بلند چوٹیوں کو سر کرنے والے ذیابیطس کے دو مریض

image


مائیکل شیلور اور پیٹرک مرٹس کو سیر تفریح اور کوہ پیمائی کا شوق ہے۔ مگر ان دونوں کا پِتہ کام نہیں کر رہا۔ تو پھر 50 دنوں میں امریکہ کی 50 ریاستوں میں تمام بلند چوٹیوں پر چڑھنے کے ان دونوں کے خواب کو ٹائپ ون شوگر کیسے متاثر کر رہی ہے؟

جب آپ کسی پہاڑ پر چڑھ رہے ہوں اور وہاں آپ کی شوگر کا لیول کم ہو جائے جس کی وجہ سے چکر آ سکتے ہیں یا بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے، تو یہ بات کوئی خطرے سے خالی نہیں ہے۔

یہ وہ صورتحال ہے جس کا شوگر کے مرض میں مبتلا مائیکل اور پیٹرک کو روز ہی سامنا رہتا ہے لیکن پھر بھی ان کو یقین ہے کہ وہ 50 دن میں 50 ریاستوں کے بلند ترین مقامات کو سر کر لیں گے۔
 

image


اپنے اس مشن میں انھوں نے 16000 میل کا سفر طے کرنا ہے جس میں 315 میل کے راستوں پر ہائیکنگ بھی شامل ہے۔

ٹائپ ون شوگر کی وجہ سے ان کے جسم میں انسولین پیدا نہیں ہوتی۔ یہ وہ ہارمون ہے جو خلیوں کو خوراک میں سے گلوکوز نکالنے اور اسے استعمال کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے بغیر آپ کے خلیوں میں طاقت نہیں رہتی اور وقت کے ساتھ آپ کے جسم میں گلوکوز کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔

اگر آپ کو ٹائپ ون شوگر ہو تو پھر آپ اسے روایتی طور پر ٹیکوں کے ذریعے یا انسولین پمپ کی مدد سے جسم میں انجیکٹ کر سکتے ہیں۔ پیٹرک اور مائیکل ایسا ہی کرتے ہیں۔

مقدار سے بہت کم یا بہت زیادہ انسولین بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ توازن کئی اور عوامل کی وجہ سے بھی بگڑ جاتا ہے جو خون میں گلوکوز کو متاثر کر سکتے ہیں جیسا کہ ورزش، بلندی یا غیر ضروری دباؤ۔

پیٹرک اور مائیکل نے سب سے مشکل سفر سے آغاز کیا۔

انھوں نے شمالی امریکہ کی ریاست الاسکا میں ڈینالی کے مقام پر سب سے بلند 20310 فٹ یعنی 6190 میٹر بلندی کی چوٹی کو سر کیا۔ ان دونوں کا یہ سفر ان کے لیے بہت زیادہ اور بہت کم بلڈ شوگر سمیت جیسی کئی کیفیات سے بھرپور تھا۔

’زندگی کی سب سے مشکل چیز‘
پیٹرک 1997 سے شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں جب وہ صرف نو سال کے تھے، کا کہنا ہے کہ اب تک ڈینالی کی بلندی پر ان کو سب سے مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم نے اس سفر کو بہت جلدی طے کیا ہے عام طور پر زیادہ تر لوگ بلندی تک پہنچنے کے لیے 17 دن تک کا وقت لیتے ہیں جبکہ ہم نے صرف یہ نو دن میں مکمل کر لیا۔

اس سفر کی وجہ سے میرے بلڈ شوگر اور پھیپھڑوں پر اثر پڑا۔ میں زیادہ جذباتی انسان نہیں ہوں لیکن ڈینالی کی چوٹی تک جانا میری زندگی کا سب سے مشکل تجربہ تھا۔ مائیکل کے ساتھ یہ یہ کامیابی حاصل کرنا بہت اہم بات تھی۔

ایک اور صورتحال جس سے واسطہ پڑ سکتا تھا وہ یہ تھی کہ انسولین شدید موسم میں ٹھیک حالت میں نہیں رہ سکتی۔

مائیکل جن میں 2004 میں 10 سال کی عمر میں شوگر کی تشخیص ہوئی، کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہماری انسولین کو معتدل درجہ حرارت میسر رہے کیونکہ اس کے علاوہ اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔

