیں لیکن
وہ بھی بہت دور کھڑے ہوتے ہیں۔‘
محمد شریف کہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی انسانی لاشوں سے نفرت نہیں کرتے لیکن
دیگر انسانوں کی طرح وہ بھی گلی سڑی لاشوں کو دیکھ کر پریشان اور ان سے آنے
والے تعفن کا شکار ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ’میں جب بھی کوئی لاش بری حالت میں دیکھتا ہوں تو میرے لیے
سونا مشکل ہو جاتا ہے، مجھے برے برے خواب آتے ہیں اور پھر میں نیند آور
گولیوں کا سہارا لیتا ہوں۔‘
وہ اپنی مستقل طاقت کو اپنے عقیدے اور برادری سے ملنے والے احترام سے منسوب
کرتے ہیں۔
’لوگ میرے کام کی تعریف کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں تم ان کی آخری رسومات ان کے
خاندان کے رکن کی طرح ادا کرتے ہو۔‘
|
|
تنہا لڑنے والے
محمد شریف نے یہ کام تقریباً دس برس تک تنہا کیا، انھیں کسی حکومتی ادارے
یا این جی او کی جانب سے کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی گئی۔
مقامی دکاندار اب انھیں اخراجات پورے کرنے کے لیے 150 سے 170 ڈالرز تک دیتے
ہیں۔ اب ان کے پاس دو معاون بھی ہیں جو ان کا بوجھ بانٹ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہندو اور مسلمان دونوں میری مدد کرتے ہیں۔ لوگ مجھے
کھانا اور گرم کمبل دیتے ہیں۔ حال ہی میں مجھے آنکھوں کا آپریشن کروانا پڑا،
ایک اجنبی نے مجھے فون کیا اور مجھے 20000 روپے دیے۔‘
|
|
کوئی جانشین نہیں
چاچا شریف کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے، لیکن ایسا کوئی شخص موجود
نہیں جو ان کے بعد اس کام کو جاری رک سکے۔ ان کے دونوں بیٹوں اور پوتوں میں
سے کسی کو اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں۔
’وہ کہتے ہیں کہ اگر دادا یہ کر رہے ہیں، تو کرتے رہیں۔ کوئی بھی یہ کام
نہیں کرنا چاہتا جو میں کرتا ہوں۔‘
وہ ابھی بھی اپنی سائیکلیں مرمت کرنے والی دکان چلاتے ہیں جس سے ہونے والی
آمدن تین ڈالر یومیہ ہے۔ حکومت کی جانب سے دیے جانے والے ایوارڈ سے ان کی
کوئی مالی مدد تو نہیں ہو پائے گی لیکن وہ خوش ہیں کہ آخر کار ان کی کاوشوں
کا اعتراف کرلیا گیا ہے۔
|
|
چاچا شریف ریٹائرمنٹ لے کر آرام نہیں کر سکتے کیوں کہ انھیں اس بات کا
بخوبی اندازہ ہے کہ ان کے یہ کام چھوڑ دینے سے کیا ہوگا۔
’اگر میں نہیں ہوں تو پولیس پہلے کی طرح لاشوں کو ندی میں پھینک دے گی۔ جو
مرنے والے کے لواحقین کے لیے یہ ناقابلِ برداشت ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں ’میں اپنی آخری سانس تک لاشوں کی تدفین کا کام کرتا رہوں گا۔‘
|