محسنِ اسلام، جانشینِ پیغمبر، رفیقِ سفر وحضر، یارِ غار و
مزار صدیق اکبر ؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ تھے۔ آپ ؓ کا نام عبداللہ تھا اور
ابوبکر آپ کی کنیت تھی۔ آپؓ صدیق و عتیق کے القاب سے مشہور تھے۔ آپ ؓکے
والد کا نام ابوقحافہ عثمان بن عامر ؓ تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت
صخر بن عامر تھا جو امّ الخیر کے نام سے مشہور تھیں۔ آپؓ کا نسب نبی کریم ﷺ
کے ساتھ چھٹی پشت میں مرہ بن کعب سے جا ملتا ہے۔
قبل از اسلام حضرت ابوبکر کا نام عبدالکعبۃ تھا ۔اسلام سے پہلے بھی آپ ؓ
نہایت شفیق، مہربان اور سخی تھے۔ لاچاراور مفلس لوگوں کی مدد کرنا آپ کا
شیوہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد آپ ؓ کے خصائل حمیدہ میں مزید اضافہ ہوا اور
آپ ؓ نے دل کھول کر اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا۔ نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا کہ مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا کہ ابوبکر کے
مال نے دیا ہے۔ کتبِ سیر و تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ
نے ایسے سات غلاموں کوخرید کرآزادکیاجن پر ان کے آقا ظلم کیا کرتے تھے۔ ان
آزاد کردہ غلاموں میں حضرت بلالؓ بھی شامل ہیں۔
اسلام سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو نامناسب اور قبیح افعال کے ارتکاب
سے محفوظ رکھا۔ قبل از اسلام آپ نے بت پرستی کی اور نہ ہی کبھی شراب کو
ہاتھ لگایا۔ حالانکہ عصرِ جاہلیت میں اہلِ عرب شراب کے بے حد شوقین تھے۔ ان
کی کوئی بھی محفل شراب سے خالی نہیں ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ
کی خصوصی صحبت کی وجہ سے آپ میں بے شمار خصوصیات ودیعت رکھی تھیں۔ علمائے
اہلسنت کا اس بات پر اتفاق ہے انبیاء کرام کے بعد حضرت ابوبکرؓ تمام
انسانوں میں اعلیٰ و ارفع ہیں۔
حضرت ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ کے سفر و حضر کے ساتھی رہے۔ نبی کریمﷺ کے ساتھ آپ
کی رفاقت، محبت اور وفا کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ عادات و
اطوار،اخلاق و خصائل اور فکر و نظرکے لحاظ سے بھی آپ ؓرسول اللہﷺ سے کافی
مشابہ تھے۔ ذیل میں بطورِ نمونہ چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں جن سے حضرت
ابوبکرؓ کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ موافقت و مطابقت کا ثبوت ملتا ہے۔
ابتدائے وحی کے دور میں حضرت خدیجہؓ نے نبی کریمﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا
کہ بلاشبہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کی
مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں۔
جب حضرت ابوبکرؓ قریش کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کررہے تھے تو
برک الغماد کے قریب قبیلہ بنو قارہ کے سردار ابن الدغنہ آپ سے ملے اور آپ
سے مکہ چھوڑنے کہ وجہ معلوم کی۔ جب اس نے یہ سنا کہ آپ قریش کے مظالم سے
تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کررہے ہیں تو اس نے آپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے
وہی الفاظ کہے جو ابتدائے وحی کے وقت حضرت خدیجہ رضہ نے نبی کریمﷺ کو کہے
تھے۔
اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے اوصاف کو ذکر فرماتے ہوئے رؤف
رحیم کے الفاظ ارشادفرمائے ہیں یعنی آپ ﷺ نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔ دوسری
طرف حضرت ابوبکرؓ کے اوصاف ذکر کرتے ہوئے آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "ارحم امتی
بامتی ابوبکر" یعنی میری امت میں میری امت پر سب سے زیادہ رحیم ابوبکر ہیں۔
عرب شعر و شاعری میں کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ شعر و سخن کو اپنا فخر
سمجھتے تھے۔ لیکن آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شعر و شاعری کا علم عطانہیں
فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اور نہ ہم نے اس پیغمبر کو شاعری سکھائی
اور نہ یہ ان کے شایانِ شان ہے۔ (یٰسٓ: 69) اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ کے لیے
عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے اسلام سے قبل اور اسلام کے
بعد کبھی بھی شعر نہیں کہا۔
صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب معاہدہ طے ہوا تو حضرت عمر ؓ کی حمیت دین اور
غیرتِ اسلامی نے جوش مارا اور وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے
کچھ سولات کیے اور آپ نے ان کو جوابات عنایت فرمائے۔ کچھ وقت آپﷺ کے ساتھ
مکالمے کے بعد وہ ابوبکرصدیق کے پاس آئے۔ حضرت ابوبکر نے بھی ان کے سوالات
کا وہی جواب دیا جو رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا تھا۔
حضرت ابوبکرؓ کی حیاتِ مقدسہ ان گنت فضائل و مناقب سےبھری پڑی ہے۔ آپ ؓ نے
ہر موڑ پر نبی کریمﷺ کا ساتھ دیا۔ دین کی اشاعت و تبلیغ میں آپ ؓپر مشکل
حالات آئے، متعدد بار آپ کو ستایا گیا لیکن آپ ہمیشہ ڈٹے رہےاور کبھی بھی
کمزوری نہیں دکھائی ۔ زندگی بھر آپؓ رسول اللہﷺکے قرین و ہم نشین رہے
اوربعد از وفات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کونبی کریمﷺ کاپہلو نصیب فرمایا۔
22 جمادی الآخر سن13 ھ کو 63 سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر ؓ
نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپ کی خلافت کی مدت دوسال، تین ماہ اور دس دن
تھی۔
فلک نے انبیاء کے بعد کب تجھ سا بشر دیکھا
زمانے نے سدا تجھ کو نبی کا ہم سفر دیکھا
سفر ہو یا حضر ہو، غار ہو یا گنبذِ خضرا
جہاں آقا نظر آئے تجھے سب نے ادھر دیکھا
دل و جاں سے فدا کیونکر نہ ہو تجھ پر یہ عباسیؔ
کہ جب تیرے مریدوں میں علیؓ دیکھا، عمرؓ دیکھا
|