ڈینالی کے مقام پر پہنچ کر ہم انسولین کو کسی سامان کے اندر رکھ دیتے تھے اور پھر اسے ساتھ لے کر ہی سو جاتے تھے۔ درجہ حرارت منفی 40 سینٹی گریڈ تک گر جاتا تھا اور یہ سمٹ کے جگہ پر اوسطاً ہمارے لیے منفی 32 سینٹی گریڈ ہوتا تھا۔
 

image


انسولین کو زیادہ ٹھنڈ سے محفوظ بنانے کے لیے ہم اس پر اپنی جیکٹ کے اندر بھی کئی تہیں پہنے ہوئے تھے تاکہ یہ جم نہ سکے۔ ہم اس وجہ سے انسولین کو باہر نہیں نکالتے تھے کیونکہ یہ بہت جلد جم جاتی ہے۔ جمی ہوئی انسولین کا مطلب ہے کہ اس کا اثر ختم ہو گیا ہے اور اس صورت میں خطرناک حد تک بلڈ شوگر لیول بڑھ سکتا ہے۔

دوردراز علاقوں میں بھی ہم اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ ہمارے پاس انسولین کی مقدار کافی ہے۔ اگر کسی چیز کو تبدیل کرنے کی ضرورت بھی ہو تو ہم فارمیسی سے زیادہ دور نہیں ہوتے تھے۔ ہم دور رہ بھی نہیں سکتے تھے۔

ذیابیطس کیا ہے؟
دنیا میں کئی ملین لوگ شوگر جیسے مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کی اکثریت یعنی 95 فیصد کو ٹائپ ٹو شوگر ہے جس کا مطلب ہے ان کا جسم مناسب مقدار میں انسولین کو استعمال نہیں کر رہا ہے۔ گلوکوز کے حصول کے لیے انسولین کا استعمال ضروری ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب جسم میں کاربوہائیڈریٹس ٹوٹتے ہیں۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس کو خوراک، ورزش اور ادویات کے استعمال کے ذریعے سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھار انسولین کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ خاص ٹائپ ٹو کے شکار گروپس کو زیادہ خطرے کا سامنا رہتا ہے جس میں امریکہ میں رہنے والے افریقی، لاطینی، آبائی امریکی، ایشیئن اور بوڑھے افراد بھی شامل ہیں۔

ٹائپ ون ایک ایسی آٹوامیون مرض ہوتا ہے جس میں جسم بالکل بھی انسولین پیدا نہیں کر سکتا لہٰذا جسم میں انسولین انجیکٹ کرنی پڑتی ہے۔ اس سے کسی رنگ، نسل اور جسامت کے انسان کو چھوٹ حاصل نہیں ہے۔ یہ مرض کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بعض دفعہ ابتدائی عمر کی ذیابیطس کہلاتی ہے لیکن یہ بات سچ نہیں ہے۔ اس مرض کی تشخیص عمر کے کسی حصے میں بھی ہو سکتی ہے۔

تقریباً 1.25 ملین امریکی ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 40000 نئے افراد میں اس مرض کی تشخیص ہو رہی ہے۔

پیٹرک اور مائیکل 2015 سے دوست ہیں اور ایک فلاحی ادارے سے وابستہ ہیں جو ٹائپ ون کے مریضوں سے متعلق کام کرتا ہے اور متاثرہ افراد کے خاندانوں کو مدد فراہم کرتی ہے۔

انھوں نے گذشتہ برس ایک پلان بنایا جس کا مقصد ایسے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے اور فلاحی ادارے کے لیے فنڈز اکھٹا کرنا ہے تاکہ ٹائپ ون کے مریضوں کو سیر و تفریح میں مدد کی جاسکے۔

پیٹرک کا کہنا ہے کہ ’ہمیں سیر و سیاحت کا بہت شوق ہے۔ گذشتہ سال میں نے جون موئر ٹریل پر ہائیکنگ کی اور اس کے بعد اس بارے مائیکل کو بتایا۔ میں ٹائپ ون ذیابیطس کے شکار ذیادہ سے ذیادہ مریضوں کو کسی بڑے ایڈونچر پر لے کر جانا چاہتا ہوں۔‘

’یہ ایک بہت اچھا احساس ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی ایسا ہو جو بلڈ گلوکوز کے اتار چڑھاؤ سے واقف ہو۔ ایسا کوئی اور نہیں ہے جس کے ساتھ میں ایسا ایڈونچر کرنا چاہوں۔‘

وہ زیادہ وقت اس بات کا پتا چلانے میں وقف کرتے ہیں کہ ان کو کون سی ٹیکنالوجی استعمال کرنی ہے جو تسلسل سے گلوکوز سسٹم کی مانیٹرنگ کر سکے اور یہ سب آپ کے فون پر یا کسی چھوٹی ڈیوائس پر مسلسل ریڈنگ کی شکل میں نظر بھی آ رہا ہو بجائے اس پرانے طریقے کے جس میں انگلی پر کٹ کے طریقے سے بلڈ گلوکوز کی ریڈنگ معلوم کی جاتی ہے۔

ان کی انسولین پمپ میں ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے جو انسولین سپلائی کو روک سکتی ہے جب بلڈ گلوکوز کا لیول بہت ہی کم ہو رہا ہو۔

ان دونوں نے اپنا مشن 41 دن میں مکمل کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا لیکن جب وہ ویسٹ ورجینیا میں واقع سپروس کنوب کا رخ کیے ہوئے تھے تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شیڈول سے ایک دن پہلے ہی سفر پر نکل چکے تھے اور اب یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنا سفر 39 یا 40 دنوں میں ہی مکمل کر لیں۔

پیٹرک کا کہنا تھا کہ ’ان کے انرجی لیول میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ تقریباً گذشتہ رات اڑھائی بجے ہم نے ایک منزل کو پار کیا۔ اس کے بعد صبح ساڑھے آٹھ بجے تک نو میل کی مزید ہائیکنگ کی۔ ہمیں کافی ملتی رہے اور آرام کا موقع بھی میسر رہے تو تب وہ ٹھیک رہتے ہیں۔‘

ہم لوگوں سے انرجی حاصل کرتے ہیں جو ہمیں سمٹ کے سلسلے میں آ کر ملتے ہیں اور یہ ہمیں حقیقت میں بہت خوش کر دیتا ہے۔ ذیابیطس ایک بہت تنہا کر دینے والی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم ہر وقت ہی بیمار لگیں۔ میرے خیال میں لوگوں کو یہ سمجھنے میں مشکل درپیش آتی ہے کہ یہ مرض 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔

ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کا رویہ مثبت ہو تو پھر آپ ایسی کیفیت میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس طرح کے مصروف شیڈول میں صحت مند خوراک کا ہونا بھی ضروری ہے۔

لیکن مائیکل کا کہنا ہے کہ اونچائی بھی آپ کی خوراک کو متاثر کرسکتی ہے۔ ابھی میرا چیلنج یہی ہے کہ میں زیادہ کھاؤں۔ اس میں کوئی تسلسل نہیں ہوتا۔ اس دوران ہم کبھی بھی آٹھ گھنٹے نہیں سو سکتے ہیں اور نہ ہی دن میں تین بار کھانا کھا سکتے ہیں۔ ہم ایک بار میں چند گھنٹوں کے لیے سوتے ہیں، ایک وین میں رہ رہے ہیں اور اب ایک گیس سٹیشن پر کھانا کھائیں گے۔
 

image


پیٹرک بھی اس بات پر متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اچھا کھانا کھا سکیں۔ لیکن ہم ابھی چاکلیٹ بار اور پنیر پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ہم اتنے زیادہ مصروف ہیں کہ 12 گھنٹے چلنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کھانے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے یا ہم نے ابھی کچھ ہلکا پھلکا چپس اور بسکٹ وغیرہ کھائے ہیں۔

مائیکل کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک خواب سے کم نہیں ہے۔ ہم نے اس کی پلاننگ کے لیے کئی ماہ خرچ کیے اور پھر ایک ایسا سیلاب آیا کہ اس نے ہمارا پلان ہی بدل کے رکھ دیا۔ ذیابیطس ہے ہی ایسا مرض۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے تیار ہیں کچھ بھی گڑبڑ ہو سکتی ہے۔

کئی دنوں تک میں جب جاگتا تھا تو اپنے آپ سے یہی کہتا تھا کہ میں یہ سب کیا کر رہا ہوں۔ پھر کچھ تجربات ایسے ہوئے جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

’شمالی کیرولینا میں ہم نے ایک ہائی سکول کے طالبعلم کے ساتھ ہائیکنگ کی جسے کچھ مشکلات کا سامنا تھا۔ جب ہم نے ہائیکنگ ختم کی تو اس کا کہنا تھا کہ اس سے اس کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ مستقبل روشن ہے۔‘

’اگر ہم جو کر رہے ہیں اس سے کسی ایک بھی بچے کا بھلا ہو جائے تو یہ ہمارے لیے بھی بہت قیمتی ہے۔‘
 


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: